سنتوش دیشمکھ کے قتل کے ملزم نے پونے میں سی آئی ڈی کے دفتر پہنچ کر خود سپردگی کی۔ اس سے پہلے ویڈیو جاری کرکے خود کو بے گناہ قرار دیا ۔ والمیک سے پہلے اس کے کارکنان سی آئی ڈی دفتر پہنچ کر نعرے لگا رہے تھے ` سمبھاجی راجے نے پوچھا کہ دیویندر فرنویس سے دھننجے منڈے کی ملاقات کے بعد ہی والمیک کو خود سپردگی کا خیال کیوں آیا؟ انجلی دمانیا نے سوال کیا کہ یہ پولیس اور مجرم کے درمیان کوئی سمجھوتہ تو نہیں ہے؟ جرنگے نے بھی تنقید کی
والمیک کراڈ پولیس حراست میں ۔ تصویر: پی ٹی آئی
بیڑ ضلع کے گائوں مسا جوگ کے سرپنچ سنتوش دیشمکھ کے قتل کے الزام کی وجہ سے گزشتہ پورے ماہ سرخیوں میں رہنے والے والمیک کراڈ نے بالآخر منگل کے روز پونے میں خود کو پولیس کے سپرد کر دیا۔ لیکن فلمی انداز میں ہوئی اس خود سپردگی پر کئی طرح کے سوال اٹھ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ والمیک کراڈ کو ریاستی وزیر دھننجے منڈے کا دایاں ہاتھ کہا جاتا ہے۔ ان کی خود سپردگی سے پہلے دھننجے منڈے نے دیویندر فرنویس سے ملاقات کی ۔
صبح ۹؍ بجے ہی سے پولیس بندوبست
والمیک کراڈخود کو پولیس کے حوالے کرنے والا ہے یہ بات میڈیا اور اس کے کارکنان کو پہلے ہی معلوم تھی اور کہاں کرنے والا ہے یہ بھی معلوم تھا۔ پونے سی آئی ڈی کے دفتر میں صبح ۹؍ بجے ہی سے میڈیا والے اور والمیک کراڈ کے کارکنان پہنچنے شروع ہو چکے تھے۔ اس دوران پولیس نے بھی دفتر کے احاطے میں بندوبست سخت کر دیا۔ صبح ۱۰؍ بجے پونے کرائم برانچ کے ڈی سی پی نکھل پنگلے، اور ڈیویژن ایک کے سندیپ گل سی آئی ڈی کے دفتر پہنچے اور بندوبست کا جائزہ لیا۔ نے صبح ۱۱؍ بجے کے آس پاس میڈیا میں یہ خبر آنے لگی کہ والمیک کراڈ دوپہر ۱۲؍ بجے پونے سی آئی ڈی کے سامنے خود سپردگی کرے گا۔
والمیک کراڈ نے ویڈیو جاری کیا
۱۲؍ بجے کے آس پاس والمیک کراڈ نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو جاری کیا جس میں اس نے کہا کہ وہ بے گناہ ہے ۔ وہ خود چاہتاہے کہ سرپنچ سنتوش دیشمکھ کے قاتلوںکو گرفتار کیا جائے اور انہیں پھانسی کی سزا ہو لیکن خود اس پر اس معاملے میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے ا سلئے وہ قانون کا احترام کرتے ہوئے خود کو پولیس کے حوالے کر نے جا رہاہے ۔
پولیس کا بندوبست اور کارکنان کا مجمع
تقریباً سوا ۱۲؍ بجے والمیک کراڈ ایک سفید رنگ کی اسکارپیو گاڑی میں بیٹھ کر سی آئی ڈی دفتر میں داخل ہوا۔ اسے دیکھتے ہی اس کے کارکنان نے نعرے لگانے شروع کئے۔ پولیس نے نعرے لگانے والوں کو احاطے سے باہر کیا۔ گاڑی سے اترتے ہی والمیک کراڈ کو حراست میں لیا۔ اس دوارن میڈیا نے والمیک سے پوچھا کہ آپ گزشتہ ۸؍ دنوں سے کہاں تھے؟ اس نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ پولیس اسے دفتر کے اندر لے گئی اور اطلاع کے مطابق تقریباً ایک بجے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پرشانت برڈے نے اس سے پوچھ تاچھ شرع کی۔
یہ بھی پڑھئے: ایوت محل میں آر پی آئی یوتھ کے ضلع صدر کی کلکٹر آفس میں خود کشی کی کوشش
انجلی دمانیا: کیا پولیس اور مجرم کے درمیان کوئی سمجھوتہ ہوا ہے ؟
خدا خدا کرکے کسی طرح پولیس نے سنتوش دیشمکھ قتل معاملے میں والمیک کراڈ کو گرفتار کر لیا ہے۔ وہ اس کی خود سپردگی کرنے پر۔ اس خود سپردگی نے خود کئی سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ وہ سارے لیڈران اور سماجی کارکنان جنہوں نے کراڈ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا اب اس کی خود سپردگی پر سوال کھڑے کر رہے ہیں۔ چھترپتی شیواجی کے خاندن سے تعلق رکھنے والے سمبھاجی راجے چھترپتی نے سوال کیا ہے کہ ایک رو زقبل دھننجے منڈے نے دیویندر فرنویس سے ملاقات کی اور اگلے روز والمیک کراڈ خود سپردگی کر دیتا ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک تحقیق طلب معاملہ ہے کہ فرنویس اور منڈے کی ملاقات کے بعد ہی والمیک کراڈ کو خود سپردگی کا خیال کیوں آیا؟ انہوں نے کہا کہ والمیک کراڈ پر ہفتہ وصولی کا معاملہ درج کیا گیا حالانکہ وہ سنتوش دیشمکھ کے قتل میں براہ راست ملوث ہے۔ اس لئے اس پر قتل کا معاملہ درج کرنا ضروری ہے۔ سمبھاجی راجے نے مطالبہ کیا کہ دھننجے منڈے کو کابینہ سے فوری طور پر برخاست کیا جائے۔ انہیں بیڑ کا نگراں وزیر ہر گز نہ مقرر کیا جائے۔ معروف سماجی کارکن انجلی دمانیا نے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ۱۷؍ دسمبر کو والمیک کراڈ کا فون آخری بار پونے میں بند ہوا تھا۔ جبکہ اس نے پولیس کو خود سپردگی کیلئے ۳۱؍ دسمبر کو جو فون کیا وہ بھی پونے سے کیا۔ اس سے یہ بات صاف ہے کہ وہ اتنے دنوں سے پونے ہی میں تھا۔ تو کیا پولیس اور ملزم کے درمیان کوئی سمجھوتہ ہوا ہے؟ انہوں نے کہا کراڈ کے دھننجے منڈے سے لے کر دیویندر فرنویس تک اور شرد پوار سے لے کر جینت پاٹل تک ہر کسی سے تعلقات تھے۔ یہ سب ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر سیاست کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب سیاستداں اور مجرموں کے درمیان دوستی ہوگی تو عوام کو انصاف کہاں سے ملے گا؟ مراٹھا سماجی کارکن منوج جرنگے نے بدھ کو سنتوش دیشمکھ کے بھائی سے ملاقات کی۔ اس وقت انہوں نے کہا حکومت ملزمین کو بچانے کی کوشش ہرگز نہ کرے ورنہ عوام سڑکوں پر اتر آئیں گے۔ انہوں نے کسی کا نام لئے بغیر کہا کہ آپ مجرم کا ساتھ دینے والے وزیر کے ساتھ بیٹھ کر چائے بسکٹ کھاتے ہیں۔ یہ مناسب نہیں ہے آپ مقتول کے بچوں کو ریاست کے بچے سمجھیں اور انہیں انصاف دلانے کی کوشش کریں۔ اس معاملے میں جتیندر اوراوہاڑ اور سندیپ شیر ساگر نے بھی تنقید کی ہے۔