• Thu, 05 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: آسمانی تحفہ

Updated: July 04, 2024, 8:35 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف آئرش ادیب آسکر وائلڈ کی شہرہ آفاق کہانی ’’دی اسٹار چائلڈ‘‘ The Star Child کا اُردو ترجمہ۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

اس کہانی کا پہلا حصہ تعلیمی انقلاب میں شائع ہوا ہے۔

دوسرا حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ دو غریب لکڑہارے ایک گھنے جنگل سے گزر رہے تھے۔ سردیوں کا موسم تھا۔ زمین اور درختوں کی شاخوں پر برف کی موٹی تہہ جم چکی تھی۔ اس سخت سردی نے انسانوں کے ساتھ چرند پرند کو بھی پریشان کر رکھا تھا۔ لکڑہارے اپنی انگلیوں پر پھونک مارتے، اپنے آپ کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے منزل کی جانب رواں دواں تھے۔ آخر کار وہ جنگل کے اس حصے میں پہنچ گئے جہاں سے انہیں نیچے وادی میں روشنیاں نظر آرہی تھیں۔ یہ اُن کا گاؤں تھا۔ گاؤں دیکھ لینے کے بعد ان کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی مگر اگلے ہی پل مسکراتے لبوں کی جگہ غم نے لے لی کیونکہ انہیں اپنی غربت یاد آ گئی تھی۔ 
ایک نے کہا، ’’ہمیں خوش رہنے کا حق ہی نہیں ہے۔ خوشی امیروں کی میراث ہے۔ بہتر ہوتا کہ ہم اس سردی میں جنگل ہی میں مرجاتے یا کوئی درندہ ہمیں چیر پھاڑ کر کھا جاتا۔‘‘
’’واقعی،‘‘ اس کے ساتھی نے جواب دیا، ’’بعض افراد کے پاس بہت کچھ ہوتا ہے جبکہ بعض کے پاس بہت کم۔ دنیا میں ناانصافی عروج پر ہے۔ اس دنیا میں غم کو برابر تقسیم نہیں کیا گیا ہے۔‘‘ جب وہ ایکدوسرے سے اپنی غربت کا رونا رو رہے تھے تو ایک عجیب واقعہ ہوا۔ آسمان سے ایک زرد اور روشن ستارہ زمین پر گرا۔ ’’میرے خیال میں سونے کا ٹکڑا گرا ہے۔‘‘ وہ سونے کیلئے اتنے بے چین تھے کہ جہاں ٹکڑا گرا تھا، اس سمت میں دوڑنے لگے۔
ایک کی رفتار زیادہ تیز تھی۔ وہ جب درختوں کے پیچھے پہنچا تو سفید برف میں اسے سونے کا ایک قدرے بڑا ٹکڑا پڑا نظر آیا۔ اس نے جلدی سے اسے اٹھالیا۔ وہ سنہری رنگ کا ٹکڑا تھا جو تہوں میں لپٹا ہوا تھا۔ اس نے ساتھی کو پکارا کہ اسے آسمان سے گرا خزانہ مل گیا ہے، اور جب اس کا ساتھی وہاں پہنچا تو دونوں برف پر بیٹھ کر اس کی تہیں کھولنے لگے تاکہ اس کے مزید ٹکڑے کئے جاسکیں۔ لیکن افسوس! سنہری چادر میں سونا تھا نہ چاندی بلکہ اس میں ایک چھوٹا بچہ سو رہا تھا۔
ایک نے کہا، ’’یہ رہا ہماری امید کا تلخ انجام، ہماری قسمت ہی خراب ہے۔ اسے یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم غریب ہیں، ہمارے اپنے بچے ہیں۔ ہم انہیں ڈھنگ سے نہیں پال سکتے، اسے کیسے پالیں گے؟‘‘
ساتھی نے جواب دیا، ’’بچے کو تنہا یہاں چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ وہ یہاں مر جائے گا۔ اگرچہ میں بھی غریب ہوں اور میرے بھی بچے ہیں مگر مَیں اسے پالوں گا۔‘‘ 
اس نے نہایت نرمی سے بچے کو اٹھایا، اور سخت سردی سے بچانے کیلئے اپنی چادر اس کے گرد لپیٹ دی۔ پھر دونوں گاؤں کی طرف چل پڑے۔ اس کا ساتھی اس کی بے وقوفی اور نرم دلی پر حیران تھا۔ جب وہ گاؤں پہنچے تو ساتھی نے سونے جیسی نظر آنے والی چادر کی تقسیم کا مطالبہ کیا مگر اس نے کہا کہ ’’چادر تمہاری ہے نہ میری۔ یہ بچے کی چادر ہے اس لئے اسے بچے کے پاس ہی رہنے دو۔‘‘
