• Thu, 14 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’آپ نے مجھ ایک کو بٹھانے کی کوشش کی عوام نے آپ کے ۶۳؍ کو مستقل طور پر گھر بٹھا دیا‘‘

Updated: July 03, 2024, 12:12 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

دسمبر ۲۰۲۳ء میں اپنی برطرفی کے بعد پھر فاتح بن کر ایوان میں لَوٹنے والی مہوا موئترا نے صدر جمہوریہ کے خطبہ میں حکومت کے دعوؤں کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دیئے، ملاحظہ کریں ان کی تقریر کے کچھ حصے۔

Mehwa Moitra speaking in the Lok Sabha on Monday. Photo: INN
مہوا موئترا لوک سبھا میں  پیر کو تقریر کرتے ہوئے۔ تصویر : آئی این این

آخری بار جب میں اس ایوان میں بولنے کیلئے اٹھی تھی  تو مجھے بولنے نہیں دیا گیا تھا، اپوزیشن کی اِس  ایک ایم پی کی آواز دبانے کی حکمراں جماعت نے بھاری قیمت چکائی ہے۔ مجھے بٹھانے کی چکر میں عوام نے آپ کے ۶۳؍ اراکین کو مستقل طور پر گھر بٹھا دیا۔ آپ ۳۰۳؍ سے گھٹ کر ۲۴۰؍ پر آگئے۔ جون  ۲۰۱۹ء میں اس ایوان میں اپنی پہلی تقریر میں مَیں نے فسطائیت کی ۷؍ علامتوں کا ذکر کیاتھا جو اس ملک میں ظاہر ہورہی تھیں۔ ۵؍ سال  بعد جون ۲۰۲۴ء میں اس ایوان نے وہ  نظارہ دیکھا جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا کہ  مارشل اپنے ہاتھوں میں سینگول اٹھا کر صدر جمہوریہ کا خیر مقدم کررہے ہیں۔ سینگول کسی بادشاہ کے اقتدار اعلیٰ کی علامت ہے۔ آئینی جمہوریت کے مندر میں اس کی کوئی جگہ نہیں۔ لیکن  یہ اس لئے ہوا کہ بی جےپی اب تک نہیں سمجھ پائی  ہے کہ اس کی ۳۰۳؍ کی واضح اکثریت کو گھٹاکر عوام نے۲۴۰؍ پر کیوں پہنچا دیا، وہ اب بھی سینگول کی دنیا میں جی رہی ہے۔ بدلی ہوئی حقیقت کو اب تک حکمراں جماعت کے اراکین ہضم نہیں کرسکے، خاص طور سے وہ لوگ جو صدر جمہوریہ کی تقریر لکھنے پر مامور ہیں۔ صدر نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ملک کے عوام نے واضح اکثریت کے ساتھ ایک مستحکم حکومت منتخب کی ہے۔ برائے مہربانی   پرانی تقریروں  کویہاں وہاں سے کٹ اور پیسٹ کرکے  نئی تقریر  بنا کر  صدر جمہوریہ کے عہدہ کو یوں شرمسار نہ کریں ۔یہ مستحکم  حکومت نہیں بلکہ ایسے اتحادیوں کی بیساکھی پر کھڑی ہے جن کے یوٹرن کی ایک طویل تاریخ ہے۔  بی جےپی کو واضح  اکثریت نہیں ملی۔  ۲۷۲؍ سیٹوں سے ۳۲؍ سیٹیں کم ہیں۔ اس بار (اپوزیشن  کے) ۲۳۴؍لڑاکے ایوان میں موجود اور پوری طرح متحد بھی ہیں۔ ہم انگاروں  پر چل کر یہاں پہنچے ہیںاس لئے اب کی بار آپ ہماری آواز اُس طرح بند نہیں کرسکیں گے جیسے پچھلی بار بند کرنے میں  کامیاب ہوگئے تھے۔ 
 صدر جمہوریہ کی تقریر میں متعدد باتیں ایسی  ہیں جن کا حقیقت اور سچائی سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔  شمال مشرق کا ذکر کیا گیا ۔ صدر جمہوریہ کہتی ہیں کہ حکومت نے شمال مشرق کیلئے مختص کئے جانے والے فنڈ میں  ۴؍ گنا اضافہ کردیا ہے، وہاں دیرپاامن کیلئے کام کیا ہے۔ اس پر میرا سوال یہ ہے کہ پوری تقریر میں لفظ منی پور کہیں کیوں نہیں ہے؟   انتخابی مہم   میں بھی   مودی نے ’ایم‘ سے شروع ہونے والے بہت سے لفظ استعمال کئے  جیسے مسلمان، ملا، مدرسہ، مغل،مٹن،مچھلی،مجرا ، منگل سوتر مگر ایک بار بھی ان کے منہ سے منی پور  کیوں نہیں نکلا۔ 
 صدرجمہوریہ کی تقریر میں خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کی گئی ہے کہاگیاہے کہ ہمارے ملک کی خواتین لوک سبھا اور ودھان سبھاؤں میں  نمائندگی کا مطالبہ کررہی تھیں وہ خواتین ریزرویشن  ایکٹ کے ذریعہ بااختیار بنا دی گئی ہیں۔ یہ سچ نہیں  ہے۔ اول تو آپ نے بڑی آسانی سے پارلیمنٹ میں خواتین کے ریزرویشن کو موخر کردیا۔ آپ خواتین  اور ناری شکتی سے ڈرتے ہیں۔

 آپ کو ان کی حمایت توچاہئے مگر آپ نہیں چاہتے کہ وہ  یہاں ہوں۔  ۱۷؍ ویں لوک سبھا میں  ۷۸؍ خواتین تھیں جو ۱۳ء۳؍ فیصد ہے۔ ۱۸؍ ویں لوک سبھا میں  صرف ۷۴؍خواتین ہیں، یعنی ۱۳ء۶؍ فیصد۔  صدر  کے خطاب میں  ۳؍ کروڑ ’لکھ پتی دیدی‘ بنانے کی بھی بات کہی گئی ہے۔ حالانکہ اب تک کی ہم نے(حکومت کی )  جو مہم دیکھی ہے وہ ’’ایک عدد ارب پتی دادا‘‘ بنانے کی مہم ہے۔ اس ایوان میں  مَیں  اُس کا نام لینے کی ضرورت نہیں محسوس کرتی کیوں کہ    جانتی  ہوںکہ یہاں موجود تمام اراکین سمجھ چکے ہیں کہ میں کس کی بات کررہی ہوں۔ صدر نے اپنی تقریر میں کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہائیوں بعد کشمیر میں  استحکام  اور سلامتی قائم ہوگئی ہے۔ اگر ۳۷۰؍ کی منسوخی اتنا ہی اچھا فیصلہ تھا تو حکمراں پارٹی  لوک سبھا الیکشن میں وادی کی ۳؍ پارلیمانی سیٹوں پر امیدوار تک کھڑا کرنے کی ہمت کیوں نہیں جٹا پائی؟ کشمیر کے عوام نے آپ  کے ۲۰۱۹ء کے فیصلے کے خلاف ووٹنگ کرکے ایم پی بھیجے ہیں۔   صدر کے خطبے  میں    الیکشن کمیشن آف  انڈیا  کا تذکرہ کرتے ہوئے دنیا کا سب سے بڑا الیکشن منعقد کرنے پر اس کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ میں پورے احترام کے ساتھ   اپوزیشن کی طرف سے ریکارڈ پر یہ بات کہنا چاہتی ہوں کہ ہم  الیکشن کمیشن کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے ہونے کے باوجود جیت گئے ہیں۔(یعنی الیکشن کمیشن کی تمام تر جانبداری اور بے ضابطگی کے باوجود  اپوزیشن لیڈر الیکشن میں فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔) حکومت کے دبدبہ والی کمیٹی کے ذریعہ سپریم کورٹ کی کھلی حکم عدولی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن میں  جو کمشنرمنتخب کئے گئےانہوں نے حکمراں جماعت اور وزیراعظم کے ذریعہ انتخابی  ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزیوں پر اپنی آنکھیں اور کان بند کر لئے۔   