معروف روسی ادیب میخائل لیرمونتوف کی شہرہ آفاق نظم ’’ڈیمن‘‘ Demon کے مرکزی خیال پر مبنی کہانی۔
EPAPER
Updated: June 08, 2024, 6:08 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
معروف روسی ادیب میخائل لیرمونتوف کی شہرہ آفاق نظم ’’ڈیمن‘‘ Demon کے مرکزی خیال پر مبنی کہانی۔
سولہویں صدی کے رومانیہ کا سب سے شاندار، مضبوط اور عالیشان قلعہ مشعل کی روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔ پھولوں، پھلوں اور عطریات کے ساتھ لذیذ پکوانوں کی بھی خوشبوئیں پھیلی تھیں۔ جشن کا ماحول تھا مگر قلعہ کی سب سے اونچی دیوار پر بڑے بڑے سیاہ پر پھیلائے سیاہ سینگوں والی ایک مخلوق اداس بیٹھی ہوئی تھی۔
ہزاروں صدیاں گزر چکی ہیں۔ زمین پر انسانی ارتقاء کا آغاز آدم و حوا کو جنت سے نکالے جانے کے بعد ہوا تھا۔ انسانوں کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے یعنی خدا کی بنائی ہوئی تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ۔ آدم و حوا کے ساتھ کسی اور کو بھی جنت سے نکالا گیا تھا۔ وہ شیطان تھا جس نے انسانوں کو جنت سے نکلوانے کی کامیاب سازش رچی تھی، اور خدا نے سزا کے طور پر تینوں (آدم، حوا، شیطان) کو زمین پر بھیج دیا تھا۔
قلعہ کی دیوار پر سیاہ پروں والی وہ مخلوق شیطان تھا، جو خوشی کے اس ماحول میں سوچ رہا تھا کہ مَیں کتنا بدنصیب ہوں۔ صدیاں بیت گئیں مگر مَیں اب بھی وہیں ہوں جہاں سے شروعات کی تھی۔ زمین بدل گئی، انسان بدل گئے، زمانہ بدل گیا مگر مَیں وہی کام کررہا ہوں جو ہمیشہ سے کرتا آیا ہوں، یعنی انسانوں کو بہکانے کا کام، انہیں ورغلانے کا کام اور انہیں گناہ میں ملوث کروانے کا کام۔ ان کی زندگی کتنی آسان ہے، پیدا ہوتے ہیں، زمین پر خوشیوں اور غم کے لمحات گزارتے ہیں، اور پھر اپنے مقررہ وقت پر فوت ہوجاتے ہیں۔ ایک مَیں بدنصیب ہوں جو پیدائش سے اب تک زندہ ہوں۔ خدا سے انعام کے طور پر قیامت تک کی زندگی طلب کی تھی مگر یہ انعام نہیں بلکہ سخت سزا ہے۔ خدا نے مجھے قیامت تک زندگی دی اور انسانوں کی زندگیوں پر موت کا پہرہ بٹھا دیا۔ میرے لئے سب سے مشکل کام انسانوں کو خوشحال اور آسودہ دیکھنا ہے۔ جن کاموں میں مجھے خوشی ملتی تھی، اب مَیں وہی کرتے کرتے تھک چکا ہوں۔ زندگی میں غم ہے نہ خوشی، رشتے ہیں نہ دوست، نہ رو سکتا ہوں نہ ہنس سکتا ہوں، موت آنہیں سکتی اور زندگی بوجھ لگتی ہے، ہمہ وقت بس کام۔ میرا کوئی غمگسار نہیں ہے۔ نہ کسی کو اپنا کہہ سکتا ہوں اور نہ کسی سے محبت کرسکتا ہوں۔ کیسی بے کیف اور بے رونق زندگی ہے!
یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: شاندار راکٹ
تبھی اسے ہلکے قہقہے سنائی دیئے۔ دو لوگ قیمتی ملبوسات میں قلعہ کے دروازے سے داخل ہورہے تھے۔ شیطان نے ان کی جانب حقارت سے دیکھتے ہوئے زمین پر تھوک دیا۔ کتنی غلیظ اور حقیر مخلوق بنائی ہے خدا نے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے بڑے بڑے سیاہ پر پھیلائے اور قلعہ پر پرواز کرنے لگا۔ تبھی اس کی نظر شہزادی تمارا پر پڑی جو شرمائی شرمائی سی یہاں وہاں پھر رہی تھی۔ آج وہ دلہن بنی تھی اور اتنی حسین لگ رہی تھی کہ لوگ اس کی نظریں اتار رہے تھے۔ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی نے اپنے سر پر رومانی ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر سونے اور چاندی کے سکے جڑے تھے۔ اسی دوران شہزادی کی سہیلیاں اس کے پاس آئیں اور اس کے ہاتھ میں دف پکڑا دی، اور پھر تمارا جھوم جھوم کر روایتی رقص کرنے لگی۔ وہ آج بہت خوش تھی۔
شیطان نے جب تمارا کو دیکھا تو دیکھتا رہ گیا ہے۔ اسے لگ رہا تھا کہ زمین پر چاند اتر آیا ہے۔ وہ شیطان جس نے ابھی چند لمحوں قبل انسان کو خدا کی حقیر ترین مخلوق قرار دیا تھا، اور جو آدم کی پیدائش ہی سے انسانوں سے نفرت کرتا آیا تھا، اور اسی نفرت کے تحت آج زمین پر قیامت تک نہ مرنے کی سزا پارہا تھا، وہ آج تمارا کو دیکھ کر بے خود ہوگیا۔ تمارا اس قدر خوبصورت تھی کہ اس وقت روئے زمین پر اس سے حسین کوئی دوسری عورت نہیں تھی۔ شیطان نے فرشتوں کو دیکھ رکھا تھا مگر انسانی حسن کو اس نے اتنی توجہ سے پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ اپنا دل تھام کر رہ گیا۔ اس کے دل میں پہلی مرتبہ محبت کا لطیف احساس جاگا۔
دریں اثنا، پندرہ آدمیوں پر مشتمل شاہی قافلہ ’’گوڈل‘‘ کے قلعہ طرف جانے کیلئے تیار ہوگیا۔ چھ سفید گھوڑوں پر مشتمل بگھی میں شہزادی تمارا کو بٹھایا گیا اور شہزادہ قافلے کی قیادت کے پیش نظر اپنے وفادار گھوڑے کی پشت پر سوار ہوگیا اور پھر یہ سواری گوڈل کے قلعے کی طرف روانہ ہوئی۔ شیطان کی نظریں تمارا پر جمی تھیں۔ اس نے اپنا پرانا حربہ عیاری آزمایا۔ جب قافلہ قلعہ کی حدود سے نکل گیا تو سیاہ پروں والا شیطان اڑتا ہوا، شہزادے کے قریب آیا اور اس کے کان میں یہ بات ڈال دی کہ شہزادی تمارا ڈائن ہے اور وہ اس کے ساتھ کبھی خوش نہیں رہ سکے گا۔ شیطان کا فسوں ایسا تھا کہ یہ بات شہزادے کے دل میں گھر کرنے لگی۔ وہ گھبرانے لگا، اور پھر اس نے راستے میں آنے والے چرچ میں جانے کا فیصلہ کیا تاکہ عبادت کرکے گھبراہٹ کم کی جا سکے۔ لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔
شہزادی تمارا کو بگھی کے باہر عجیب سی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ لوگ آپس میں لڑ رہے ہوں۔ بگھی بھی رُک گئی تھی۔ لوگوں کی چیخ و پکار اور قدموں کی آوازیں آرہی تھیں۔ پھر سناٹا چھا گیا۔ اس پورے عمل میں چند منٹ گزرے اور بگھی پھر اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوگئی۔ تمارا آنکھیں موندے اطمینان سے لیٹ گئی۔
چند گھنٹوں کے بعد گھوڑے رُک گئے۔ پھر بھاگتے ہوئے قدموں کی آوازیں آئیں اور بگھی کا دروازہ کھولا گیا۔ شہزادی تمارا حسن کی مورت بنی بیٹھی تھی۔ گوڈل قلعہ کی خواتین رنگین، خوبصورت اور قیمتی ملبوسات میں تھیں۔ انہوں نے تمارا کو بگھی سے نکالا۔ لیکن سبھی خاموش تھیں اور ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ تمارا گھبراگئی اور اس نے نظریں اٹھا کر قلعے کے صدر دروازے کی طرف دیکھا تو آگے گھوڑے پر شہزادہ بیٹھا نظر آیا جس کی پیٹھ شہزادی کی طرف اور چہرہ قلعہ کی طرف تھا۔ شہزادی کے لبوں پر ہلکی مسکراہٹ پھیل گئی، تبھی شہزادے کا بے جان جسم گھوڑے سے گرگیا اور سفید گھوڑے کے بالوں پر شہزادے کا سرخ خون پھیل گیا۔ شہزادی وحشت زدہ ہوگئی اور صدمے کی کیفیت میں بگھی کا دروازہ پکڑ کر زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
خواتین نے اسے سہارا دے کر اٹھایا اور قلعے کے اندر لے گئیں۔ صدر دروازے پر تمارا نے بادشاہ اور وزیروں کو دیکھا جو صدمے کی کیفیت میں زمین پر اوندھے منہ پڑی شہزادے کی لاش کو دیکھ رہے تھے۔
دراصل، چرچ پہنچنے سے پہلے شیروں کے ایک گروپ نے شاہی قافلے پر حملہ کردیا تھا۔ شہزادے کے علاوہ قافلہ کا کوئی بھی شخص زندہ نہیں بچا تھا۔ شہزادے نے اپنے لوگوں کو بچانے کیلئے جان کی بازی لگا دی تھی۔ شیروں نے شہزادے پر حملہ کرکے اسے شدید زخمی کردیا تھا۔ وہ اپنی اور شہزادی کی جان بچا کر وہاں سے نکلنے میں کامیاب ضرور ہوگیا تھا مگر قلعہ پہنچتے پہنچتے زخموں کی تاب نہ لا سکا اور جاں بحق ہوگیا۔ جب شاہی خواتین نے تمارا کو اس کی خوابگاہ میں پہنچایا تو وہ بستر کے سرہانے بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ تبھی اسے آواز سنائی دی، ’’پیاری شہزادی! تم روتی ہوئی اچھی نہیں لگتی۔‘‘
یہ سنتے ہی وہ گھبرا کر یہاں وہاں دیکھنے لگی۔ آس پاس کوئی نہیں تھا، پھر آواز کہاں سے آئی۔ وہ پریشان سی کھڑکی کے قریب رکھے دیوان پر آبیٹھی۔ پورے چاند کی کرنیں شہزادی کے چمکتے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔ شہزادے کا خیال ذہن میں آتے ہی اس کی آنکھوں میں دوبارہ آنسو آگئے۔
یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: دیوار کے پار
’’پیاری تمارا! تمہاری آنکھوں میں آنسو اچھے نہیں لگتے۔‘‘ پراسرار آواز پھر ابھری۔
شہزادی پھر گھبرا گئی اور اسے یقین ہوگیا کہ کمرے میں کوئی روح ہے۔ لیکن یہ آواز شیطان کی تھی جو اس کے پاس ہی تھا مگر انسانی آنکھیں اسے دیکھنے سے قاصر تھیں۔ وہ دیوان ہی پر دراز ہوگئی۔ روتے روتے اس کی آنکھوں میں ورم آگیا تھا۔
’’آنسوؤں سے بھیگی تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں۔‘‘ سرگوشی پھر اُبھری۔
اب تمارا کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ وہ ساری رات کمرے میں یہاں وہاں ٹہلتی رہی۔ اسے یقین تھا کہ کمرے میں روح ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ روح اچھی ہے یا بری۔ اس نے عہد کرلیا تھا کہ وہ اب کسی سے محبت کرے گی نہ شادی۔
اگلی صبح جب ملازمین نے اسے کہا کہ بادشاہ سلامت اس سے ملنا چاہتے ہیں تو وہ سیاہ ریشمی لباس میں کمرے سے باہر آئی۔ گزشتہ رات قلعہ کا ہر شخص رنگین لباس میں تھا مگر آج ہر جگہ سیاہی پھیلی ہوئی تھی۔ پورے قلعے میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ قلعہ کے پچھلے حصے میں واقع شاہی قبرستان میں شہزادے کو دفن کر دیا گیا۔ اس دوران شہزادی سسکیاں لیتی رہی۔ پھر چند ہفتے یونہی گزر گئے۔ قلعہ میں شہزادی کو کوئی تکلیف نہیں تھی البتہ اسے سرگوشیاں سنائی دیتی تھیں جو ہر وقت اس کے حسن کی تعریف کرتی رہتی تھیں۔ شہزادی نے کئی بار کہا کہ اسے سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں اور اس کمرے میں روح ہے لیکن سبھی نے اسے شہزادی کا وہم قرار دیا۔
ایک دن شہزادی نے بادشاہ سے التجا کی اسے چرچ بھیج دیا جائے تاکہ وہ وہاں مسیح کی عبادت کرسکے۔ قلعہ میں پر اسرار روح اسے عبادت نہیں کرنے دیتی، اور وہ بہت پریشان ہے۔ شہزادی نے یہ بھی کہا کہ وہ اب ایک راہبہ کی زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ بادشاہ نے تمارا کی درخواست قبول کرلی اور اسے چرچ بھیج دیا گیا۔ مگر یہاں بھی پر اسرار روح نے پیچھا نہ چھوڑا۔ تمارا کواب بھی سرگوشیاں سنائی دیتی تھیں۔ وہ ہر وقت پریشان رہنے لگی۔ اس کی عبادت میں خلل پڑ رہا تھا۔ شیطان اسے عبادت کرنے ہی نہیں دیتا تھا۔ ایک جانب شہزادے کی موت اور دوسری جانب پر اسرار سرگوشیاں، تمارا یہ پریشانی جھیل نہیں سکی اور آہستہ آہستہ ذہنی اور نفسیاتی مریض بنتی چلی گئی۔ چرچ میں دیگر راہبائیں اسے پاگل کہتیں مگر شہزادی کے سامنے کوئی اسے ایسا کہنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ اب شہزادی نے باہر نکلنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ ہر وقت اپنے کمرے میں بند آنسو بہاتی رہتی تھی۔ حسین و جمیل تمارا اب سوکھ کر کانٹا ہوگئی تھی۔
عیسائی مت میں کہا جاتا ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے خدا اس کیلئے ایک ’سرپرست فرشتہ‘ (گارجین اینجل) مقرر کرتا ہے جو بڑی مصیبتوں سے زندگی بھر اس کی حفاظت کرتا ہے۔ ایک رات شیطان نے شہزادی تمارا کے سرپرست فرشتے سے ملنے کا فیصلہ کیا۔
’’تم نے اس معصوم لڑکی کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ تمہیں اب اسے اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔‘‘ فرشتے نے شیطان کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے کہا۔
شیطان نے جب تمارا کی حالت پر غور کیا تو اسے بھی اس پر ترس آگیا لہٰذا اس نے اسے چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کیا۔ شاید شیطان کو پہلی بار کسی انسان پر ترس آیا تھا۔ چرچ کی چھت پر کھڑا شیطان اپنے سیاہ پروں کو پھیلا کر پرواز کرنے ہی والا تھا کہ اسے انتہائی میٹھی اور درد میں ڈوبی گنگنانے کی آواز آئی۔
شہزادی تمارا اپنے کمرے کی کھڑکی پر سر رکھے، غم کی مورت بنی، اپنی خوبصورت آواز میں انتہائی غمگین نغمہ گا رہی تھی۔ اس نغمہ کے بول میں تمارا کا بچپن تھا، شہزادہ تھا، خوشیاں تھیں جو آہستہ آہستہ غم میں بدلتی چلی گئیں۔ تمارا کے الفاظ اور آواز نے شیطان کا دل کرچی کرچی کردیا، اور اس کی آنکھوں سے پہلی بار آنسو نکلے۔ وہ انتہائی غمناک ہوکر سرپرست فرشتے سے کہنے لگا کہ ’’تم مجھے تمارا کی حفاظت کرنے دو۔ مَیں قسم کھاتا ہوں کہ اسے کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔‘‘
فرشتے کو شیطان کی آنکھوں میں سچائی نظر آئی لہٰذا وہ تمارا کو چھوڑ کر آسمان کی جانب پرواز کرگیا۔
یہ بھی پڑھئے: ایک طبع زاد کہانی: بدروح اور رومی شہزادہ
فرشتے کا نظروں سے اوجھل ہونا تھا کہ شیطان تیزی سے تمارا کے کمرے میں آیا اور اپنے آپ کو اس پر ظاہر کردیا۔ تمارا کو احساس ہوا کہ کوئی پیچھے کھڑا ہے۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو بڑے بڑے سیاہ پروں، سر پر سیاہ سینگوں، سرخ آنکھوں اور چہرے پر پھیلی سیاہی والی ایک مخلوق نظر آئی۔ تمارا اسے دیکھ کر بالکل خوفزدہ نہیں ہوئی بلکہ اداسی سے اس مخلوق کو دیکھنے لگی۔
’’کیا تم وہی پراسرار روح ہو؟‘‘ تمارا کی آنکھوں میں اداسی کے بادل صاف دیکھے جاسکتے تھے۔
’’ہاں! تم مجھے دیکھ کر ڈر نہ جاؤ اسلئے اپنے آپ کو تم پر ظاہر کرنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی لیکن آج تمہارا دل سوز نغمہ سن کر اپنے آپ کو نہیں روک سکا۔‘‘ شیطان اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔
’’مجھے اب کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا۔‘‘ تمارا، اداسی کے عالم میں اپنے بستر پر بیٹھ گئی۔ پھر شیطان نے تمارا سے اپنی لازوال محبت کا اظہار کیا۔’’لیکن تم انسان نہیں ہو۔‘‘ تمارا نے الجھتے ہوئے کہا۔
’’مَیں دراصل روحوں کا فرشتہ ہوں۔‘‘ شیطان نے ہمیشہ کی طرح عیاری کی۔ ’’مجھے خدا نے بری روحوں کو بہتر بنانے کیلئے مقرر کیا ہے۔ بری روحوں کو بہتر بنا کر میری حالت ایسی ہوگئی ہے۔ خدا نے کہا ہے کہ ہر بری روح کو بہتر کرنے کے بدلے میری بدصورتی میں اضافہ ہوگا لیکن اگر تم مجھے قبول کرلو تو مَیں خدا سے التجا کرکے یہ کام چھوڑ دوں گا۔ مَیں پھر پہلے جیسا ہوجاؤں گا۔‘‘ شیطان نے تفصیلاً جھوٹ بولا۔ اس وقت اس کے چہرے پر اداسی اور مایوسی بھی عیاں تھی۔ تمارا برسوں سے اداس تھی، اسے معلوم تھا کہ یہ غم کیسا ہوتا ہے۔ وہ شیطان کی اداسی پر ترس کھا کر آگے بڑھی، اور اسے گلے سے لگا لیا۔
اگلی صبح چرچ میں مکمل خاموشی تھی۔ تمارا اپنے کمرے میں مردہ حالت میں پائی گئی تھی۔ اس کی موت کیسے ہوئی، اس کی حقیقت کوئی نہیں جانتا تھا۔ تاہم، اسے گوڈل کے قلعے سے تین دن کے سفر پر دور پہاڑ کی چوٹی پر دفن کیا گیا۔ تدفین کے وقت تمارا کا سرپرست فرشتہ اور شیطان دونوں نمودار ہوئے۔ فرشتے نے شیطان کی طرف دیکھا مگر شیطان کے چہرے پر اداسی اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
کہتے ہیں کہ لوگ آج بھی جب گوڈل کا سفر کرتے ہیں تو پہاڑ کی چوٹی پر واقع چرچ کے قبرستان میں تمارا کی قبر پر ضرور جاتے ہیں۔