Updated: March 06, 2025, 8:31 PM IST
| Gaza
الخلیل ( ہبرون) میں واقع الابراہیمی مسجد پر اسرائیل کے بڑھتے قبضے کے نتیجے میں اس عظیم اسلامی شناخت کے مٹ جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے تحفظ میں یہودی آبادکار اس میں اپنی مذہبی رسومات ادا کر رہے ہیں، جبکہ نمازیوں کو مسجد میں داخلے سے روکا جا رہا ہے۔
الخلیل ( ہبرون) میں واقع الابراہیمی مسجد۔ تصویر: ایکس
الخلیل ( ہبرون) میں واقع الابراہیمی مسجد پر اسرائیل کے بڑھتے قبضے کے نتیجے میں اس عظیم اسلامی شناخت کے مٹ جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے تحفظ میں یہودی آبادکار اس میں اپنی مذہبی رسومات ادا کر رہے ہیں، جبکہ نمازیوں کو مسجد میں داخلے سے روکا جا رہا ہے۔فلسطینی وقف اور مذہبی امورکے وزارت کے اتوارکو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، صرف فروری میں مسجد کی پرکشش اذان کو۴۴؍ بار خاموش کرایا گیا۔ یہ اقدام اسرائیلی حکام کی طرف سے اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک پر فلسطینی موجودگی کو ختم کرنے کی کوششوں کا تازہ ترین واقعہ ہے۔فلسطینی سیاسی تجزیہ کار عماد ابو عواد نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا کہ اسرائیل مسجد پر مکمل قبضہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے آسٹریلیا: نئی مسجد کو کرائسٹ چرچ دوم کیلئے تیار رہنےکی دھمکی، نوجوان گرفتار
اسرائیل نے مسجد تک رسائی کو مشکل بنا دیا ہے، ساتھ ہی اوقات بھی مقرر کر دئے ہیں۔فروری کے آخر میں، اسرائیلی فوج کے الخلیل ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن اور لائزون آفس نے فلسطینی اہلکاروں کو مطلع کیا کہ اسرائیل مسجد کے انتظامی کنٹرول کو سنبھال لے گا، جس سے فلسطینی وقف کی وزارت کی نگرانی ختم ہو جائے گی۔مسجد کے ڈائریکٹر متعصم ابو سنینہ، جنہیں اسرائیلی اہلکاروں نے مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا ہے، نے کہا، ’’گزشتہ مہینوں میں،اسرائیلی فوجوں نے سیاحت کے بہانے اسلامی مقدسات کی بے حرمتی کو تیز کردیا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ اسرائیل مسجد کے اس حصے پر چھت بنانے کا منصوبہ بنا رہا ہے جہاں گزشتہ ۲۰؍ سال سے یہودیوں نے قبضہ کر رکھا ہے، اور وہ خیمہ لگا کر اپنی مذہبی رسومات ادا کر رہے ہیں، مسلمانوں کی وہاں تک رسائی روک دی گئی ہے۔
اسرائیلی فوجیوں نے ۹؍ جولائی کو چھت بنانے کا کام شروع کیا تھا، لیکن مقامی افراد اور فلسطینی وقف اور مذہبی امور کی وزارت کی جانب سے منظم اور سخت احتجاج کےبعد محض دو دن میں ہی تعمیراتی کام روک دیا گیا۔ابو سنینہ نے مزید کہا کہ یہ احتجاج صرف تعمیر روکنے کیلئے نہیں تھا بلکہ اس جگہ پر یہودی عبادتگاہ بنانے کے بھی خلاف تھا۔
واضح رہے کہ ابراہیمی مسجد اسلام، یہودیت، اور عیسائیت کے نزدیک مقدس مقام رکھتی ہےجس کی وجہ اس کا حضرت ابراہیمؑ سے منسوب ہونا ہے۔ مسجد میں حضرت ابراہیمؑ اور ان کی بیوی سارہؑ، ان کے بیٹے اسحاقؑ، ان کے بیٹے یعقوبؑ اور ان کے بیٹے یوسفؑ کی قبریں موجود ہیں۔تقریباً۲۰۴۰؍ مربع میٹر پر پھیلی ہوئی یہ قدیم مسجد چونا پتھر کی دیواروں سے بنی ہے، جن میں سے کچھ دو میٹر سے زیادہ موٹی ہیں۔ اس کمپلیکس میں ستون، راستے اور دو بلند مینار شامل ہیں، نیز ایک زیر زمین کمرہ بھی ہے جسے "الغار" کہا جاتا ہے، جس میں حضرت ابراہیم کے باقیات ہونے کا خیال ہے۔
ابو عواد کے مطابق اگر اسرائیل کی اس حرکت کو روکا نہ گیا تو یہ ماڈل دیگر مقدس مقامات کیلئے ایک مثال قائم کر سکتاہے، جس میں الاقصیٰ مسجد بھی شامل ہے۔ابو سنینہ نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے زور دے کر کہا کہ فلسطینی نمازیوں پر روزانہ چھاپے، من مانی بندش اور تشدد ان تک رسائی کو روکنے کی کوششیں اسرائیلی منصوبے کا حصہ ہیں۔فلسطینیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان پابندیوں کے باوجود نماز کیلئے ثابت قدم رہیں اور متحرک ہوں۔انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کی بڑھتی جارحیت فلسطینیوں کے غم و غصے میں مزیداضافہ کر رہی ہےجوبالآخر مقبوضہ علاقوں میں وسیع تر تصادم میں تبدیل ہوسکتی ہے۔