کل،۲۰؍ مئی ہے جب ممبئی اور ریاست ِ مہاراشٹر کے دیگر کئی حصوں میں اٹھارہویں لوک سبھا کی تشکیل کیلئے رائے دہندگان اپنی رائے ای وی ایم کے سپرد کریں گے۔
EPAPER
Updated: May 19, 2024, 7:57 AM IST | Shahid Latif | Mumbai
کل،۲۰؍ مئی ہے جب ممبئی اور ریاست ِ مہاراشٹر کے دیگر کئی حصوں میں اٹھارہویں لوک سبھا کی تشکیل کیلئے رائے دہندگان اپنی رائے ای وی ایم کے سپرد کریں گے۔
کل،۲۰؍ مئی ہے جب ممبئی اور ریاست ِ مہاراشٹر کے دیگر کئی حصوں میں اٹھارہویں لوک سبھا کی تشکیل کیلئے رائے دہندگان اپنی رائے ای وی ایم کےسپرد کریں گے۔ اِدھر کئی ہفتوں سے مسلم محلوں میں خاصی بیداری دیکھنے کو مل رہی ہے۔ خطباتِ جمعہ میں توجہ دلائی گئی، مساجد کے ذریعہ اعلانات کئے گئے، سماجی و ملی تنظیمیں سرگرم عمل رہیں اور خواتین نیز نوجوانوں کیلئے خصوصی میٹنگیں رکھی گئیں تاکہ اُن میں شہریت کا شعور بیدار کیا جائے اور ووٹنگ میں لازماً حصہ لینے پر اُنہیں آمادہ کیا جائے۔ اس طرح بیداری تو نظر آئی مگر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اسے سرگرمی کہا جائے یا بیداری۔ کیایہ بیداری ہے؟ جی نہیں، یہ مساجد انتظامیہ، ذمہ دار تنظیموں اور حساس شہریوں کی فرض شناسی اور حسن عمل ہے۔ اُنہوں نے ضرورت محسوس کی کہ عوام کو بیدار کیا جائےکیونکہ غفلت سے سیاسی بے اثری بڑھتی ہے اور مختلف النوع مسائل پیدا ہوتے ہیں، اس لئے اُن کی فعالیت بڑھ گئی مگر کیا اُن کی مساعیٔ جمیلہ سے بیداری آئی؟
بیداری آئی یا نہیں آئی، آئی تو کتنی؟ اس کا فیصلہ تب ہی ہوسکے گا جب مسلم رائے دہندگان بڑی تعداد میں پولنگ بوتھوں کا رُخ کریں گے اور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ بیداری تب محسوس ہوگی جب یہ نہیں پوچھا جائیگا کہ کتنے فیصد پولنگ ہوئی بلکہ یہ دریافت کیا جائیگا کہ کتنے فیصد پولنگ نہیں ہوسکی۔ سوال یہ ہے کہ ووٹ کیوں دیا جائے؟ حق رائے دہی کا استعمال کیوں ضروری ہے؟
(۱) شہریت کے احساس کو مستحکم کرنے کیلئے
شہریت کا احساس کیا ہے؟ شہریت کا احساس یہ ہے کہ اِس ملک کا ایک ایک باشندہ یہ محسوس کرے کہ وہ اس ملک کا شہری ہے۔ اگر آپ کسی بڑے ادارے سے وابستہ ہیں تو وابستگی کا احساس آپ میں فخر کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہ جو احساس ِ شہریت ہے، یہ عام دنوں میں کروٹ نہیں لیتا۔ عام دنوں میں انسان روزمرہ کی مصروفیات میں گم رہتا ہے۔ سال بھر میں چند ہی دن ایسے آتے ہیں جب احساس ِ شہریت دوچند ہوتا ہے۔ تصور کیجئے، ووٹنگ لسٹ میں جب پہلی بار کسی کا نام آتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ کیوں خوش ہوتا ہے؟اس لئے کہ اُس میں شہری ہونے کا احساس جاگتا ہے۔ اسی طرح ووٹ دے کر بھی شہریت کا احساس بیدار ہوتا ہے۔ اُنگلی پر سیاہی کا نشان کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ کسی عالی شان اجلاس میں شرکت کیلئے اگر داخلہ کارڈ لازمی ہوتا ہے تو ہم گیٹ کیپر کو کارڈ پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم مدعو ہیں۔ انگلی پر سیاہی کا نشان بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ ہم اِس ملک کے شہری ہیں اور شہریت کا تقاضا پورا کرکے آئے ہیں۔
