معروف امریکی ادیب او ہنری کی شہرہ آفاق کہانی ’’مامن اینڈ دی آرچر‘‘ Mammon And The Archer کا اُردو ترجمہ۔
EPAPER
Updated: June 27, 2024, 8:56 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
معروف امریکی ادیب او ہنری کی شہرہ آفاق کہانی ’’مامن اینڈ دی آرچر‘‘ Mammon And The Archer کا اُردو ترجمہ۔
راک والز یوریکا صابن کمپنی کا مالک ’’انتھونی راک وال‘‘ اپنے عظیم الشان مکان کی شاندار لائبریری کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے مسکرایا۔ اس کا پڑوسی ’’جی وان شوائلٹ سوفولک جونس‘‘اپنی کار میں بیٹھنے ہی والا تھا۔ اس نے انتھونی کے مکان کے سامنے بنے حویلی نما مجسمے کو دیکھ کر ہمیشہ کی طرح اپنے نتھنے سکوڑے کیونکہ یہ موم اور صابن سے بنایا گیا تھا۔ غالباً اس کی بو جونس کو ہمیشہ پریشان کرتی تھی۔
صابن کی صنعت کے بے تاج بادشاہ انتھونی نے اپنے آپ سے کہا، ’’اگر اس (جی وان) کے پاس خوشبوؤں کا انبار بھی لگادیا جائے تو وہ اسی طرح نتھنے سکوڑے گا۔ اگلے موسم گرما میں مَیں اس مومی گھر کو سرخ، سفید اور نیلے رنگ سے پینٹ کروں گا اور دیکھوں گا کہ وہ کس طرح اپنے نتھنے سکوڑتا ہے۔‘‘
پھر انتھونی اپنی لائبریری کے دروازے تک آیا اور زور سے آواز لگائی، ’’مائیک!‘‘
’’میرے بیٹے سے کہو،‘‘ انتھونی نے جواب دینے والے شخص سے کہا، ’’گھر سے نکلنے سے پہلے یہاں آجائے۔‘‘ جب نوجوان راک وال لائبریری میں داخل ہوا تو بوڑھے راک وال یعنی انتھونی نے اخبار ایک طرف رکھ دیا۔ اس نے بیٹے کے چہرے پر نرمی سے نظر ڈالی اور اپنے سفید بالوں کا ڈھیر انگلیوں سے پھیرتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے جیب سے چابیاں نکالیں۔
’’رچرڈ!‘‘ انتھونی نے کہا، ’’ تم جو صابن استعمال کرتے ہو، اس کی کیا قیمت ادا کرتے ہو؟‘‘
رچرڈ کالج کی تعلیم مکمل کرکے اب چھ ماہ سے گھر ہی پر تھا۔ اس سوال پر وہ تھوڑا چونک گیا۔
’’ایک درجن کیلئے چھ ڈالر۔‘‘
’’اور کپڑوں کی؟‘‘
’’اس کی قیمت تقریباً ۶۰؍ ڈالر ہوگی۔‘‘
’’تم ایک شریف آدمی ہو،‘‘ انتھونی نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ ’’مَیں نے ایسے نوجوانوں کے بارے میں سنا ہے جو ۲۴؍ ڈالر فی درجن والا صابن استعمال کرتے ہیں اور کپڑوں پر ۱۰۰؍ ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں۔ تمہارے پاس ان کے جتنی ہی یا ان سے زیادہ دولت ہے مگر تم ان کی طرح پیسہ ضائع نہیں کرتے۔ تم مہذب اور اعتدال پسند ہو۔ مَیں اب بھی اپنی ہی کمپنی کے بنائے ہوئے پہلے صابن کا نسخہ استعمال کرتا ہوں۔ اس سے میرے جذبات جڑے ہیں اور یہ خالص ترین صابن ہے۔ تمہارے جیسی نوجوان نسل ۵۰؍ سینٹ کا صابن استعمال کرتی ہے مگر اسے یہ نہیں معلوم ہے کہ ایک بڑی کمپنی کھڑی کرنے میں کتنی محنت درکار ہوتی ہے۔ مَیں تمہیں بتاؤں کہ میری کمپنی میں بننے والے صابنوں میں سے کسی ایک کا بھی نسخہ بنانے کیلئے کسی خاندان کی تین نسلیں بھی ناکافی ہوں گی۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: ایک طبع زاد کہانی: بدروح اور رومی شہزادہ
’’کچھ چیزیں ایسی ہیں جو پیسوں سے نہیں ہو سکتیں،‘‘ رچرڈ نے مایوسی سے کہا۔
’’اب ایسا مت کہو۔‘‘ بوڑھے انتھونی نے چونک کر کہا۔ ’’میں ہر بار پیسوں پر شرط لگاتا ہوں۔ فی الحال انسائیکلوپیڈیا کا مطالعہ کررہا ہوں اور یہ جاننے کی کوشش کررہا ہوں کہ ایسی کون سی چیز ہے جو پیسوں سے نہیں خریدی جاسکتی۔ بتاؤ کہ پیسے سے کیا نہیں خریدا جاسکتا۔‘‘
’’معاشرے کے خصوصی حلقوں کا حصہ بننا نہیں خریدا جاسکتا۔‘‘ رچرڈ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’اوہ! رچرڈ! ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہ فیکٹری بنانے سے پہلے مَیں ان حلقوں میں نہیں جاسکتا تھا مگر پیسے آئے، امیر بنا اور آج ان حلقوں میں میری شمولیت کے بغیر پارٹیاں تک نہیں ہوتیں۔‘‘ انتھونی نے تکبر سے کہا۔
رچرڈ نے آہ بھری۔
’’مَیں اپنی اسی بات کی طرف آرہا ہوں، میرے بیٹے!‘‘ انتھونی نے کہا، ’’مَیں نے تمہیں اسی لئے بلایا ہے۔ تمہارے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔ مَیں گزشتہ ۲؍ ہفتے سے دیکھ رہا ہوں کہ تم کچھ پریشان ہو۔ مَیں ۲۴؍ گھنٹے میں ۱۱؍ ملین ڈالر کماسکتا ہوں، مگر کیا اپنے بیٹے کو خوشیاں نہیں دے سکتا؟ مَیں تمہیں پریشان نہیں دیکھ سکتا۔ شہر کی بندرگاہ پر ایک پرتعیش جہاز کھڑا ہے جو ۲؍ دن میں بہاماس کیلئے نکلے گا۔ تم دل بہلانے کیلئے چند دنوں کیلئے سیر و سیاحت کر آؤ۔‘‘
’’ڈیڈ! مجھے گھومنے پھرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘ رچرڈ نے بے دلی سے کہا۔
’’آہ،‘‘ انتھونی نے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔ ’’اُس کا نام کیا ہے؟‘‘
رچرڈ چہل قدمی کرنے لگا۔ اس کا بوڑھا باپ اس کیلئے پریشان تھا۔
’’تم اُس سے بات کیوں نہیں کرتے؟‘‘ انتھونی نے کہا، ’’مجھے یقین ہے کہ وہ انکار نہیں کرے گی۔ تم دولتمند ہو، پڑھے لکھے ہو، خوبصورت ہو، شریف خاندان سے ہو، کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔‘‘
رچرڈ نے کہا، ’’لیکن مجھے اس سے بات کرنے کا کبھی موقع ہی نہیں ملتا۔‘‘
’’تو موقع بناؤ۔‘‘ انتھونی نے کہا۔ ’’اسے پارک میں سیر کیلئے لے جاؤ، چرچ لے جاؤ، کوئی ڈراما دکھانے کیلئے تھیٹر یا اوپیرا لے جاؤ۔‘‘
’’ڈیڈ! وہ ایک ایسی ندی ہے جو اپنی مرضی سے موڑ بھی نہیں لے سکتی۔ اس کا ہر گھنٹہ اور منٹ کئی دن پہلے ترتیب دیا جاتا ہے۔ وہ اس شہر کی سب سے خوبصورت لڑکی ہے جو ہمہ وقت مصروف رہتی ہے۔ مَیں اس سے کبھی ٹھیک طریقے سے نہیں مل سکتا، ڈیڈ!‘‘
’’کیا تم کہنا چاہتے ہو کہ میرے پاس اس کے جتنے پیسے نہیں ہیں؟ کیا وہ لڑکی تم سے ملنے کیلئے ایک یا دو گھنٹے نہیں نکال سکتی؟‘‘ انتھونی نے دو سوال کئے۔
’’وہ پرسوں دوپہر یورپ جا رہی ہے۔ کل شام میں چند منٹوں کیلئے اس سے تنہا ملاقات ممکن ہوسکے گی۔ ابھی وہ لارچمونٹ میں اپنی خالہ کے پاس ہے اور میں وہاں نہیں جا سکتا مگر کل شام ساڑھے آٹھ بجے گرینڈ سینٹرل اسٹیشن کے ٹیکسی اسٹینڈ پر اس سے مل سکوں گا جہاں اس کی ماں درجنوں ملازمین کے ساتھ لابی میں اس کا انتظار کررہی ہوگی۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ان حالات میں مَیں اس سے اظہارِ محبت کرسکوں گا؟ ڈیڈ! یہ ایک ایسی الجھن ہے جسے آپ پیسے سے نہیں خرید سکتے۔ مس لینٹری کے ساتھ بات چیت کی کوئی امید نہیں ہے ۔‘‘
’’ٹھیک ہے، رچرڈ، میرے بچے!‘‘ بوڑھے انتھونی نے خوشی سے کہا۔ ’’اب تم کلب جاسکتے ہو۔ لیکن جوز ہاؤس میں موجود عظیم خدا مزومہ (جو لوگ پیسوں کو خدا سمجھتے ہیں مغرب میں کہا جاتا ہے کہ وہ ’’مزومہ‘‘ یعنی پیسے کی عبادت کرتے ہیں) کے سامنے اگربتیاں جلانا مت بھولنا۔ تم کہتے ہو کہ پیسوں سے وقت نہیں خریدا جاسکتا۔ یقیناً گھر بیٹھے کہتے رہنے سے تحفے نہیں ملتے، اس کیلئے مشقت کرنی پڑتی ہے۔ یاد رکھو کہ جو لوگ سونے کی کانوں میں کھدائی کرتے ہیں، ان کی ایڑیوں پر سخت پتھروں کے زخم ہوتے ہیں۔‘‘
اس رات نرم دل، جذباتی، جھریوں والی، دولت کی ستائی ہوئی آنٹی ایلن آہیں بھرتی ہوئی شام کے وقت اپنے بھائی انتھونی کے پاس آئیں، اور رچرڈ اور مس لینٹری کی پریشانیوں کے موضوع پر گفتگو شروع کردی۔
’’اس نے مجھے سب کچھ بتایا ہے،‘‘ انتھونی نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے اسے بتایا کہ میرا بینک اکاؤنٹ اس کی خدمت میں حاضر ہے۔ اور پھر اس نے کہا کہ پیسوں سے مس لینٹری کو پانا ممکن نہیں ہے۔ ‘‘
’’اوہ، انتھونی!‘‘آنٹی ایلن نے آہ بھری، ’’کاش تم پیسے کے بارے میں اتنا نہ سوچتے۔ جہاں حقیقی محبت ہو، وہاں دولت بے مول ہوجاتی ہے۔ محبت سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ اگر رچرڈ اسے پہلے ہی بتادیتا تو شاید وہ انکار نہیں کرتی لیکن اب مجھے ڈر ہے کہ اس سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: عالمی نظموں کا اردو ترجمہ: شیطان
اگلی شام آٹھ بجے آنٹی ایلن نے پرانے چمڑے کے ایک پرس سے سونے کی ایک پرانی مگر خوبصورت انگوٹھی، رچرڈ کو دیتے ہوئے کہا، ’’اسے آج رات پہن لو،‘‘ اس نے منت کی۔ ’’یہ انگوٹھی تمہاری ماں نے مجھے دی تھی۔ کہتے ہیں کہ محبت کے اظہار میں یہ انگوٹھی خوش قسمتی کی علامت ہے۔ تمہاری ماں نے مجھ سے کہا تھا کہ جب رچرڈ کو وہ لڑکی مل جائے جس سے اسے محبت ہے تو یہ انگوٹھی رچرڈ کے حوالے کردینا۔‘‘
رچرڈ نے احترام سے انگوٹھی لی اور اسے اپنی چھوٹی انگلی پر آزمایا مگر وہ پہلے ہی جوڑ پر پھنس گئی۔ اس نے انگوٹھی نکال کر اپنے کوٹ کی اوپری جیب میں ڈال لی۔ پھر اس نے کار کیلئے فون کیا۔
اسٹیشن پر ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے وہ مس لینٹری سے ملا۔ ’’ہمیں ممی اور دوسروں کو زیادہ دیر تک انتظار نہیں کروانا چاہئے۔‘‘ مس لینٹری نے کہا۔
’’والیک تھیٹر تک جتنی تیزی سے گاڑی چلا سکتے ہو، چلاؤ!‘‘ رچرڈ نے ڈرائیور سے کہا۔
وہ ۴۰؍ سیکنڈ میں براڈوے تک پہنچے، اور پھر سفید ستاروں والی گلی سے نیچے اترے جو غروب آفتاب کے نرم میدانوں سے صبح کی چٹانی پہاڑیوں تک جاتی ہے۔ تھرٹی فورتھ اسٹریٹ پر رچرڈ نے ڈرائیور کو کار روکنے کا حکم دیا۔ ’’مجھ سے انگوٹھی کہیں گرگئی ہے۔‘‘ رچرڈ تیزی سے کار سے باہر نکلا۔ ’’یہ میری ماں کی انگوٹھی تھی، میں اسے کھو نہیں سکتا۔ میں تمہارا ایک منٹ بھی ضائع نہیں کروں گا، مس لینٹری۔ مجھے معاف کرنا۔ مجھے معلوم ہے کہ انگوٹھی کہاں گری ہے۔‘‘
ایک منٹ سے بھی کم وقت میں وہ انگوٹھی کے ساتھ کار میں واپس آگیا۔
لیکن وہ جیسے ہی کار میں بیٹھا، سامنے سے آتے ہوئی ایک کار، ان کی کار کے سامنے کراس ہوکر کھڑی ہوگئی۔ رچرڈ کا ڈرائیور کار پیچھے ہی لینے لگا تھا کہ ایک بڑا ٹرک آگیا۔ ڈرائیور نے بائیں طرف جانے کی کوشش کی لیکن ایک بھاری ایکسپریس ویگن نے راستہ کاٹ دیا۔ دائیں طرف سے فرنیچر سے لدی ایک گھوڑا گاڑی آلگی، اور پھر رچرڈ کی کار چاروں طرف سے گھوڑا گاڑیوں اور موٹر کاروں کے درمیان پھنس گئی۔
’’ہمیں دیر ہوجائے گی۔‘‘ مس لینٹری نے بے صبری سے کہا۔
رچرڈ نے کار کے شیشوں سے باہر دیکھا تو ہر طرف ٹریفک ہی ٹریفک نظر آیا۔ ان کی کار ٹریفک میں بری طرح پھنس چکی تھی۔ سبھی ٹریفک سے نکلنے کی جدوجہد کررہے تھے۔ ہارن پر ہارن بجائے جارہے تھے۔ایسا لگتا تھا کہ مین ہٹن کا پورا ٹریفک ان کے ارد گرد لگ گیا ہو۔ فٹ پاتھوں پر تماشائیوں کی بھیڑ لگ گئی تھی۔ ’’مجھے بہت افسوس ہے،‘‘ رچرڈ نے کہا، ’’لیکن ہم پھنس چکے ہیں۔یہ ٹریفک ختم کرنے میں کم سے کم ایک گھنٹہ لگے گا۔ غلطی میری ہے۔ اگر مجھ سے انگوٹھی نہ گرتی تو یہ سب نہ ہوتا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں! مجھے انگوٹھی دکھاؤ،‘‘ مس لینٹری نے قدرے اطمینان سے کہا ’’اب جب ہم یہیں پھنس چکے ہیں تو تھیٹر جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور ویسے بھی مجھے تھیٹر پسند نہیں ہے۔‘‘
