• Sun, 29 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

امریکہ: مارسیلس ولیمز؛ بے گناہ کو بچانے کی طویل جدوجہد کے باوجود سزائے موت

Updated: September 25, 2024, 4:02 PM IST | Washington

میسوری، امریکہ میں ۵۵؍ سالہ مارسیلس خلیفہ ولیمز کو گزشتہ رات زہریلا انجکشن دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان پر ایک سفید فام خاتون کے قتل کا الزام تھا جو مقدمے کی آخری سماعت تک ثابت نہیں ہوسکا تھا۔ شواہد نہ ہونے کے سبب ان کی سزائے موت پر ۲۰۱۵ء اور ۲۰۱۷ء میں روک لگائی گئی تھی۔ اس ضمن میں ’’انوسنس پروجیکٹ‘‘ نے کہا کہ ’’آج رات، میسوری نے بے گناہ کو موت کی سزا دے دی۔ ‘‘

Marcellus Williams. Photo: INN
مارسیلس ولیمز۔ تصویر: آئی این این

منگل کو ۵۵؍ سالہ مارسیلس ولیمز (عرفیت: خلیفہ) کو بون ٹیرے کی سرکاری جیل میں زہریلا انجکشن دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ خیال رہے کہ ان کی موت سے ۲؍ دن قبل ’’موت کی سزا‘‘ پر عمل درآمد نہ کرنے کیلئے ان کی حمایت میں سوشل میڈیا پر مہم جاری تھی۔ تاہم، امریکی سپریم کورٹ نے سزا پر روک لگانے سے انکار کردیا۔ ولیمز نے اپنے آخری پیغام میں لکھا کہ ’’ہر حال میں تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں۔‘‘ ان کا تحریر کردہ یہ بیان سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہا ہے۔ 

واضح رہے کہ مارسیلس ایک سیا فام ہیں جنہیں ۲۰۰۱ء میں ۱۹۹۸ء کی ڈکیتی کی ایک واردات میں ایک سفید فام خاتون فیلیسیا گیل کو قتل کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ گیل کو قتل کرنے کیلئے استعمال ہونے والے چاقو سے ملنے والا ڈی این اے مارسیلس کا نہیں کسی دوسرے شخص کا تھا۔ تاہم، جب سینٹ لوئس کاؤنٹی کے پراسیکیوٹرز کو نصف درجن سیاہ فام ججوں کو پیشگی خدمت سے ہٹانے کی اجازت دی گئی تو مارسیلس کو تقریباً تمام سفید فام جیوری نے موت کی سزا سنائی۔

یہ بھی پڑھئے: انٹرن شپ اسکیم امیدواروں کا انتخاب اے آئی کے ذریعے

مارسیلس کو موت کی سزا کی مخالفت مقتولہ گیل کے اہل خانہ اور پراسیکیوٹر کے دفتر دونوں نے کی مگر سپریم کورٹ نے سزا پر روک لگانے سے انکار کردیا۔ اس ضمن میں ’’انوسنس پروجیکٹ‘‘ (غلط طریقے سے سزا پانے والوں لوگوں کیلئے کام کرنے والا گروپ) نے کہا کہ ’’آج رات، میسوری نے بے گناہ کو موت کی سزا دے دی۔ مسٹر ولیمز کی کہانی ہمارے ملک کے ٹوٹے ہوئے مجرمانہ قانونی نظام میں پکڑے گئے بہت سے دوسرے لوگوں کی بازگشت ہے۔ ایک سیاہ فام آدمی جسے ایک سفید فام عورت کے قتل کا مجرم ٹھہرایا گیا، مسٹر ولیمز نے آخر تک اپنی بے گناہی برقرار رکھی۔

ان کی سزا دو عینی شاہدین کی گواہی پر مبنی تھی جنہیں گواہی کیلئے رقم دی گئی تھی۔ کسی بھی ڈی این اے شواہد نے مارسیلس کو مجرم نہیں ٹھہرایا۔ اور موجودہ سینٹ لوئس کاؤنٹی پراسیکیوٹنگ اٹارنی نے تسلیم کیا کہ مقدمے کے استغاثہ کی طرف سے کی گئی غلطیاں، بشمول قتل کے ہتھیار کو غلط استعمال کرنا اور جان بوجھ کر سیاہ فام ججوں کو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خارج کرنا، نے ایک شخص کو غلط طور پر سزا کا حقدار بنایا ہے۔‘‘ 

یہ بھی پڑھئے: لبنان: اسرائیلی بہیمانہ حملوں میں شدید جانی و مالی نقصان، حزب اللہ کی جوابی کارروائی

مارسیلس کی موت کی خبر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، ممتاز مسلم اسکالر عمر سلیمان نے ایکس پر لکھا کہ ’’ایک غیر منصفانہ دنیا سے فرار ہونے والے دیگر شہداء کے ساتھ آرام کریں، پیارے بھائی۔‘‘
یاد رہے کہ اس سال کے اوائل میں سینٹ لوئس کاؤنٹی کے پراسیکیوٹر ویزلی بیل، جو ڈیموکریٹ کانگریس کیلئے انتخاب لڑ رہے ہیں، نے ولیمز کی سزا کو ختم کرنے کیلئے کہا تھا۔ انہوں نے ان کی بے گناہی کے واضح اور قابل یقین ثبوت کا حوالہ دیا تھا۔
اس ضمن میں امریکہ میں سزائے موت کے انفارمیشن سینٹر (ڈی پی آئی سی) نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا کہ ’’سزائے موت ،ایک بے گناہ شخص کو پھانسی دینے کا موروثی خطرہ رکھتی ہے۔‘‘ گروپ کا کہنا ہے کہ ’’۱۹۷۳ء کے بعد سے امریکہ میں کم از کم ۲۰۰؍ ایسے افراد کو بری کیا گیا ہے ہیں جنہیں غلط طور پر سزا سنائی گئی تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK