Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکی ٹیرف سے یوپی کے برآمد کنندگان پریشان

Updated: April 15, 2025, 10:31 AM IST | Agency | Lucknow

اگر ٹرمپ ٹیرف نافذ ہوتے ہیں تو اتر پردیش کے برآمد کنندگان کو امریکی مارکیٹ میں سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

The problems of Banarasi saree traders in UP have also increased. Photo: INN
یوپی میں بنارسی ساڑی کے تاجروں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ تصویر: آئی این این

مختلف ممالک سے درآمدات پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے عائد ڈیوٹی کا خوف اتر پردیش کے برآمد کنندگان پر بھی صاف نظر آرہا ہے۔ اگرچہ جو ڈیوٹی اپریل کے پہلے ۱۵؍دنوں میں بافذ  کی جانی تھی اسے ۹۰؍دن کیلئے  ملتوی کر دیا گیا ہے تاہم برآمد کنندگان مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ اگر ٹرمپ ٹیرف نافذ ہوتے ہیں  تو یوپی  کے برآمد کنندگان کو امریکی مارکیٹ میں مسابقتی رہنے میں سب سے بڑا چیلنج درپیش ہوگا۔
 اتر پردیش کے مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزیز(ایم ایس ایم ایز) کئی اشیاء جیسے چمڑا، ریشم، گارمنٹس، قالین، شیشہ، پیتل کی اشیاء وغیرہ کو امریکی بازار میں برآمد کرتے ہیں۔ `ٹرمپ ٹیرف  یعنی ہندوستانی مصنوعات پر ڈیوٹی میں اضافے کی وجہ سے  ان کیلئے  ترکی، فلپائن، متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، آسٹریلیا، چلی، اسرائیل اور سنگاپور جیسے ممالک کی مصنوعات سے مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ ٹرمپ نے ان ممالک کی مصنوعات پر۱۰؍فیصد کے قریب ٹیرف لگا دیا ہے۔ اسی لئے برآمد کنندگان نئے بازاروں کو تلاش کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور امریکہ کے ساتھ بات چیت میں اتر پردیش کے ایم ایس ایم ای سیکٹر کو شامل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:’احتجاج کے دوران جوش میں آکر ہوش کا دامن نہ چھوڑیں‘

امریکی ڈیوٹی کو ۳؍ ماہ کیلئے مؤخر کرنے کے اعلان سے پہلے ہی خریداروں نے ریاست کے برآمد کنندگان پر قیمتیں کم کرنے کیلئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔ ریشم، قالین اور چمڑے کے برآمد کنندگان کو مارچ کے آخری ہفتے سے ایسے آرڈر ملنا شروع ہو گئے تھے۔ اترپردیش کے برآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ انہوں نے قیمتیں خام مال کی قیمت، بین الاقوامی مارکیٹ میں دیگر ممالک کی مصنوعات کی قیمتوں اور اپنی قیمت کے مطابق طے کی تھیں۔ اب قیمت کم کرنے کا مطلب نقصان اٹھانا ہوگا۔
 قالین  صنعت کو دھچکا
 ٹرمپ ٹیرف نے قالین کی صنعت کیلئے  ایک بڑا بحران کھڑا کر دیا ہے جسے گزشتہ چند برسوں سے بین الاقوامی مارکیٹ میں سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ اتر پردیش میں بھدوہی اور مرزا پور کا ملک سے۸۰؍ فیصد قالین برآمد ہوتا ہے۔ تقریباً۱۵۰۰؍ قالین برآمد کنندگان میں سے ۸۰۰؍ اس ریاست سے ہیں اور ان میں سے ۵۶۰؍ صرف بھدوہی سے ہیں۔ ان قالین سازوں کو خام مال کے مہنگے ہونے، بُننے والوں کی کمی اور ترکی، چین اور بلجیم سے قالینوں کے مقابلے کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔ قالین برآمد کرنے والے مشاہد حسن کا کہنا ہے کہ `بھدوہی میں ہاتھ سے بنے ہوئے قالین کی قیمت۱ء۵؍ لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے، جس پر امریکی خریدار۲۵؍ فیصد کی رعایت مانگ رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں وہ اپنے اخراجات بھی وصول نہیں کر پائیں گے اور انہیں بازار چھوڑنا پڑے گا۔
 ریشم کی صنعت کا پریمیم مارکیٹ
 بنارس کے ریشم کی صنعت پر دوسرے ممالک سے مقابلہ کرنےکیلئے کوئی دباؤ نہیں ہے، لیکن ان کی طرف سے بھی قیمتیں کم کرنے کے مطالبات آرہے ہیں۔ امریکہ ہاتھ سے بنے  ہوئے مصنوعات جیسے ریشم کے کپڑے، بیڈ کور، صوفے کی پشت، دیوار پر ہینگنگ، ڈنر گاؤن، جیکٹس، اسکارف وغیرہ کا ایک بڑا مارکیٹ ہے۔ ۲۴۔۲۰۲۳ءمیں امریکہ کو ملبوسات اور کپڑوں کے سامان کی کل برآمدات کا نصف سے زیادہ بنارسی ریشم تھا۔ یہاں تک کہ پچھلے مالی سال میں  بنارسی سلک کا۷۰۰؍ کروڑ ڈالر کے ملبوسات میں بڑا حصہ تھا جو امریکہ کو گیا۔ لیکن ٹرمپ کے ٹیرف کے بعد ابہام ہے اور ریشم کے برآمد کنندگان کو پچھلے ایک ماہ سے کوئی نیا آرڈر نہیں مل رہا ہے۔ ایکسپورٹرس کا کہنا ہے کہ ایسٹر کے موقع پر یورپ اور امریکہ سے آرڈرس کا سیلاب آتا تھا جو اس بار نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھئے:’روپے‘ کریڈٹ کارڈ سے گوگل پے کے ذریعہ یوپی آئی ادائیگی ممکن