اس انتخابی مہم میں اقلیتوں کے خلاف جس طرح  کی زبان کا استعمال کیاگیا اس سے یہ ملک شرمندہ ہے ۔  یہ بات تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہوگئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے ملی بھگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکمراں جماعت کے لیڈروں کے تعلق سے آنکھیں بند کرلیں جبکہ انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے باوجود  اپوزیشن جماعتوں کے کھاتے منجمد کئے گئے۔
  میں صدر جمہوریہ کی تقریر لکھنے والوں کے حس مزاح کی بھی داد دینا چاہوں گی جنہوں  نے   احمد آباد-ممبئی بلیٹ ٹرین پر کام تیز رفتاری سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستانی  ریلوے ملک کے دیگر حصوں میں بھی بلیٹ ٹرین  کے امکانات پر غور کررہی ہے۔کیا یہ انتہائی سفاکانہ مذاق نہیں ہے؟آپ ممبئی-احمدآباد کی صرف ایک بلیٹ ٹرین لائن کیلئے  ایک لاکھ ۸؍ ہزار کروڑ مختص کردیتے ہیں  جبکہ پورے ملک میں  ٹرین حادثوں  کا سلسلہ جاری ہے اورانہیں روکنے کیلئے کو َ چ سسٹم کے نفاذپر صرف ۶۳؍ ہزار کروڑ روپے  ہی خرچ ہوتے ہیں۔ اکنامک ٹائمز کاکہناہے کہ فی الحال (کو َچ کیلئے) جس طرح فنڈ دیا جارہاہے اس سے پورے ملک کے ریل نیٹورک کو کو َچ سے جوڑنے میں۵۰؍ سال لگ جائیںگے اورآپ  ملک بھر میں بلیٹ ٹرین کی باتیں کرتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: مسابقتی امتحانات کے پیپر لیک ہونا تشویشناک ہے، اس کیخلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے

۲۰۲۳ء کے اختتام تک یہ حکومت اپنے تکبر کے نقطہ عروج پر پہنچ گئی تھی۔ سپریم لیڈر  نے اسی ایوان میں  کھڑے ہو کر ’’اب کی بار، چارسوپار‘‘ کا نعرہ دیاتھا اور کہاتھا کہ ’’ایک اکیلا کتنوں  پر بھاری۔ ‘‘ یہی ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا اور حکمراں  پارٹی کی قسمت بدلنی شروع ہوگئی۔ آپ بھگوان کے ساتھ گھمنڈ کا مظاہرہ کریں گے تو سزا ضرور ملے گی۔ ہندوستان میں ۳۳؍ ہزار سے زیادہ بھگوان ہیں مگر جمہوریت میں  سب سے بڑا بھگوان ’’گن دیوتا‘‘ یعنی عوام ہیں اورانہوں  نے آپ کو سزا دی ہے، آپ نے بھلے ہی حکومت بنا لی ہو مگر ایک ایسی فتح کے بعد اس فتح کی چوٹ فاتح پر ایسی پڑی ہے کہ یہ فتح شکست معلوم ہوتی ہے۔ بنگال میں  سپریم لیڈر نے یکم مارچ کو وجے سنکلپ یاترا کا آغازآرام باغ حلقے سےکیاپھر کرشنا نگر آئے، مجھ پر تو خاص عنایت کی، میرے حلقے میں  دودو بار آئے۔ وزیراعظم نے بنگال میں  ۲۳؍ لوک سبھا حلقوں  میں  انتخابی مہم چلائی اور ۲۰؍ میں   بی جےپی ہار گئی، مہاراشٹر میں  وزیراعظم نے ۱۸؍ سیٹوں پر مہم چلائی، این ڈی اے ان میں  سے ۱۵؍ میں  ہار گئی۔ ایک اکیلا، کتنوں  پر بھاری پڑا۔ پنجاب میں  انہوں  نے ہوشیار پور، پٹیالہ، جالندھر، گرداس پور میں مہم چلائی، بی جےپی تمام سیٹیں  ہار گئی۔ 
