• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

وکی لیکس کے جولین اسانج ایک معاہدے کے تحت امریکی عدالت میں جرم قبول کرنے پر راضی

Updated: June 25, 2024, 5:03 PM IST | Inquilab News Network | London

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج ایک معاہدے کے تحت امریکی عدالت میں عراق اور افغانستان جنگ سے متعلق راز افشا کرنے کا جرم قبول کرنے پر رضا مند ہوگئے ہیں، امریکہ میں انہیں ۶۲؍ مہینوں کی سزا ملنے کا امکان ہے جس میں سے وہ برطانیہ میں پہلے ہی پانچ سال قید میں گزار چکے ہیں۔

WikiLeaks founder Julian Assange. Photo: INN
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج۔ تصویر: آئی این این

پیر کی شب جاری ہونے والی عدالتی دستاویزات کے مطابق وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے اپنی آزادی کے بدلے فوجی راز افشا کرنے کیلئے امریکی عدالت میں جرم قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، جس سے ان کے خلاف چل رہی برسوں کی قانونی چارہ جوئی ختم ہو گئی۔
بحرالکاہل میں امریکی علاقے شمالی ماریانا جزائر کی عدالت میں دائر کی گئی دستاویز کے مطابق، اسانج، جو برطانیہ میں زیرحراست تھے، قومی دفاعی معلومات حاصل کرنے اور پھیلانے کی سازش کے ایک ہی جرم کیلئے قصوروار ٹھہرائے جائیں گے۔وکی لیکس نے برطانوی وقت کے مطابق منگل کی صبح اطلاع دی کہ ’’جولین اسانج آزاد ہیں‘‘ اور وہ ملک چھوڑ چکے ہیں۔ وہ مقامی وقت کے مطابق  بدھ کی صبح امریکی علاقے میں پیش ہوں گے۔توقع ہے کہ اسانج کو ۶۲؍ماہ قید کی سزا سنائی جائے گی، انہوں نے برطانیہ میں پانچ سال جیل میں گزارے ہیں جس کا فائدہ انہیں حاصل ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے آبائی وطن آسٹریلیا واپس جا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: منی پور: کوکی برادری کا احتجاج، مرکزی حکومت سے نسلی تشدد ختم کرنے کی اپیل

ان کی عمر اب ۵۲؍سال ہے واشنگٹن کو ۲۰۱۰ء سے سیکڑوں کی تعداد میں خفیہ امریکی دستاویزات شائع کرنے کیلئے مطلوب تھے۔اپنے عدالتی معاملات کے دوران اسانج دنیا بھر میں تقریر کی آزادی کی مہم چلانے والوں کیلئے ایک ہیرو اور ان لوگوں کیلئے ایک ولن بن گئے جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ راز افشا کر کے امریکی قومی سلامتی اور انٹیلی جنس ذرائع کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ امریکی حکام عراق اور افغانستان کی جنگوں کے بارے میں امریکی فوجی راز افشا کرنے کے الزام میں اسانج پر مقدمہ چلانا چاہتے تھے۔
یہ عرضداشت معاہدہ ممکنہ طور پر اسانج کا تقریباً ۱۴؍سالہ قانونی ڈرامہ ختم کر دے گا۔ اسانج پر ۲۰۱۹ء میں امریکی وفاقی گرانڈ جیوری نے ۱۸؍معاملوں پر فرد جرم عائد کی تھی جو وکی لیکس کی جانب سے قومی سلامتی سے متعلق دستاویزات کی اشاعت سے متعلق تھی۔ اس معاہدے کا اعلان اس سے دو ہفتے قبل ہوا جب اسانج کو برطانیہ میں عدالت میں پیش ہونے کیلئے ان کی امریکہ حوالگی کی منظوری دینے والے فیصلے کے خلاف عرضی داخلکی گئی تھی۔
اسانج اپریل ۲۰۱۹ءسے لندن کی ہائی سیکیورٹی بیلمارش جیل میں نظر بند ہیں۔انہیں سویڈن کے حوالے کیے جانے سے بچنے کیلئے ایکواڈور کے لندن کے سفارت خانے میں سات سال چھپے رہنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جہاں اسے جنسی زیادتی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا جو بالآخر واپس لے لیے گئے۔ اس نے جو مواد جاری کیا اس میں ۲۰۰۷ء میں عراق میں ایک امریکی ہیلی کاپٹر گن شپ کی فائرنگ سے شہریوں کو مارے جانے کی ویڈیو بھی شامل تھی۔ متاثرین میں رائٹرز کے دو صحافی بھی شامل تھے۔ امریکہ نے اسانج پر ۱۹۱۷ء کے جاسوسی ایکٹ کے تحت الزام لگایا ہے۔ حامیوں نے خبردار کیا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ اسے ۱۷۵؍سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ برطانوی حکومت نے جون ۲۰۲۲ءمیں ان کی حوالگی کی منظوری دی۔ یہ عرضی اس سوال کو حل کرنے کیلئے تھی کہ کیا مقدمہ کے دوران وہ امریکہ میں ایک غیر ملکی کے طور پر،امریکی آئین میں پہلی ترمیم کے تحت بیان کی گئی آزادی کے تحفظات سے مستفیض ہوسکتے ہیں؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK