جمعرات کو کملا ہیرس نے اسرائیلی وزیر اعظم سے وہائٹ ہاؤس میں ملاقات کی اور غزہ کی سنگین صورتحال کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا اورفوری جنگ بندی کے معاہدے پر عمل در آمدکرنا کا عزم کیا۔
EPAPER
Updated: July 26, 2024, 5:55 PM IST | Washington
جمعرات کو کملا ہیرس نے اسرائیلی وزیر اعظم سے وہائٹ ہاؤس میں ملاقات کی اور غزہ کی سنگین صورتحال کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا اورفوری جنگ بندی کے معاہدے پر عمل در آمدکرنا کا عزم کیا۔
امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران محصور غزہ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ جمعرات کو ہیرس نے نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’میں نے غزہ کی سنگین صورتحال کے بارے میں اپنی تشویش کو واضح کیا، جس میں ۲۰؍ لاکھ سے زائد افراد کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ یہ ملاقات نیتن یاہو کے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے ایک دن بعد ہوئی، جہاں انہوں نے دعویٰ کیا کہ غزہ کی جنگ میں شہری جنگ کی تاریخ میں جنگجوؤں اور غیر جنگی ہلاکتوں کا سب سے کم تناسب ہے۔ کملا ہیرس نے کہا کہ غزہ میں گزشتہ ۹؍ مہینوں میں جو کچھ ہوا ہے وہ ’’تباہ کن‘‘ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ان سانحات کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ہم خود کو دکھوں کے سامنے بے حس ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے اور میں اس معاملے پر خاموش نہیں رہوں گی۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: حماس کے سابق لیڈر مصطفیٰ ابوآراء کی اسرائیلی قید میں موت
اس سے قبل نیتن یاہو نے امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی، جنہوں نے اتوار کو اپنی صدارتی انتخابی مہم ختم کر دی اور کملا ہیرس کی ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار بننے کی توثیق کی۔ اپنے ریمارکس کے ساتھ ہیرس نے غزہ کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی عکاسی کی، جبکہ نیتن یاہو پر زور دیا کہ وہ محصور علاقے میں فوری طور پر جنگ بندی کو یقینی بنائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے صدر جو بائیڈن کی قیادت کا شکریہ، جنگ بندی اور یرغمالیوں کے معاہدوں کیلئے میز پر ایک معاہدہ موجود ہے، میں نے ابھی وزیر اعظم نیتن یاہو سے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ ہیرس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ آگے بڑھنے کیلئے پرعزم ہیں جو اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کا باعث بن سکتی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ ابھی اس کا تصور کرنا مشکل ہے، لیکن دو ریاستی حل ہی واحد راستہ ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اسرائیل ایک محفوظ یہودی اور جمہوری ریاست رہے، اور ایک ایسا راستہ جو فلسطینیوں کو آخر کار آزادی، سلامتی اور خوشحالی کا ادراک کر سکے۔ وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