 راجستھان کے بانس واڑہ میں انہوں  نے انتخابی ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں  کے خلاف انتہائی شرمناک تبصرہ کیا، الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنارہا، مگر عوام نے فیصلہ سنایا اور بی جےپی بانس واڑہ سیٹ ۲؍ لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے ہار گئی۔ ۲۰۱۹ء میں  بی جےپی نے راجستھان کی تمام ۲۵؍ سیٹیں  جیتی تھیں، چند مہینے پہلے ہی اسمبلی الیکشن جیتا ہے، گھٹ کر ۱۴؍ سیٹوں پر پہنچ گئی ہے۔ ۳؍ ریاستوں اتر پردیش، مہاراشٹر اورمغربی بنگال میں کل ۱۷۰؍ سیٹیں  ہیں۔ یہاں  کی ایک تہائی سیٹیں انڈیا نے جیتیں، بی جےپی کو صرف ۵۴؍ سیٹوں  پر کامیابی ملی۔ آپ گھس گھس کے مارنے والے تھے، ا س بار عوام نے گھس گھس کے مار دیا۔ حکمراں محاذ خود کو مودی کا پریوار کہہ کر فخر کررہاتھا، کتنا مضحکہ خیز ہے کہ وزیراعظم کو خود سوشل میڈیا پر جا کرکہنا پڑا کہ بھائی یہ مودی کا پریوار نہیں ، این ڈی اے ہے۔ یعنی ’نتیش نائیڈو ڈیپنڈنٹ الائنس(نتیش اور نائیڈو پر منحصر اتحاد۔ )
 جنوری میں  وزیراعظم نے ایودھیا میں نامکمل رام مندر میں  پران پرتشٹھا یہ کہتے ہوئے کی کہ انہیں  یہ مذہبی ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ رام للا کو گھر لائیں۔ رام مندر اس بات کو یقینی بنانے والاتھا کہ بی جےپی نہ صرف ۴۰۰؍ کا ہندسہ پار کریگی بلکہ یہ حکومت ایک ہزار سال تک قائم رہے گی مگر بھگوان رام نےکہا کہ نہیں،  اب بس ہوا، میرے نام پر اور نہیں۔ بہت زیادہ گھمنڈ نے لنکا (میں  راون ) کی حکومت کو گرا دیاتھا۔ اب بی جےپی بھی ایودھیا ا ور فیض آباد ہار گئی۔ وہ چترکوٹ میں بھی ہار گئے جہاں  رام نے گیان دھیان کیاتھا۔ شراوستی میں   وزیراعظم کے سابق سیکریٹری کا بیٹا ہار گیا جو یہ کہہ رہاتھا کہ میرے باپ نے مندر بنوایا ہے، ان ہی کے نام پر مہم چلائی مگر جیت نہیں   سکا۔ ایودھیا کے آس پاس کی تمام سیٹیں، بستی، سلطان پور اور امبیڈکر نگر میں  بی جےپی ہار گئی۔ 
یہ تم لوگوں  کے رام جپو میں  پہلے سا آرام نہیں 
 زبردستی کے جے شری رام میں  سب کچھ ہے پر رام نہیں 
 آج ہندوستان میں  دو طرح کے لیڈر ہیں  ، ایک وہ جو ووٹنگ مشین سےآئے اور دوسرے جو واشنگ مشین سےآئے۔ اب بھی کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں  کہ تم مودی کو نہیں  جانتے۶؍ مہینے میں  تم دیکھوگے کہ بی جےپی ۳۰۰؍ کا ہندسہ پار کرلے گی۔ میں  ان سے کہنا چاہتی ہوں  کہ اب ایسا نہیں ہوگا کیوں  کہ پالا بدلنے والے کسی بھی ممکنہ شخص کو عارضی لالچ اور خوف اورسیاسی طور پر مستقل بے حیثیت کے درمیان انتخاب کرنا ہوگا۔ اس لئے کہ آپ کسی وزارت کے عارضی پیشکش یا سی بی آئی یا ای ڈی کےکیس سے عارضی چھٹکارا کیلئے وفاداری تبدیل کرسکتے ہیں مگر جب رائے دہندگان کے پاس جائیں گے تو وہ آپ کو سزا دیں گے۔ پالا بدلنے والے زیادہ تر لوگوں  کو عوام نے سزا دی ہے۔ اس لئے اب انتظار اُس وقت کا کیجئے جب لوگ ہماری طرف آئیں گے   اور ہم (انڈیا اتحاد) ۲۷۲؍ کے ہندسے کو پار کرلیں گے۔ 
  ہندوستانی مسلمانوں  کو اس سرزمین پر جہاں  وہ پیدا ہوئے درانداز اور دہشت گرد کہاگیا۔ انہوں   نے خاموشی سے تحمل کے ساتھ انتظار کیا، اپنا وقت لیا اور پھر اس سال کے الیکشن میں   ایک ہی آواز میں  وہ ہر ریاست میں  متحدہوکر کھڑے ہوئے اور ہندی کے شاعر پُنیت شرما کی زبان میں   یہ کہہ دیا کہ :
ہندستان سے میرا سیدھا رشتہ ہے
تم کون ہو بے، کیوں  بتلاؤں  تم کو، کتنا گہرا ہے
 اسی طرح دلت جن کیلئے بی جےپی صرف زبانی جمع خرچ کرتی ہے، نے ۴۰۰؍ پار کے اعلان سے ہی سمجھ لیا کہ بابا صاحب کا بنایا ہوا آئین خطرے میں  اورانہوں  نے بھی اس پارٹی سے منہ موڑ لیا۔ یہی حال مراٹھا اور جاٹوں نے بھی بی جےپی کے خلاف اپنے غصے کا اظہار ای وی ایم کا بٹن دبا کرکیا۔ ان سب نے ملک کر اس الیکشن میں  فیصلہ سنایا کہ انہیں اب آپ کی ضرورت نہیں ہے۔ ۷؍ مہینے قبل ۸؍ دسمبر کو(جب مہوا موئترا کی ایوان کی رکنیت ختم کردی گئی تھی)یہ ایوان کرو سبھا میں  بدل دی گئی تھی جس کی قیادت نابینا دھرت راشٹر کررہے تھے، جہاں  دُشاسن درباریوں  نے دروپدی کو لوٹنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جس استحقاق کمیٹی نے ۹؍ نومبر کو ایوان سے مجھے خارج کرنے کے حق میں   ووٹ دیا اس کے ۱۰؍ رکن اورا یک چیئر پرسن تھا۔ فیصلہ ۴؍ کے مقابلے ۶؍ کی ووٹنگ سے ہوا۔ بی جے پی کے جن ۵؍ اراکین نے میرے خلاف ووٹنگ کی تھی، ان میں  سے ۴؍ اس ایوان میں واپس نہیں  آسکے۔ چیئر پرسن جو بی جےپی کاتھا وہ بھی نہیں  واپس آیا۔ پنجاب سے کانگریس کے جس دل بدلو نے میرے خلاف ووٹ دیاتھا وہ بھی ہار گیا۔ مہاراشٹر سے وہ خاتون رکن پارلیمان جس نے بی جےپی کیلئے میرے خلاف مباحثے کا آغاز کیاتھاوہ بھی جیت نہیں  سکی۔ جس طرح بھگوان کرشن نے دروپدی کی حفاظت کی تھی اسی طرح کرشنا نگر کے عوام نے میری حفاظت کی۔ پچھلے سال لوگ کہہ رہے تھے کہ مہوا تم نے کیا کیا کھودیا، تم نے رکنیت کھودی، گھر کھودی مگر میں  نے جو حاصل کیا وہ وہی جس کا ابھی راہل جی تذکرہ کررہے تھے، وہ ہے خوف سے آزادی۔ میں  آپ سے خوفزدہ نہیں  ہوں۔ میں  آپ کا خاتمہ دیکھوں گی، ہم سب آپ خاتمہ دیکھیں گے۔ آپ کی ای ڈی، آپ کا انکم ٹیکس محکمہ، آپ کے ٹرول، آپ کے خریدے ہوئے جج کوئی بھی ہمیں نہیں ڈراسکتا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK