ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای نے ایک بار پھر خود کو شام میں بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کی ذمے داری سے الگ کرلیا ہے۔
EPAPER
Updated: December 14, 2024, 1:02 PM IST | Agency | Tehran
ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای نے ایک بار پھر خود کو شام میں بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کی ذمے داری سے الگ کرلیا ہے۔
ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای نے ایک بار پھر خود کو شام میں بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کی ذمے داری سے الگ کرلیا ہے۔ جمعرات کے روز ایک بیان میں خامنہ ای نے کہا کہ ’’شام میں ہماری فورسیز جو کر سکتی تھیں وہ مشاورت کا عمل ہے، اور وہ اس نے انجام دیا ... یہ کوئی منطقی بات نہیں تھی کہ شام میں ہماری فوج شامی فوج کی جگہ لڑتی۔‘‘
ایرانی رہبر اعلیٰ نے واضح کیا کہ ’’شامی فوج نے کمزوری دکھائی، کسی بھی دوسری جگہ پر موجود فوج کے بس میں نہ تھا کہ وہ کچھ کر سکے۔‘‘ گزشتہ دنوں کے دوران میں ایران ایک سے زیادہ مرتبہ باور کرا چکا ہے کہ اب یہ شامی عوام پر ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے اور اپنی قیادت کا انتخاب کرے۔ اس سے پہلے بدھ کے روز جاری بیان میں علی خامنہ ای نے الزام عائد کیا تھا کہ بشار الاسد کی حکومت گرانے میں ایک پڑوسی ملک کا ہاتھ ہے۔
یہ بھی پڑھئے:پاکستان: فوج کے خلاف جھوٹے دعوؤں کے الزام میں درجنوں صحافیوں، بلاگر پر مقدمہ
رہبر اعلی کا کہنا تھا کہ ’’بشار حکومت کے سقوط میں ایک پڑوسی ملک نے کردار ادا کیا .... ایران نے ستمبر سے ہی شامی حکومت کو خطرات کی موجودگی ٓسے خبردار کر دیا تھا۔‘‘ خامنہ ای نے باور کرایا کہ شام میں جو کچھ ہوا وہ امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ منصوبے کا نتیجہ ہے ... ایران کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ امریکا اور اسرائیل نے شام میں عسکری انقلاب کی منصوبہ بندی کی۔‘‘خامنہ ای کے مطابق بشار الاسد کے جانے سے ایران ہر گز کمزور نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے ایرانی اور علاقائی ذرائع نے بتایا تھا کہ تہران شامی صدر بشار الاسد سے نا خوش تھا جس نے ایران کو باور کرایا تھا کہ سرکاری فوج کا صورت حال پر کنٹرول ہے ... اگرچہ مسلح اپوزیشن گروپ اس وقت کئی بڑے شہروں میں پیش قدمی یقینی بنا چکے تھے اور سرکاری مسلح افواج وہاں سے کوچ کر گئی تھیں۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی گزشتہ ہفتے ایک پیغام لے کر دمشق گئے تھے جس کا مفہوم یہ تھا کہ ان کا ملک مزید عسکری سپورٹ فراہم نہیں کر سکتا۔