(۲)فروغ جمہوریت میں حصہ داری
ووٹنگ میں حصہ لے کر آپ جمہوریت میں اپنی حصہ داری کو یقینی بناتے ہیں۔ چونکہ اس نعمت کو حاصل کرنے میں ہم نے کوئی کردار نہیں نبھایا ہے بلکہ یہ نعمت ہمیں کسی زحمت کے بغیر حاصل ہوگئی ہے اسلئے ہم اس کی قدر نہیں کرتے۔ خدانخواستہ ووٹنگ کا حق حاصل نہ ہوتا تو؟ اس سوال پر غور کیجئے اور چونکہ یہ حق حاصل ہے اس لئے اس کی قدر کرتے ہوئے ووٹنگ میں حصہ لیجئے۔ جمہوریت میں ایک ایک ووٹ کی قیمت ہوتی ہے۔ یہ سوچ کر ووٹ دینے جائیے کہ آپ ہی کے ووٹ سے ملک و ملت کی تقدیر بدلنے جارہی ہے۔ اپنے ووٹ کی قیمت خود سمجھنا ہی اسے قیمتی بنانا ہے۔
(۳) سیاسی بے اثری کو دور کرنے کیلئے
ایک عرصے سے یہ بات زیر بحث آ رہی ہے کہ مسلمانوں کے متعدد مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر بے اثر اور بے وزن ہوگئے ہیں۔ اگر آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا ہے تو بے اثری کو با اثری میں اور بے وزنی کو وزن میں تبدیل کرنے کیلئے لازم ہے کہ حق رائے دہی کا استعمال کرکے حالات کو بدلنے کی کوشش کی جائے۔ بہت سے لوگ یہ سوچ کر ووٹ نہیں دیتے کہ ایک اُن کے ووٹ نہ دینے سے کیا ہوجائیگا؟ اگر کسی بستی میں پانچ سو لوگ اسی طرز فکر کے اسیر ہوکر ووٹ دینے نہ جائیں اور ایک ناپسندیدہ اُمیدوار ۴۹۹؍ ووٹوں سے جیت جائے تو کیا یہ اُن لوگوں کا کیا دھرا نہیں مانا جائیگا جنہوں نے یہ سوچ کر ووٹ نہیں دیا کہ ایک میرے ووٹ دینے سے کیا ہوگا؟
(۴) حالات سے نمٹنے کیلئے
حالات کو بدلتا دیکھ کر خوش ہولینے سے کام نہیں چلتا بلکہ تبدیلی کو یقینی بنانا ضروری ہوتا ہے اور اس کیلئے زحمت اُٹھانی پڑتی ہے۔ ووٹ دے کر گھر لوٹنے میں ایک گھنٹہ سے زیادہ صرف نہیں ہوتا۔ اگر کارپوریشن، اسمبلی اور پارلیمنٹ کے الیکشن کیلئے پانچ سال میں ایک ایک بار ووٹ دینے جانا ہو تو پانچ سال میں صرف تین مرتبہ ایک ایک گھنٹہ نکالنا کوئی بڑی بات نہیں ہے جبکہ اس کے ذریعہ بہت بڑی بات وقوع پزیر ہوتی ہے، اپنا ووٹ رجسٹر ہوتا ہے اور اپنی رائے شمار کی جاتی ہے۔الگ الگ حلقوں کے پولنگ فیصد کو دیکھ کر بھی سیاسی پارٹیاں اپنی ترجیحات طے کرتی ہیں اس لئے ایک ایک ووٹ پر محنت ہونی چاہئے۔
(۵) شرمندگی سے بچنے کیلئے
آج ملک کے آئین اور جمہوریت کی حفاظت کا چیلنج سامنے ہے۔ اس حفاظتی جدوجہد میں شریک ہوکر ہم اپنا اقبال بلند کریں گے اور جب آئندہ نسل ہم سے پوچھے گی کہ ہم نے آئین اور جمہوریت کو بچانے کیلئے کیا کیا ہے تو ہمارا سر فخر سے بلند ہوگا، شرم سے جھکا ہوا نہیں ہوگا جیسے آج ہمارا سر فخر سے بلند ہے کہ ہمارے آباء و اجداد نے آزادی کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
یہ اور ایسی کئی باتوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے خود بھی ووٹنگ کیلئے جائیے اور اپنے گھر خاندان کے ایک ایک فرد کو ووٹ دینے پر آمادہ کیجئے بلکہ یہ یقینی بنائیے کہ آپ کے گھر میں سات ووٹ ہیں تو ساتوں ووٹ رجسٹر ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد اپنے پڑوسیوں اور واقف کاروں سے معلوم کرکے اطمینان کیجئے کہ اُنہو ںنے بھی اپنا فرض ادا کردیا ہے۔