پھر اس نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھولنے والی اس کی بیوی تھی جس نے اپنے شوہر کو صحیح سلامت دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا۔’’مجھے جنگل میں کچھ ملا ہے اور میں اُس کی دیکھ بھال کیلئے یہاں لایا ہوں۔‘‘ شوہر نے جھجکتے ہوئے کہا۔ وہ دہلیز پر کھڑا تھا۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘ جب بیوی نے چادر الٹی تو بچے کی شکل دیکھ کر سوال کیا۔
وہ بڑبڑائی، ’’کیا ہمارے اپنے بچے کم ہیں کہ اب ہم ایک اضافی بچہ بھی پالیں؟ ہم اسے کیسے پالیں گے؟‘‘ وہ سخت غصے میں تھی۔
’’یہ آسمانی تحفہ ہے،‘‘ شوہر نے جواب دیا لیکن بیوی راضی نہ ہوئی، پہلے غصہ کیا پھر رونے لگی: ’’ہمارے بچوں کو بمشکل روٹی نصیب ہوتی ہے۔ ہم اسے کہاں سے کھلائیں گے؟ یہاں کوئی ہماری مدد نہیں کرتا۔‘‘
’’خدا اپنی ہر مخلوق کو رزق دیتا ہے۔ اسے بھی دے گا۔‘‘ شوہر نے نرمی سے کہا۔ ’’کیا سردیوں میں یہ چھوٹی مخلوقات بھوک سے نہیں مرتیں؟‘‘ بیوی نے سوال کیا۔ شوہر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اب بھی دہلیز پر کھڑا تھا۔ تبھی جنگل سے تیز ہوا چلی اور کھلے دروازے سے اندر آئی جس سے بیوی کانپنے لگی۔ کیا تم اندر آکر دروازہ بند نہیں کروگے؟‘‘ اس نے غصے سے سوال کیا۔
’’جس گھر میں دل سخت ہوں وہاں تکلیفیں آتی رہتی ہیں۔‘‘ شوہر نے مایوسی سے کہا جبکہ بیوی کوئی جواب دیئے بغیر آتش دان کی طرف بڑھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد جب اس نے مڑ کر دیکھا تو اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں۔ شوہر تیزی سے اندر آیا اور بچے کو بیوی کی بانہوں میں ڈال دیا۔ بیوی نے بچے کا ماتھا چوما اور اسے اپنے بچوں کے برابر میں سلا دیا۔ اگلے دن لکڑہارے نے بچے کی سنہری چادر اور اس کی گردن سے عنبر کی زنجیر نکال کر انہیں ایک صندوق میں رکھ دیا۔
اس ’’آسمانی تحفے‘‘ جس کا نام لکڑہارے نے ’’نجم‘‘ رکھا، کی پرورش لکڑہارے کے بچوں کے ساتھ ہوئی۔ وہ اب ان کے ساتھ ہی کھاتا پیتا اور اٹھتا بیٹھتا تھا۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ وہ مزید خوبصورت ہوتا جارہا تھا۔ گاؤں کے لوگ اسے دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔ وہ ان کی طرح نہیں تھا۔ وہ روئی کے گالوں کی طرح سفید تھا۔ اس کے بال گھنگھریالے اور چاکلیٹی رنگ کے تھے۔ ہونٹ سرخ پھول کی پنکھڑیوں کی طرح تھے۔ آنکھیں دریا کے صاف پانی کی طرح تھیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: ایک طبع زاد اور غیر مطبوعہ کہانی: شاہی قید خانہ

اس خوبصورتی نے اسے انتہائی مغرور، ظالم اور خود غرض بنادیا۔ وہ دیگر سبھی بچوں کو حقیر سمجھتا تھا۔ وہ ان کے درمیان مالک بنا بیٹھا رہتا۔ اسے غریبوں، اندھوں، معذوروں یا مصیبت زدہ لوگوں پر ترس نہیں آتا تھا بلکہ وہ ان پر پتھر پھینکتا تھا۔ درحقیقت، وہ خوبصورتی کا دلدادہ تھا، اور کمزوروں اور کم خوبصورت نظر آنے والوں کا مذاق اڑاتا تھا۔ وہ صرف اپنے آپ سے پیار کرتا تھا۔ گرمیوں میں وہ پادری کے باغ میں کنویں کے کنارے بیٹھ جاتا اور اس کے پانی میں اپنی خوبصورتی کو دیکھ کر خوب خوش ہوتا تھا۔
لکڑہارے کی بیوی اسے اکثر کہتی تھی کہ ’’ہم نے تمہارے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جیسا تم دوسروں کے ساتھ کرتے ہو۔ تمہیں کمزوروں پر رحم کیوں نہیں آتا؟‘‘
بوڑھا پادری بھی اسے اکثر اپنے پاس بلا کر محبت، جانداروں سے محبت، نرمی اور صلہ رحمی کا درس دیتا تھا مگر نجم کو ان باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ چرند پرند سبھی کو پریشان کرتا تھا۔ نصیحتیں وہ ایک کان سے سنتا، دوسرے سے اُڑا دیتا۔ نجم کی کئی دوسرے بچوں پر مشتمل اس کی اپنی فوج تھی۔ وہ جو کرتا، تمام بچے بھی وہی کرتے۔ وہ جو حکم دیتا، تمام بچے اسے پورا کرنے میں لگ جاتے۔ آہستہ آہستہ ان بچوں کے دل بھی اسی کی طرح سخت ہو گئے۔
ایک دن گاؤں سے ایک بھکارن کا گزر ہوا۔ اُس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور پاؤں میں زخموں کے نشان تھے۔ اس کی حالت غیر تھی۔ وہ آرام کی غرض سے شاہ بلوط کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئی۔ جب نجم نے اسے دیکھا تو اپنے ساتھیوں سے کہا، ’’دیکھو! وہاں ایک بدتمیز بھکارن بیٹھی ہے۔ آؤ، ہم اسے یہاں سے بھگا دیں کیونکہ وہ انتہائی بدصورت ہے۔‘‘چنانچہ سبھی اس پر پتھر برسانے لگے۔ اس عورت کی آنکھوں میں خوف اتر آیا۔ قریب ہی لکڑہارا تھا۔ جب اس نے یہ دیکھا تو اُس سے سختی سے کہنے لگا، تمہارا دل یقیناً پتھر ہوچکا ہے۔ تم نہیں جانتے کہ رحم کیا ہے۔ کیا اس غریب عورت نے تمہارے ساتھ کچھ برا کیا ہے جو تم اس کے ساتھ ایسا سلوک کررہے ہو؟‘‘
لکڑہارے کی بات سن کر وہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ پاؤں زمین پر پٹخ کر کہنے لگا، ’’تم کون ہو مجھے حکم دینے والے۔ مَیں تمہارا بیٹا نہیں ہوں کہ تمہاری باتیں سنوں۔‘‘
’’تم درست کہہ رہے ہو۔‘‘ لکڑہارے نے کہا، ’’لیکن جب تم مجھے جنگل میں ملے تھے تو کیا مَیں نے تم پر ترس نہیں کھایا تھا؟‘‘
جب بھکارن نے یہ بات سنی تو غش کھاکر گر پڑی۔ لکڑہارا اسے اپنے گھر لے گیا اور جب اسے ہوش آیا تو وہ کہنے لگی، ’’کیا تم نے سچ کہا ہے کہ تمہیں یہ بچہ جنگل میں ملا ہے؟ کیا یہ آج سے ٹھیک دس سال پہلے کی بات ہے؟‘‘ لکڑہارے نے اثبات میں سر ہلایا۔ 
وہ جلدی سے بولی، ’’کیا اس کے گلے میں عنبر کی زنجیر تھی؟ کیا یہ ستاروں سے ڈھکی سنہری چادر میں لپٹا ہوا تھا؟‘‘
’’ہاں!‘‘ اب لکڑہارا حیران تھا۔ پھر اس نے بھکارن کو عنبر کی زنجیر اور سنہری چادر دکھائی۔ عورت یہ چیزیں دیکھ کر خوشی سے رو پڑی، اور کہنے لگی، ’’وہ میرا بیٹا ہے۔ اسے میں نے جنگل میں کھو دیا تھا۔ مَیں تم سے گزارش کرتی ہوں کہ اسے یہاں بلا لو۔ مَیں اس کی تلاش میں در در بھٹک رہی ہوں۔‘‘
چنانچہ لکڑہارے اور اور اس کی بیوی نے نجم کو یہ کہتے ہوئے بلایا کہ ’’گھر میں تمہاری حقیقی ماں تمہاری منتظر ہے۔‘‘
وہ حیرت اور خوشی سے تیزی سے اندر آیا مگر جب بھکارن کو دیکھا تو طنزیہ انداز میں کہنے لگا، ’’مجھے یہاں اس گھٹیا بھکارن کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔‘‘ عورت نے جواب دیا، ’’میں تمہاری ماں ہوں۔‘‘
’’تم ایک پاگل، بددماغ اور بدصورت عورت ہو،‘‘ اُس نے غصے سے کہا۔ ’’میں تمہارا بیٹا نہیں ہوں۔ تم اپنا مکروہ چہرہ یہاں سے لے کر چلے جاؤ۔‘‘
’’نہیں، تم واقعی میرے بیٹے ہو جسے میں نے جنگل میں جنم دیا تھا،‘‘ وہ جلدی سے بولی۔
پھر وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور اس نے اپنے بازو بچے کی طرف پھیلاتے ہوئے کہا، ’’ڈاکوؤں نے تمہیں مجھ سے چرا لیا تھا۔ اب تم میرے ساتھ چلو کیونکہ میں تمہاری تلاش میں پوری دنیا میں ماری ماری پھر رہی ہوں۔‘‘
نجم اپنی جگہ سے بالکل نہیں ہلا اور اس نے انتہائی غصے میں کہا، ’’اگر تم سچ میں میری ماں ہو تو مجھ سے دور ہوجاؤ۔ تمہیں مجھ سے محبت ہوتی تو تم مجھے شرمندہ کرنے کیلئے یہاں نہ آتیں۔ میری خوبصورتی دیکھ کر مَیں یہ سمجھتا رہا کہ میں کسی دوسری سیارے سے آیا ہوں اور کسی خوبصورت عورت کا بچہ ہوں مگر تم نے کہا کہ مَیں تمہارا یعنی ایک بھکارن کا بچہ ہوں! یہاں سے چلی جاؤ اور دوبارہ کبھی نہ آنا۔‘‘
’’افسوس! میرے بیٹے،‘‘ اس نے کہا، ’’کیا تم مجھے رخصت کرنے سے قبل بوسہ نہیں دو گے؟ میں نے تمہیں ڈھونڈنے کیلئے بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں۔‘‘ 
’’نہیں۔‘‘ نجم نے بے رخی سے کہا۔
وہ عورت اٹھی، اور بلک بلک کر روتی ہوئی جنگل میں چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد نجم بہت خوش ہوا اور کھیلنے کیلئے اپنے ساتھیوں کے پاس بھاگا۔ لیکن جب اُنہوں نے اُسے آتے دیکھا تو اُس کا خوب مذاق اُڑایا اور کہنے لگے، ’’تم تو کہتے تھے کہ تم ستارے کے بیٹے ہو، کیا یہ بھکارن ستارہ ہے؟ اب تمہاری اصلیت بھی سامنے آگئی ہے۔ تمہارا چہرہ ایک مینڈک کی طرح نظر آنے لگا ہے۔ تم ہم سے دور رہو۔‘‘ اور پھر انہوں نے مل کر نجم کو بھگا دیا۔

دوسرا حصہ

نجم اپنے آپ سے کہنے لگا، ’’مجھے کنویں پر جانا چاہئے۔ وہ مجھے میری خوبصورتی دکھائے گا۔‘‘ جب اس نے کنویں میں جھانکا تو اسے پانی میں اپنا چہرہ نظر آیا مگر اب یہ خوبصورت نہیں تھا بلکہ کسی مینڈک کی طرح نظر آرہا تھا۔ وہ گھبرا گیا اور گھاس پر گر کر اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر رونے لگا۔ پھر کہنے لگا، ’’یقیناً یہ میرے گناہ اور تکبر کے سبب ہوا ہے۔ مَیں نے اپنی ماں کو جھٹلایا اور اُسے بھگا دیا۔ مَیں نے اُس پر بہت ظلم کیا۔ اب مجھے میری ماں کے پاس جانا ہے۔ مَیں اس کی تلاش میں در در بھٹکوں گا۔ خدا نے سزا کے طور پر مجھ پر عذاب بھیجا ہے۔ جب تک میری ماں مجھے معاف نہیں کرے گی، مَیں سکون سے نہیں بیٹھوں گا۔‘‘ نجم اپنے آپ سے بات کرتے ہوئے رونے لگا۔
پھر وہ بھاگتا ہوا جنگل میں گیا اور دیوانہ وار اپنی ماں کو پکارنے لگا مگر وہ نہ ملی۔ سورج غروب ہوا تو وہ پتوں پر لیٹ کر پرندوں اور جانوروں پر کئے جانے والے اپنے مظالم یاد کرنے لگا۔ صبح اُٹھ کر اس نے درختوں سے کڑوے بیر توڑ کر کھائے، اور پھر ماں کی تلاش میں نکل پڑا۔ راستے میں جو ملتا، اس سے اپنی ماں کے بارے میں دریافت کرتا مگر اسے کسی نے صحیح جواب نہیں دیا۔ اس نے چھچھوندر سے کہا، ’’تم زمین کے نیچے جا سکتی ہو۔ مجھے بتاؤ، کیا میری ماں وہاں ہے؟‘‘

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: دولت کا دیوتا اور تیر انداز

چھچھوندر نے جواب دیا، ’’تم نے میری آنکھیں پھوڑ دی ہیں۔ مجھے تمہاری ماں کیسے نظر آئے گی؟‘‘
اس نے سبز چڑیا سے کہا، ’’تم درختوں کی چوٹیوں پر اڑ سکتی ہو، اور پوری دنیا دیکھ سکتی ہو۔ مجھے بتاؤ، کیا تم میری ماں کو دیکھ سکتی ہو؟‘‘ چڑیا نے جواب دیا، ’’تم نے میرے پر کاٹ دیئے۔ مَیں کیسے اڑ سکتی ہوں؟‘‘ 
اس نے گلہری سے پوچھا، ’’میری ماں کہاں ہے؟‘‘ گلہری نے جواب دیا، ’’تم نے میری ماں کا شکار کیا ہے، مَیں تمہاری ماں کو کیوں تلاش کروں؟‘‘
نجم کا سر شرمندگی سے جھک گیا، آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے سبھی سے معافی مانگی اور ماں کی تلاش میں آگے بڑھ گیا۔ تیسرے دن وہ جنگل کی دوسری طرف پہنچا جہاں ایک گاؤں آباد تھا۔ جب وہ وہاں سے گزرا تو بچوں نے اس کا خوب مذاق اڑایا اور اس پر پتھر برسائے۔ ان بچوں کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ نجم پر ترس کھانے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ در در بھٹک رہا تھا۔ وہ تین سال تک پوری دنیا میں گھومتا رہا لیکن اسے اس کی ماں نہیں ملی۔ چلتے چلتے اس کے پاؤں میں زخم آگئے تھے۔ کئی زخم تازہ تھے کئی بھر چکے تھے۔ وہ جس آبادی سے گزرتا، لوگ اس کا مذاق اڑاتے، اس پر پتھر برساتے، اسے میلوں دوڑاتے اور خوب مارتے کیونکہ وہ ایک بدصورت بھکاری کی طرح نظر آتا تھا۔دنیا میں اس کیلئے محبت تھی نہ شفقت اور نہ خیرات بلکہ یہ تو وہی دنیا تھی جو اس نے اپنی خوبصورتی کے دنوں میں بنائی تھی۔
ایک شام وہ ایک مضبوط فصیل والے شہر کے پھاٹک پر آیا جو ایک دریا کے کنارے کھڑا تھا۔ وہ تھکا ہوا اور پیاسا تھا۔ اس نے اندر جانے کی اجازت مانگی تو سپاہیوں نے اسے بدصورتی کی بناء پر دھتکار دیا۔
’’مَیں اپنی ماں کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ برائے مہربانی مجھے اندر جانے دیجئے، شاید وہ یہیں ہو۔‘‘
ایک سپاہی نے کہا، ’’تیری ماں تجھے دیکھ کر بالکل خوش نہیں ہوگی کیونکہ اس کی کالی بکری بھی تجھ سے کہیں زیادہ خوبصورت ہوگی۔‘‘ اور پھر تمام سپاہی ہنسنے لگے۔ ایک سپاہی کہنے لگا، ’’تیری ماں کون ہے اور تو اسے کیوں ڈھونڈ رہا ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا، ’’میری ماں ایک بھکارن ہے، بالکل میری طرح۔ میں نے اس کے ساتھ برا سلوک کیا ہے۔ مَیں اس سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔‘‘ مگر سپاہیوں نے اسے آگے بڑھنے نہیں دیا۔
جب وہ روتا ہوا جانے لگا تو کمانڈر نے کہا، ’’ہم اس گندی چیز کو مونگ پھلی کے ایک پیالے کے عوض بیچ سکتے ہیں۔‘‘ قریب ہی ایک مکروہ چہرے والا بوڑھا آدمی کھڑا تھا، اس نے سودا منظور کرلیا اور نجم کو لے کر شہر میں داخل ہوگیا۔
بہت سی گلیوں سے گزرنے کے بعد وہ ایک چھوٹےدروازے پر پہنچے جو انار کی شاخوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ بوڑھے آدمی نے اپنی انگوٹھی دروازے سے لگائی تو وہ کھل گیا۔ وہ ایک سرسبز باغ میں داخل ہوگئے۔ بوڑھے نے اپنی پگڑی سے ریشم کا ایک دوپٹہ نکالا، اور نجم کی آنکھیں اس سے باندھ دیں۔ اور جب اس کی آنکھوں سے کپڑا اتارا گیا تو وہ ایک تہہ خانے میں تھا۔ بوڑھے نے اس کے سامنے ایک سوکھی روٹی اور نمکین پانی رکھا۔ جب اس نے یہ کھا لیا تو بوڑھا تہہ خانے میں تالا لگا کر نکل گیا۔
دراصل وہ بوڑھا لیبیا کا سب سے بڑا جادوگر تھا جو اس شہرمیں سونے کی تلاش میں آیا تھا۔ اگلے دن وہ نجم سے کہنے لگا، ’’اس شہر کے باہر ایک باغ میں سونے کے تین ٹکڑے ہیں۔ ایک سفید، دوسرا زرد اور تیسرا سرخ ہے۔ آج تم میرے لئے سفید سونے کا ٹکڑا لاؤ گے۔ اگر تم ایسا کرنے میں ناکام رہے تو تمہیں سو کوڑے ماروں گا۔‘‘ پھر اس نے نجم کو باغ میں چھوڑ دیا۔ یہ جادوئی باغ تھا جس میں بری نیت سے آنے والے داخل نہیں ہوسکتے تھے۔ باغ میں پرندے گانا گا رہے تھے اور ہر طرف پھول مہک رہے تھے۔ نجم خوشی خوشی باغ میں گھومنے لگا مگر جب اس کے دل میں سونے کے ٹکڑے کا خیال آیا تو زمین سے خاردار جھاڑیاں نکل آئیں اور اس کے پاؤں جکڑنے لگیں۔ وہ سخت تکلیف میں تھا۔ غروب آفتاب کے وقت اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے کیونکہ خالی ہاتھ لوٹنے کا انجام اسے معلوم تھا۔ جونہی دل سے سونے کا خیال نکلا، خاردار جھاڑیاں غائب ہوگئیں۔ وہ واپس جانے کیلئے باغ کے دروازے کے قریب پہنچا تو اسے کسی کے سسکنے کی آواز آئی۔ وہ اپنا دکھ بھول کر وہاں پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ ایک چھوٹا خرگوش جھاڑیوں میں پھنسا ہوا ہے۔ نجم کو اس پر ترس آگیا، وہ کہنے لگا، ’’میں خود ایک غلام ہوں، اس لئے آزادی کی قیمت جانتا ہوں۔‘‘ پھر اس نے خرگوش کو آزاد کردیا۔ 
خرگوش نے جواب دیا، ’’تم نے مجھے آزادی دی ہے، بدلے میں تمہیں کیا چاہئے؟‘‘
نجم نے کہا ’’میں سفید سونے کا ایک ٹکڑا ڈھونڈ رہا ہوں، اگر اسے اپنے آقا کے پاس نہ لے گیا تو وہ مجھے خوب پیٹے گا۔‘‘ ’’میرے ساتھ آؤ۔‘‘ خرگوش نے کہا۔ خرگوش نے اسے ایک بڑے بلوط کے درخت کی شگاف میں سفید سونے کا ٹکڑا دکھایا۔ نجم نے خرگوش کا شکریہ ادا کیا اور جادوگر کے گھر کی طرف چل پڑا۔ چونکہ باغ کی ایک مخلوق نے اس کی مدد کی تھی اس لئے خاردار جھاڑیاں نہیں نکلیں۔
شہر کے پھاٹک پر ایک کوڑھی بیٹھا ہوا تھا جس کا چہرہ سرمئی رنگ کے کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ انگاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ جب اس نے نجم کو آتے دیکھا تو لکڑی کا پیالہ زمین پر مار کر کہنے لگا، `’’میری مدد کرو ورنہ میں بھوکا مر جاؤںگا۔ مجھے شہر سے نکال دیا گیا ہے۔ کوئی نہیں ہے جو مجھ پر ترس کھائے۔‘‘ نجم نے کہا، ’’میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ ‘‘ لیکن کوڑھی نے اس درد کے ساتھ التجا کی کہ نجم نے اسے سفید سونے کا ٹکڑا دے دیا۔ جب وہ خالی ہاتھ جادوگر کے سامنے پہنچا تو اس نے نجم کو خوب مارا اور اسے تہہ خانے میں بند کردیا۔ نجم ساری رات روتا رہا۔

یہ بھی پڑھئے: عالمی نظموں کا اردو ترجمہ: شیطان

دوسرے دن جادوگر نے اسے زرد سونے کی تلاش میں بھیجا۔ سارا دن گزر گیا مگر سونا نہ ملا۔ غروب آفتاب کے وقت وہ رونے لگا تو وہی خرگوش پاس آیا، اور اسے ایک تالاب کے پاس لے گیا جس کے کنارے زرد سونے کا ٹکڑا پڑا تھا۔ نجم نے اسے خوشی خوشی اٹھا لیا۔ جب کوڑھی نے اسے آتے دیکھا تو پھر فریاد کی۔ نجم کو پھر اس پر ترس آگیا اور اس نے زرد سونے کا ٹکڑا اسے دے دیا۔
آج بھی وہ خالی ہاتھ پہنچا تھا اس لئے جادوگر نے اسے خوب مارا اور زنجیروں میں جکڑ کر تہہ خانے میں پھینک دیا۔ اگلے دن جادوگر کہنے لگا کہ ’’اگر تم آج سرخ سونا لے کر نہیں آئے تو تمہیں قتل کردوں گا۔‘‘
نجم سارا دن سرخ سونا تلاش کرتا رہا مگر ناکام رہا۔ شام کو جب وہ اپنی قسمت پر آنسو بہا رہا تھا تو خرگوش پاس آیا اور کہنے لگا، ’’سرخ سونے کا ٹکڑا تمہارے پیچھے موجود غار میں ہے۔‘‘
نجم نے غار سے سرخ سونے کا ٹکڑا اٹھایا اور شہر کی طرف چل پڑا۔ کوڑھی نے اسے آتے دیکھ لیا اور سڑک کے بیچ کھڑا ہو کر فریاد کرنے لگا۔ نجم کو اس پر ترس آگیا اور اس نے سرخ سونے کا ٹکڑا دیتے ہوئے کہا، ’’مجھ سے زیادہ تمہیں اس کی ضرورت ہے۔‘‘ آج اس کا دل بھاری تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کا کیا انجام ہوگا۔ آج اس کی زندگی کی آخری شام تھی۔ وہ بوجھل قدموں سے پھاٹک کی طرف بڑھنے لگا۔ لیکن جب وہ پھاٹک کے قریب پہنچا تو پہرے داروں نے جھک کر اسے سلام کیا اور کہا، ’’ہمارا مالک کتنا خوبصورت ہے۔‘‘ اور پھر شہریوں کا ایک ہجوم اُس کے پیچھے چل پڑا۔ سبھی بیک زبان کہنے لگے، ’’یقیناً پوری دنیا میں اتنا خوبصورت کوئی نہیں ہے۔‘‘ یہ سن کر نجم رو پڑا، اور اپنے آپ سے کہنے لگا، ’’واہ! آج سبھی میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔‘‘
اس کے اطراف اتنے سارے لوگ تھے کہ وہ گھر کا راستہ بھول گیا اور اپنے آپ کو شہر کے اس چوک پر پایا جہاں بادشاہ کا محل تھا۔ محل کا دروازہ کھلا اور کاہن اور شہر کے اعلیٰ افسر اُس سے ملنے کیلئے دوڑ پڑے۔ سبھی نے جھک کر اسے سلام کیا، اور کہنے لگے، ’’ہم سبھی تمہارا انتظار کر رہے تھے۔ ہمارے بادشاہ!‘‘
نجم نے انہیں جواب دیا، ’’میں بادشاہ ہوں نہ بادشاہ کا بیٹا۔ مَیں ایک بھکارن کا بیٹا ہوں۔ تم کہتے ہو کہ میں خوبصورت ہوں لیکن مَیں جانتا ہوں کہ میری شکل مینڈک جیسی ہے۔‘‘
جس کمانڈر نے اسے بیچا تھا، بلند آواز سے کہنے لگا، ’’میرے آقا کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ خوبصورت نہیں ہیں؟‘‘ اور پھر نجم نے اس کی چمکتی ڈھال میں اپنا عکس دیکھا۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ خوبصورت ہوگیا تھا۔ کاہنوں اور اعلیٰ افسروں نے اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور کہنے لگے، ’’آج سے برسوں پہلے پیشین گوئی کی گئی تھی کہ آج ہی کے دن ایک روشن پیشانی والا نوجوان شہر میں داخل ہوگا اور ہم پر حکومت کرے گا۔ ہمارے آقا یہ تاج اور عصا لیجئے اور عدل و انصاف کے ساتھ ہم پر حکومت کیجئے۔‘‘
