• Sat, 26 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اترکاشی میں مسجد مخالف مظاہرے میں مسلمانوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ، ۴؍ پولیس اہلکار زخمی

Updated: October 25, 2024, 10:11 PM IST | Lucknow

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، اترکاشی میں تشدد کے دوران ہندوتوا شرپسندوں نے مسلمانوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔اس جھڑپ میں چار پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔

Miscreants can be seen. Photo: X
شرپسندوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ تصویر: ایکس

جمعرات کو اتراکھنڈ کے قصبہ اترکاشی میں کاشی وشواناتھ مندر کے قریب ۵۵ سال پرانی مسجد کو منہدم کرنے کا مطالبہ کرنے کیلئے ہندوتوا تنظیموں کی قیادت میں نکالی گئی ریلی کے دوران پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، تشدد کے دوران شرپسندوں نے مسلمانوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج کیا۔ اس جھڑپ میں چار پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔  ذرائع کے مطابق، سنیوکت سناتن دھرم رکھشک سنگھ کے بینر تلے منعقدہ احتجاج میں بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد اور دیگر ہندوتوا گروپوں کے کارکنان بھی شامل تھے۔ مظاہرین نے دعویٰ کیا کہ مسجد غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: جے این یو: مغربی ایشیاء میں تنازع کے موضوع پر تین سیمینارمنسوخ کر دیئے گئے

دی ہندو کے مطابق، اترکاشی کے ضلع مجسٹریٹ مہربان سنگھ بشت نے اس ماہ کے اوائل میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ مسجد کے پاس تمام ضروری دستاویزات موجود ہیں اور اسے وقف بورڈ کی جانب سے رجسٹر بھی کروایا گیا ہے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ امیت سری واستو نے بتایا کہ پولیس بیریکیڈز  کے قریب پہنچ کر بھیڑ مشتعل ہوگئی تھی۔ مظاہرین نے احتجاجی مارچ کو طے شدہ راستے کے برخلاف مسجد کی طرف موڑنے کی کوشش کی، جس کے بعد پولیس افسران نے مداخلت کی۔ ٹائمز آف انڈیا نے سری واستو کے حوالے سے بتایا کہ جب مظاہرین کو روکا گیا تو انہوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا جس میں چار اہلکار زخمی ہو گئے۔ دی ہندو کے مطابق، دیو بھومی رکھشا ابھیان کے سربراہ درشن بھارتی نے تقریباً ۳۰ مظاہرین کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا۔

یہ بھی پڑھئے: یو اے پی اے کیس: شرجیل امام کی ضمانت کی سماعت تیز کریں: سپریم کورٹ کا حکم

سری واستو نے مزید کہا کہ پولیس سیکوریٹی کیمرے کی فوٹیج کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ ملوث افراد کی شناخت کی جا سکے۔ 
اگرچہ ضلعی انتظامیہ نے حال ہی میں مسجد کی قانونی حیثیت کی تصدیق کی ہے، ہندوتوا تنظیموں نے اسے مسترد کر دیا۔ سنیوکت سناتن دھرم رکشک سنگھ نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ ان کے پاس مسجد کی غیر قانونی حیثیت کو ثابت کرنے کیلئے دستاویزات موجود ہیں جنہیں وہ عوامی طور پر پیش کریں گے۔
دہرادون کی مسلم سیوا سنگٹھن کے صدر نعیم قریشی نے تشدد کی مذمت کی اور انتظامیہ کے ردعمل پر تنقید کی۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، قریشی نے ریاست کی مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK