سپریم کورٹ کے سوال جواب کی وجہ سےمودی سرکار خوفزدہ ، متنازع شقوں کے تعلق سے عبوری فیصلہ صادر کرنے سےروکنے کیلئے ۷؍دن کی مہلت مانگ لی، تب تک صورتحال جوں کا توں رکھنے کا وعدہ ،مسلم فریقوں نے کہا کہ یہ پہلا مرحلہ ہے، ابھی تو طویل لڑائی لڑنی ہے۔
EPAPER
Updated: April 18, 2025, 10:09 AM IST | Ahmadullah Siddiqui | New Delhi
سپریم کورٹ کے سوال جواب کی وجہ سےمودی سرکار خوفزدہ ، متنازع شقوں کے تعلق سے عبوری فیصلہ صادر کرنے سےروکنے کیلئے ۷؍دن کی مہلت مانگ لی، تب تک صورتحال جوں کا توں رکھنے کا وعدہ ،مسلم فریقوں نے کہا کہ یہ پہلا مرحلہ ہے، ابھی تو طویل لڑائی لڑنی ہے۔
مرکز کی مودی حکومت متنازع اور غیرآئینی وقف ترمیمی قانون پرسپریم کورٹ میں سماعت کے طریقۂ کار سے خوفزدہ ہے۔ اس نے اس پرکسی روک سے بچنے کی غرض سے۷؍ روز کی مہلت طلب کرلی ہے۔ مسلم فریق نے اسے پہلے مرحلے کی کامیابی قرار دیا ہے لیکن یہ بھی کہا ہے کہ ابھی ہمیں طویل لڑائی لڑنی ہے کیوں کہ حکومت اتنی آسانی سے ہار نہیں مانے گی۔ وہ کوئی نہ کوئی طریقہ یا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکالنے کی کوشش کرے گی۔
کورٹ میں کیا ہوا ؟
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی قانون کے مخلف متنازع نکات کے بارے میں جس نہج پر مشاہدات کئے تھے اور جو تبصرے کئے تھے،اس سے حکومت کے خیمہ میں ہلچل مچ گئی ہے۔ حکومت نے ترمیمی قانون کے بارے میں مزید کسی بحث کو عوام میں آنے سے روکنے اور اپنی سبکی ہونے سے روکنے کے لئے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ صورتحال کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے گا۔سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی والی تین رکنی بنچ سے درخواست کی کہ وہ حکومت کا تفصیلی موقف سنے بغیر کسی بھی طرح کا عبوری فیصلہ صادرنہ کرے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اس مقدمہ کی اگلی سماعت تک جن ترمیمات پر اعتراض کیاگیا ، انہیں لاگونہیں کیا جائے گا۔ ساتھ ہی بورڈ اور کونسل میں کسی طرح کی تقرری نہیں ہوگی۔وقف بائی یوزر،ڈکلیرڈاورغیر ڈکلیرڈاوقاف کی جائدادپر کسی طرح کی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ حکومت کی یہ یقین دہانیاں ہی ثابت کرتی ہیں کہ سپریم کورٹ کے رویے کی وجہ سے مودی حکومت کتنی زیادہ تشویش میں مبتلا ہو گئی ہے۔ اس نے اپنی مزید سبکی روکنے کے لئے ۷؍ دن کا وقت مانگ لیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:دہلی کی وزیر اعلیٰ نے اکھلیش سے معافی مانگ لی !
چیف جسٹس کے سوالات کا اثر
حالانکہ وہی ہواجو سپریم کورٹ چاہتا تھا، تاہم حکومت نے ایک طرح سے سپریم کورٹ کے حکم سے بچنے میںکامیابی حاصل کرلی۔چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پرمشتمل بنچ نے اس معاملے کی اگلی سماعت کی تاریخ۵؍مئی کو مقررکی ہے۔ اس سے قبل مرکز کی مودی حکومت اپنا جواب داخل کردےگی۔
تشار مہتا کی ناکام کوششیں
جمعرات کی سماعت کے آغاز پر سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے چیف جسٹس کی بنچ کو قانون پر روک لگانے سے باز رکھنے کے لئے قائل کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ ایسا کرنا ایک غیر معمولی اقدام ہوگا۔تشار مہتا نے دعویٰ کیا کہ لاکھوں نمائندگیوں کی بنا پر ترامیم کی گئی ہیں۔ اس تعلق سے بنائی گئی جے پی سی نے بھی ہزاروں لوگوں کی رائے لی ہے لیکن انہوں نے ملک کے کروڑوں مسلمانوں اور ملی تنظیموں کی سخت مخالفت کا کوئی ذکرنہیںکیا۔تشار مہتا نے دعویٰ کیا کہ کئی دیہاتوں کو وقف قرار دے کر ان پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔ نجی جائیدادوں پر بھی وقف کے طورپرقبضہ کرلیا گیا۔ اس سے بڑی تعداد میں لوگ متاثرہوئے ہیں۔گزشتہ روز کی سماعت سے یہ واضح تھاکہ سپریم کورٹ چند ترمیمات پرعبوری اسٹے دینے کے حق میں دکھائی دے رہا ہےلیکن تشار مہتا نےکہا کہ ان ترمیمات کی حمایت میں متعددریاستوں اوروقف بورڈ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ اس لئے عدالت عظمیٰ دلائل کے بعد ہی کوئی فیصلہ صادرکرے۔
چیف جسٹس نے مشروط طور پر اپیل قبول کی
چیف جسٹس نے حکومت کی درخواست کو اس شرط پر قبول کیا کہ اس مقدمہ کی اگلی سماعت تک اس قانون کی ترمیمات پر عمل نہیں کیا جائے گا۔عدالت نے سالیسٹرجنرل کو ایک ہفتہ کے اندرحکومت کاموقف بذریعہ حلف نامہ داخل کرنے کاحکم دیا اوران ترمیمات کے خلاف داخل کردہ عرضداشتوں پر ایک ہفتہ کے اندرجواب داخل کرنے کاحکم دیا۔
چیف جسٹس کی ایک اور وضاحت
چیف جسٹس نے اس کے علاوہ یہ حکم بھی جاری کیا کہ وقف ترمیمات کے خلاف داخل تمام عرضداشتوں پرسماعت کے بجائے صرف پانچ پٹیشنوں پر سماعت کی جائے گی۔جمعیت علماء ہند (ارشدمدنی) کی طرف سے پیش سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ان کی جانب سے ۵؍ پٹیشنوں کومنتخب کرکے رجسٹرارکو مطلع کردیاجائیگا۔ عدالتی حکم کے مطابق جمعیت علماءہند، اسدالدین اویسی اورمسلم پرسنل لاءبورڈ کی رٹ پٹیشن پر سماعت ہوگی جبکہ دیگر کو درخواستوں میں تبدیل کردیا جائے گا۔