Updated: March 29, 2025, 2:47 PM IST
| Lukhnow
علی گڑھ کے چلکورہ گاؤں میں۱۰۰؍ سے زیادہ مسلم خاندانوں کو مقامی انتظامیہ کی جانب سے بے دخلی کے نوٹس ملنے کے بعد ان کے مستقبل کو لے کر خدشات لاحق ہو گئے ہیں۔ ان کے گھروں پر چسپاں کیے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ انہیں عید کے بعد۱۵؍ دن کے اندر گھر خالی کرنا ہوگا۔
علی گڑھ کے چلکورہ گاؤں میں۱۰۰؍ سے زیادہ مسلم خاندانوں کو مقامی انتظامیہ کی جانب سے بے دخلی کے نوٹس ملنے کے بعد ان کے مستقبل کو لے کر خدشات لاحق ہو گئے ہیں۔ ان کے گھروں پر چسپاں کیے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ انہیں عید کے بعد۱۵؍ دن کے اندر گھر خالی کرنا ہوگا۔ورنہ بلڈوزروں کے ذریعے ان کے مکانوں کو گرایادیا جائے گا۔ اس خبر نے پورے گاؤں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور بی جے پی کی حکومت والے ریاستوں میں بلڈوزر کے استعمال پر بحث کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: مہاراشٹر: ہندوانتہا پسندوں کا راہوری کی درگاہ پرحملہ، گنبد پرزعفرانی پرچم لہرایا
ان خاندانوں کا کہنا ہے کہ وہ یہاں۴۰ سے ۵۰؍ سال سے رہ رہے ہیں۔ جمعرات کو ان میں سے کئی لوگ ضلعی مجسٹریٹ (ڈی ایم) سے ملنے کیلئے ضلعی دفتر گئے۔ انہوں نے زمین کے مالکانہ حقوق ثابت کرنے کیلئے بینامہ (خرید و فروخت کے دستاویز) دکھائے۔ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ، گجرات اور آسام جیسی ریاستوں — جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں — میں حالیہ عرصے میں بلڈوزر کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ غیرقانونی تعمیرات کو ہٹانےکیلئے کیا جاتا ہے۔ اتر پردیش میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو سخت اقدامات کی وجہ سےبلڈوزر بابا بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ ناانصافی ہے اور خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: رمضان میں اتراکھنڈ میں ۱۳۶؍ مدارس سیل، حکومت نےغیر قانونی سرگرمیوں کا حوالہ دیا
اب تک انتظامیہ کی طرف سے کوئی واضح بیان نہیں آیا ہے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ نوٹس کیوں جاری کیے گئے ہیں یا آگے کیا اقدامات ہوں گے۔واضح رہے کہ ایسا صرف علی گڑھ میں نہیں ہو رہا ہے۔ اتر پردیش سمیت کئی جگہوں پر بلڈوزروں کے ذریعے گھروں اور دکانوں کو گرایا جا چکا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ عوامی بھلائی کیلئے کیا جا رہا ہے، لیکن دوسروں کو اس سے اختلاف ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ غریبوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اور سپریم کورٹ نے بھی ان تخریب کاریوں کے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس علاقے کے ایک مکین اسلم جنہیں بھی نوٹس ملا ہے کانپتی آواز میں کہا کہ ’’ ہمارے پاس جانےکیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ ہمارا گھر ہے۔ اگر وہ ہمیں یہاں سے نکال دیں گے، تو ہم کیا کریں گے؟ان خاندانوں کیلئے، اگلے چند دن ہی سب کچھ طے کر دیں گے۔