رات گیارہ بجے کسی نے انتھونی راک وال کی خوابگاہ کے دروازے پر ہلکی دستک دی۔
’’اندر آؤ،‘‘ انتھونی نے کہا، جو شب خوابی کے سرخ لباس میں ملبوس تھا، اور سمندری مہم جوئی کی کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ وہ آنٹی ایلن تھیں جو بھورے بالوں والے فرشتے کی طرح لگ رہی تھیں۔
’’مس لینٹری مان گئی ہیں، انتھونی،‘‘ انہوں نے آہستہ سے کہا۔ ’’مس لینٹری نے ہمارے رچرڈ سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب وہ تھیٹر جارہے تھے تو ٹریفک میں پھنس گئے اور ان کی کار کو وہاں سے نکلنے میں دو گھنٹے لگ گئے۔‘‘
’’اور انتھونی، دوبارہ کبھی پیسے کی طاقت پر فخر مت کرنا۔ سچی محبت دولت سے نہیں خریدی جاسکتی۔ وہ ایک چھوٹی سی انگوٹھی لامتناہی اور بے مثال محبت کی علامت ہے۔ ہمارے رچرڈ کو اس کی خوشی ملنے کی وجہ وہی انگوٹھی ہے۔ اگر وہ نہ گرتی تو رچرڈ کی کار ٹریفک میں نہ پھنستی۔ ٹریفک کھلنے تک رچرڈ نے مس لینٹری سے نہ صرف ڈھیر ساری باتیں کیں بلکہ اس سے شادی کیلئے بھی پوچھ لیا۔ اور مس لینٹری نے ہاں کردی۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے،‘‘ انتھونی نے کہا۔ ’’مجھے خوشی ہے کہ میرے بیٹے کو وہ مل گیا جو وہ چاہتا تھا۔ مَیں نے اسے کہا تھا کہ میں اس معاملے میں اس کی ہر ممکن مدد کروں گا۔ لیکن ٹھیک ہے۔‘‘ ’’لیکن، انتھونی! یاد رکھو کہ تمہارے پیسے سے وہ اسے نہیں جیت سکا ہے۔ تمہاری دولت کا اسے کیا فائدہ ہوا ہے؟‘‘
’’ایلن!‘‘ انتھونی راک وال نے کہا۔ ’’مجھے میری کہانی مکمل کرنے دو۔ یہ سمندری کہانی انتہائی دلچسپ موڑ پر ہے۔‘‘ انتھونی نے کتاب کی طرف اشارہ کیا۔ اور پھر ایلن لوٹ گئی۔
یہ کہانی یہیں ختم ہوجانی چاہئے۔ یہ ہے اس کہانی کا ایک ’’ہیپی اینڈنگ۔‘‘
کاش! زندگی اتنی ہی آسان ہوتی۔
مگر ہم چاہتے ہیں کہ آپ سچائی جانیں۔
یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: آگ
اگلے دن سرخ و سفید رنگ والا، نیلے رنگ کی ٹائی لگائے ’’کیلی‘‘ نامی شخص انتھونی کی لائبریری میں نمودار ہوا۔ بوڑھے انتھونی نے گرمجوشی سے اس کا استقبال کیا۔ انتھونی نے اپنی چیک بک نکالتے ہوئے سوال کیا، ’’مجموعی خرچ کتنا ہوا؟‘‘
کیلی نے کہا، ’’مَیں نے اپنی جیب سے ۳۰۰؍ ڈالر زیادہ ادا کئے ہیں۔ مجھے ہمارے تخمینہ سے تھوڑا زیادہ خرچ کرنا پڑا۔ ٹریفک میں پھنسی ایکسپریس ویگن اور ٹیکسیوں نے ۵۔۵؍ ڈالر لئے لیکن ٹرکوں اور گھوڑا گاڑیوں نے ۱۰۔۱۰؍ڈالر کی مانگ کی۔ موٹر مین بھی ۱۰؍ ڈالر چاہتے تھے۔ اور کچھ ٹرکوں میں ٹیمیں بھی تھیں جنہیں ۲۰؍ ڈالر دینے پڑے۔ سب سے زیادہ رقم پولیس نے لی۔ انہوں نے تقریباً ۹۵؍ ڈالر وصول کئے۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ میری پوری ٹیم صحیح وقت پر وہاں موجود تھی اور انہوں نے چند سیکنڈ میں پوری سڑک جام کردی تھی۔‘‘
انتھونی چیک پھاڑتے ہوئے کہا، ’’یہ رہی تمہاری رقم۔ تم پیسوں کو حقیر نہیں سمجھتے، ہے ناں،کیلی؟‘‘ انتھونی نے سوال کیا۔’’مَیں؟‘‘ کیلی نے کہا۔ ’’مَیں اس آدمی کو گولی مارسکتا ہوں جس نے غربت ایجاد کی ہے۔‘‘
کیلی لائبریری سے باہر نکلا ہی تھا کہ انتھونی نے لائبریری کے ٹیلی فون سے برآمدے کے فون پر کال کیا اور نوکر کو کیلی کو ریسیور دینے کا حکم دیا۔ ’’کیا تم نے کچھ نوٹ کیا، کیلی؟‘‘ انتھونی نے پوچھا، ’’جب وہاں ٹریفک جام تھا تو ایک موٹا لڑکا مختصر سفید لباس پہنے، کمان سے تیر چلا رہا تھا!‘‘
’’جی نہیں! شاید میرے وہاں پہنچنے سے پہلے پولیس نے اسے حراست میں لے لیا ہوگا۔‘‘ کیلی نے الجھتے ہوئے جواب دیا۔
’’مجھے لگا کہ شاید اسے پولیس کبھی نہیں پکڑ سکتی۔‘‘ انتھونی نے قہقہہ لگایا۔ ’’الوداع، کیلی!‘‘
کہانی کا نام ’’مامن اینڈ دی آرچر‘‘ کیوں ہے؟
’’مامن‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو دولت کو سب کچھ سمجھتا ہے یعنی دولت کا پجاری۔
’’دی آرچر‘‘ سے مراد ’’کیوپڈ‘‘ ہے۔
یونانی تہذیب میں ’’کیوپڈ‘‘ کو محبت اور جذبات کا دیوتا کہا جاتا ہے۔ یہ ایک نوعمر لڑکا ہے جو ہمہ وقت کمان اور تیر ساتھ رکھتا ہے۔ یونانیوں کا ماننا ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے سے محبت اس وقت ہوتی ہے جب کیوپڈ، دو لوگوں کا ساتھ میں سنہری مستقبل دیکھتے ہوئے، خوشی میں اپنے کمان سے تیر چلاتا ہے۔
اس کہانی کے اختتام میں انتھونی ’’کیوپڈ‘‘ پر طنز کرنے کیلئے کیلی سے پوچھتا ہے کہ کیا اس نے تیر کمان والا لڑکا دیکھا؟ جبکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس نے دولت کی مدد سے جو ٹریفک جام لگوایا تھا، وہی رچرڈ اور مس لینٹری کی شادی کی وجہ بنا ہے۔ اس نے دولت کی مدد سے مس لینٹری کا وقت خریدا اور اسے رچرڈ کے حوالے کردیا۔
اب بطور قاری آپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ محبت، دولت سے خریدی جاسکتی ہے،یا، دنیا میں کیوپڈ جیسی واقعی کوئی چیز (جو اس کہانی میں رچرڈ کی ماں کی انگوٹھی ہے) ہوتی ہے، جو دو لوگوں کے درمیان قربت کی وجہ بنتی ہے؟