لیکن نجم نے کہا، ’’مَیں اِس لائق نہیں ہوں۔ مَیں نے اُس ماں کو جھٹلایا جس نے مجھے جنم دیا۔ جب تک اُسے نہ پا لوں، اُس سے معافی نہ مانگ لوں اور جب تک وہ مجھے معاف نہ کردے مجھے سکون نہیں ملے گا۔ مجھے جانے دو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ شہر کے مرکزی پھاٹک کی طرف پلٹا۔
ہجوم چھٹ گیا۔ لوگوں نے اسے راستہ دیا مگر سامنے وہی بھکارن اور کوڑھی کھڑے تھے۔ نجم خوشی سے چیخ پڑا اور اپنی ماں کی طرف بھاگا۔ اس کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگا۔ ماں کے پاؤں کے زخموں کو بوسہ دینے لگا۔ ماں کے پاؤں نجم کے آنسوؤں سے تر ہوگئے۔ وہ روتا اور معافی مانگتا۔ وہاں موجود ہر شخص آبدیدہ ہوگیا۔ سبھی کو لگ رہا تھا کہ آج ان کا دل سینے سے نکل آئے گا۔ آج وہ دل بھی موم ہوگئے جو پتھر ہوچکے تھے۔
اس نے کہا، ’’ماں! مَیں نے تکبر میں تمہیں دھتکار دیا۔ میری عاجزی کی گھڑی میں مجھے قبول فرما۔ ماں! مَیں نے تم سے نفرت کی، تم مجھے محبت دو۔ ماں! مَیں نے تمہیں مسترد کر دیا، مگر آج تم مجھے قبول کرلو۔‘‘ مگر بھکارن خاموش کھڑی رہی۔
پھر اس نے کوڑھی کے سفید پاؤں پکڑ لئے اور کہنے لگا، ’’مَیں نے تین مرتبہ تمہاری مدد کی۔ برائے کرم میری ماں سے کہو کہ وہ مجھ سے بات کرے۔‘‘
نجم کی آنکھوں سے آنسو بہے جارہے تھے مگر کوڑھی بھی خاموش رہا۔ وہ رو رو کر ہلکان ہوگیا تھا۔ ہجوم خاموش کھڑا تھا مگر سبھی کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ وہ کہنے لگا، ’’ماں! میری تکلیف میری برداشت سے زیادہ ہے۔ مجھے معاف کردو۔ مَیں جنگل میں واپس چلا جاؤں گا۔‘‘ پھر بھکارن نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر اسے اٹھنے کا حکم دیا۔ کوڑھی نے بھی اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا۔
اور جب وہ اٹھا تو منظر بدل چکا تھا۔ بھکارن، ملکہ اور کوڑھی، بادشاہ بن چکا تھا۔ 
پھر ملکہ نے اپنی رعب دار آواز میں کہا ’’جس کی تم نے مدد کی، وہ تمہارے والد ہیں۔‘‘
بادشاہ نے نرمی سے کہا ’’جس کے پاؤں تم نے اپنے آنسوؤں سے دھو دیئے، وہ تمہاری ماں ہے۔‘‘
اور پھر دونوں نے نجم کو سینے سے لگا لیا اور محل لے آئے۔ اُسے خوبصورت لباس پہنایا گیا۔ سر پر تاج رکھا گیا اور ہاتھ میں عصا دیا گیا۔ وہ شہر جو دریا کے کنارے مضبوطی سے کھڑا تھا، اب اس پر نجم کی حکومت تھی۔‘‘ اس نے سبھی کے ساتھ انصاف کیا۔ اس نے کمزوروں پر رحم کیا۔ جادوگر کو ملک بدر کردیا اور لکڑہارے کو ڈھیر سارے تحفے بھیجے۔ لوگوں کو پرندوں اور جانوروں سے محبت کرنا سکھایا۔ اس نے محبت، شفقت اور خیرات کی تعلیم دی۔ غریبوں کو روٹی، اور ننگوں کو کپڑے دیئے۔ اس ملک میں اب امن اور سکون تھا۔
مگر نجم نے زیادہ عرصہ تک حکومت نہیں کی۔ اس کی تکلیف اتنی زیادہ اور آزمائش اتنی تلخ تھی کہ وہ تین سال ہی میں وفات پاگیا۔ پھر اس ملک پر ایک ظالم اور بے رحم بادشاہ نے حکومت کی۔

نوٹ: مصنف کی کہانی کا عنوان ’’اسٹار چائلڈ‘‘ ہے اور انہوں نے اپنے کردار کا نام بھی اسٹار چائلڈ ہی رکھا ہے۔ اس کہانی میں اسٹار چائلڈ کو ’’نجم‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ عربی لفظ ہے جس کا معنی ستارہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK