مسلمانوں کی رائے اس لئے بھی یکساں ہوگی کیونکہ وہ اس بل کی پہلے دن سے مخالفت کررہے ہیں اور پھر جے پی سی نے ہی عوامی رائے طلب کی ہے۔ اس تعلق سے قائم کئے جانے والے سوال پر وکلاء اور تنظیموں کے ذمہ داران کی وضاحت۔
EPAPER
Updated: September 09, 2024, 10:50 AM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai
مسلمانوں کی رائے اس لئے بھی یکساں ہوگی کیونکہ وہ اس بل کی پہلے دن سے مخالفت کررہے ہیں اور پھر جے پی سی نے ہی عوامی رائے طلب کی ہے۔ اس تعلق سے قائم کئے جانے والے سوال پر وکلاء اور تنظیموں کے ذمہ داران کی وضاحت۔
وقف ترمیمی بل کے خلاف ایک جیسی رائے ہونے کے سبب اس کے رَد کئےجانے کا اندیشہ نہیں ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیۃ علماء یا دیگر تنظیموں کی جانب سے جوکیوآر کوڈ جاری کیا گیا ہے اس میں محض اسکین کرکے اسے جے پی سی کو بھیجنا ہے اور یہ عمل تیزی سے جاری ہے۔ ایسے میں یہ اندیشہ ظاہر کیا گیا اور وہاٹس ایپ کے مختلف گروپ اور پرسنل لاء بورڈ کی زوم میٹنگ میں بھی یہ سوال کیا گیا کہ کہیں ایک جیسی رائے ہونے کی صورت میں اگر اسے رَد کیا گیا تو اندیشہ ہے سب کی آراء رد کی جاسکتی ہیں۔ نمائندۂ انقلاب نے مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے جنرل سیکریٹری مولانا حلیم اللہ قاسمی اور جماعت اسلامی کے ناظم شہر ہمایوں شیخ سے رابطہ قائم کرنے کے علاوہ وکلاء سے بھی استفسار کیا تاکہ اس کی وضاحت ہوسکے۔ ان تمام ذمہ داران کی رائے تقریباً ایک تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ’’ وکلاء سے صلاح ومشورہ کرنے پر یہ واضح ہوا تھا کہ فارمیٹ اور مضمون بھلے یکساں ہے لیکن بھیجنے والے الگ الگ ہیں، ان کے نمبرات اور ای میل آئی ڈی مختلف ہیں۔ دوسرے عوامی رائے میں اتفاق اور اختلاف دونوں ممکن ہے، اس لئے یکسانیت کے سبب ایسا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ ویسے بھی مسلمانوں کی رائے اس لئے بھی یکساں ہوگی کہ وہ بل متعارف کرائے جانے کے پہلے دن سے ہی اس کی مخالفت کررہے ہیں اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں، لہٰذا ان کی رائے ایک ہی ہوگی۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے:رام گیری اور نتیش رانے کے خلاف کارروائی کیلئے کورٹ میں پٹیشن
وکلاء نے کیا کہا
البتہ وکلاء کی رائے اس سے قدرے مختلف تھی۔ ایڈوکیٹ صغیراحمد خان نے کہا کہ ’’ عوامی رائے مسترد کئے جانے کا احتمال نہیں مگر جے پی سی کا کام الیکشن کرانا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ جو بل اس کے حوالے کیا گیا ہے وہ اس کے مقصد کے پیش نظرنفع اور نقصان کو سمجھ کرحکومت کو رپورٹ پیش کرے۔ یہاں عوامی رائے منگوائی گئی ہے جبکہ زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ اوقاف سے تعلق رکھنے والے، اس کے ماہرین اور قانون دانوں کوجے پی سی بلاکر اسے سمجھنے کی کوشش کرتی کہ کیا واقعی بل ایسا ہی ہے جیسا کہ وقف بورڈ کو مزید بہتر بنانے اور وقف املاک کی حفاظت کا حکومت دعویٰ کررہی ہے یا پس پردہ کچھ اور کھیل چل رہا ہے۔ اس سے قبل۲۰۱۳ء میں ترمیم سے قبل ایڈوکیٹ یوسف حاتم مچھالا باقاعدہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور انہوں نےایک ایک پوائنٹ بیان کرتے ہوئے وضاحت کی تھی۔ ‘‘
ایڈوکیٹ شہود انور نے بتایا کہ ’’ ایک جیسی رائے ہونے، پرسنل بورڈ یا کسی اور تنظیم کے ذریعے تیار کردہ کیوآر کوڈ کے ذریعے بھیجی جانے والی آراء کے رد کئے جانے کا اندیشہ تو نہیں ہے کیونکہ خود جے پی سی نے عوام سے رائے مانگی ہے، مگر جہاں تک رائے میں یکسانیت کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ عوامی رائے میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک طبقہ حامی اور ایک طبقہ مخالف ہوتا ہے۔‘‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’ماہرین، اداروں کے ذمہ داران اور دانشور حضرات اپنی جانب سے بل کے ایک ایک نکتے کی خامی کو واضح کرتے ہوئے جے پی سی کو تفصیلات بھیجیں تاکہ مزید ٹھوس کام ہوسکے۔ ‘‘