چمڑا، پیتل اور آم بھی متاثر ہوئے 
 اتر پردیش کے چمڑے کی مصنوعات کیلئے امریکہ اور یورپ کے بازار بھی بہت اہم ہیں۔ چمڑے کے برآمد کنندگان کیلئے واحد راحت یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ان کے حریف بھی ٹیرف سے اچھوتے نہیں ہیں اور زیادہ پریشانی میں ہیں۔ لیکن ان برآمد کنندگان کو قیمتوں کے معاملے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چمڑے کے تاجر حسیب صدیقی کا کہنا ہے کہ اب ہمیں ترکی، قزاخستان، ویت نام اور آسٹریلیا جیسے ممالک سے بھی مقابلہ  ہے۔ مراد آباد  سے پیتل کے سامان کے برآمد کنندگان زیادہ پر سکون دکھائی دیتے ہیں۔ پیتل کے تاجر عظیم اللہ کا کہنا ہے کہ امریکی مارکیٹ میں پیتل کی آرائشی اشیاء اور مقابلوں وغیرہ میں تقسیم کی جانے والی ٹرافیز اور کپ کی مانگ بڑھ گئی ہے جو جاری رہے گی۔ آم کا سیزن  شروع ہونے کو ہے لیکن تاجر نرخوں کی وجہ سے نہیں بلکہ دیگر وجوہات کی وجہ سے پریشان ہیں۔ آم کے برآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال صرف۵؍ ٹن مال امریکہ گیا اور۱۰؍ گنا زیادہ مال یورپ کو برآمد کیا گیا۔ لیکن اگر قیمت کم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 
بنارسی ساڑی اور ٹیکسٹائل ایکسپورٹرس  پریشان
 وارانسی میں مقیم ریشم برآمد کنندہ رجت موہن پاٹھک نے کہا کہ امریکی ٹیرف نے بنارسی ساڑی اور کپڑے کے برآمد کنندگان میں تشویش پیدا کردی ہے۔ یہ ہندوستان کی ٹیکسٹائل صنعت کا ایک اہم حصہ ہے۔ امریکہ ان ہاتھ سے بنی تخلیقات کیلئے  ایک بڑا مارکیٹ رہا ہے اور یہ ٹیرف خاص طور پر وارانسی کے کاریگروں اور تاجروں کو متاثر کرے گا، جو امریکی مانگ پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK