• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: دیوار کا مسافر

Updated: August 03, 2024, 4:48 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف فرانسیسی ادیب مارسل ایمے کی شہرہ آفاق کہانی ’’لُو پاس میورائل ‘‘ Le Passe-murailleکا اُردو ترجمہ۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

مونٹمارٹرے، پیرس میں، ۷۵؍ بی رُو اَورشم بلڈنگ کی چوتھی منزل پر ’’دوٹیلول‘‘ نامی ایک شخص رہتا تھا جسے قدرت نے دیواروں سے گزرنے یعنی آر پار جانے کا تحفہ دیا تھا۔ وہ سخت سے سخت اور موٹی سے موٹی دیوار سے بآسانی گزر جاتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ دیواریں اس کے راستے کی رکاوٹ ہی نہیں ہیں۔ اس کی آنکھوں پر ہمیشہ عینک ہوتی اور اپنی فرنچ کٹ ڈاڑھی میں وہ دوسروں سے ممتاز نظر آتا تھا۔ وہ ایک معمولی کلرک تھا۔ سردیوں میں وہ بس سے دفتر جاتا تھا اور گرمیوں میں اپنی ٹوپی سر پر جمائے پیدل سفر کرتا تھا۔ 
 ۴۲؍ سال کی عمر میں اسے معلوم ہوا تھا کہ اس میں دیواروں کے پار جانے کی خدا داد صلاحیت ہے۔ ایک شام جب وہ اپنے فلیٹ کے دروازے کے قریب پہنچنے ہی والا تھا کہ بجلی چلی گئی۔ گھپ اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ اندازے سے آگے بڑھتا رہا اور چند قدم چلنے کے بعد جب بجلی آئی تو اس نے اپنے آپ کو اپنے فلیٹ میں پایا۔ چونکہ فلیٹ کا دروازہ اب بھی مقفل تھا اسلئے وہ حیران تھا۔ متعدد خدشات دل و دماغ میں بسائے جب اس نے دیوار ہی سے گزر کر باہر جانے کا فیصلہ کیا تو وہ بآسانی گزر گیا۔ اب اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہی تھی۔ وہ گھبراہٹ میں مبتلا ہوگیا تھا۔ اسے اپنے آپ سے خوف محسوس ہونے لگا کہ ایک انسان میں ایسی صلاحیت کیسے پیدا ہوسکتی ہے اور وہ اپنی اس طاقت سے اب تک واقف کیوں نہیں تھا۔ اس نے اگلے دن ڈاکٹر کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ 
 جب اس نے اپنا مسئلہ ڈاکٹر کو بتایا تو ڈاکٹر نے حیرت کا اظہار نہیں کیا اور اسے چند گولیاں دے دیں۔ مگر دوٹیلول جانتا تھا کہ ان گولیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا لہٰذا اس نے انہیں اپنی دواؤں کے ڈبہ میں ڈال دیا اور خود سے وعدہ کیا کہ وہ دیواروں سے کبھی نہیں گزرے گا۔ پھر اس نے اپنے آپ کو کاموں میں اس قدر مصروف کرلیا کہ اس کے پاس اپنی خداداد صلاحیت کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں رہ گیا۔ یوں ایک سال گزر گیا۔ وہ اپنے فلیٹ میں ہمیشہ دروازے ہی سے داخل ہوتا تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے:عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: خزاں سے بَہار تک

اس میں قدرت کی جانب سے ملے اس تحفے کو کبھی آزمانے کا لالچ نہیں آیا۔ کچھ عرصہ بعد دفتر کے ڈائریکٹر کا تبادلہ ہوگیا اور اس کی جگہ مسٹر لیکویئر نے لے لی۔ وہ گھنی مونچھوں والا ایک سخت گیر مزاج شخص تھا۔ پہلے ہی دن اس کی نظر دوٹیلول پر پڑگئی اور اس کی زنجیر والی عینک اور فرنچ کٹ ڈاڑھی اسے سخت ناگوار گزری۔ اس کے بعد سے اس نے دوٹیلول کے ساتھ سخت رویہ اپنا لیا۔ اسے بات بات پر ذلیل کرتا اور انتہائی بری طرح پیش آتا۔ 
 لیکویئر نے اپنے ماتحتوں کو پریشان کرنے کیلئے دفتری کام کاج میں تبدیلی کرنا شروع کردی۔ ہر وقت ان پر چیختا چلاتا رہتا۔ اب خط لکھنے کا انداز فرانسیسی نہیں بلکہ امریکی ہوگیا تھا۔ دفتر کا ہر شخص نئے ڈائریکٹر سے خوف کھاتا تھا۔ دوٹیلول کو دفتر کا ماحول جابرانہ لگنے لگا۔ صبح کام پر جاتے ہوئے اسے خوف محسوس ہوتا، اور رات کو وہ اپنے بستر پر گھنٹوں جاگتا رہتا تھا۔ نئے ڈائریکٹر نے دوٹیلول کی میز دفتر کے ایک تاریک کونے میں لگوا دی تھی۔ اب دوٹیلول اخبار میں جب بھی کسی حادثے کی خبر پڑھتا تو اس کے ذہن میں یہی ہوتا کہ ’’کاش! یہ مسٹر لیکویئر کی موت کی خبر ہو جو کسی حادثے میں جاں بحق ہوگیا ہو۔‘‘ 
 ایک دن لیکویئر نے دوٹیلول کی صرف اس لئے خوب بے عزتی کی کہ اس نے خط کے آغاز میں مسٹر کے بجائے مونسیور لکھ دیا تھا۔ لیکویئر نے خط کو مروڑ کر گیند کی شکل دی اور اسے دوٹیلول کے سر پر دے مارا۔ کاغذ کی گیند سے دوٹیلول کو چوٹ تو نہیں لگی مگر پورے دفتر کے سامنے اس کی خوب بے عزتی ہوئی۔ وہ اپنی میز پر خاموشی سے سر جھکائے بیٹھا تھا۔ پھر اس نے لیکویئر سے انتقام لینے کا فیصلہ کیا۔
 وہ لیکویئر کے کمرے کی دیوار کے قریب آیا۔ اس نے لیکویئر کی میز کے سامنے والی دیوار سے اپنا سر اندر کیا اور باقی جسم دیوار کے اِس پار ہی رہنے دیا۔ لیکویئر اپنی میز پر بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔ جب اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو اسے دیوار پر ایک سر نظر آیا جو یوں چسپاں تھا جیسے محلوں میںجانوروں کے مردہ سر لٹکائے جاتے ہیں۔ وہ یہ دیکھ کر گھبرا گیا کہ یہ سر زندہ ہے۔ زندہ سر کی آنکھوں نے سخت نفرت سے لیکویئر کی طرف دیکھا اور کہنے لگا، ’’مسڑ! تم ایک اوباش قسم کے شخص ہو۔ انتہائی برے اور بدمعاش۔ بدتمیز اور بد تہذیب۔‘‘ 
 خوف کے مارے ، لیکوئیر کے ہاتھوں سے قلم چھوٹ گیا۔ وہ ڈر کے مارے کانپ رہا تھا۔ بمشکل اپنی کرسی سے اٹھا اور تیزی سے چھلانگ لگا کر باہر بھاگا۔ مگر اسے دوٹیلول اپنی جگہ آرام سے بیٹھا کام میں مصروف نظر آیا۔ لیکویئر کافی دیر تک اسے گھورتا رہا اور پھر لوٹ گیا۔ جیسے ہی وہ بیٹھا، دوسری جانب سے دوٹیلول کا سر پھر ابھر آیا اور کہنے لگا، ’’مسٹر! تم ایک اوباش قسم کے شخص ہو۔ انتہائی برے اور بدمعاش۔ بدتمیز اور بذ تہذیب۔‘‘
  ایک ہی دن میں دوٹیلول کا خوفناک سر اسے ۲۳؍ مرتبہ نظر آیا۔ اب تو لیکویئر خوفزدہ ہونے کے ساتھ سخت پریشان بھی تھا۔ اگلے دن بھی یہ کھیل جاری رہا۔ وہ اب لیکویئر پر مختلف قسم کے فقرے کستا تھا۔ دوٹیلول نے اسے سخت دھمکیاں بھی دیں۔ جب بھی یہ سر ابھرتا، لیکویئر خوف کے مارے زرد پڑجاتا۔ اس کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے اور وہ پسینے میں شرابور ہوجاتا۔ جیسے جیسے ہفتے گزرتے گئے، لیکویئر کی حالت غیر ہوتی گئی۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ دفتر میں ایمبولینس آئی اور بے ہوش لیکویئر کو اسپتال لے جایا گیا۔ اب دفتر میں سب خوش تھے۔ سب سے زیادہ خوش دوٹیلول تھا۔ تاہم، اسے اب دیواروں سے آر پار جانے میں لطف آنے لگا تھا۔ اس نے سوچا کیوں نہ مَیں اپنی اس صلاحیت کو مزید نکھاروں۔ مجھے اور بھی طریقے آزمانے چاہئے۔ پھر وہ مختلف قسم کی دیواروں سے گزرنے لگا مگر اس دوران اس نے کوئی بھی غیر اخلاقی یا جرائم پر مبنی سرگرمی انجام نہیں دی۔ وہ اخبارات پڑھنے لگا کہ غالباً دنیا میں اس جیسے اور بھی لوگ ہوں اور اس ضمن میں کوئی مقابلہ بھی ہوتا ہو۔ مگر اسے یہ دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی کہ کہیں بھی اس جیسا کوئی شخص موجود نہیں تھا۔ پھر دوٹیلول نے ایڈونچر سے بھرپور سرگرمی انجام دینے کا فیصلہ کیا، اور وہ سرگرمی تھی چوری۔
 دوٹیلول کی پہلی چوری ایک بینک میں تھی۔ درجن بھر دیواروں سے گزر کر وہ بینک کی بڑی تجوری میں پہنچا اور اپنی جیبیں نوٹوں سے بھرلیں۔ وہاں سے نکلتے وقت اس نے سرخ چاک سے دستخط کئے، ’’دی لون وولف‘‘ (اکیلا بھیڑیا)۔ اگلی صبح تمام اخبارات کے صفحہ اول پر یہ سب سے بڑی خبر تھی۔ ایک ہفتے ہی میں ہر جانب ’’دی لون وولف‘‘ کی شہرت میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہوگیا۔ 
 ہر رات وہ ایک نیا کارنامہ انجام دیتا۔ پولیس اسے پکڑنے میں ناکام رہی تھی۔ وہ کبھی زیورات کی دکان پر چوری کرتا یا کبھی کسی امیر فرد کے گھر پر۔ چور کو پکڑنے میں ناکامی کے سبب وزیر داخلہ تک کو مستعفی ہونا پڑا۔ 
 بہر حال دوٹیلول اب پیرس کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک تھا۔ مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ وہی ’’لون وولف‘‘ ہے جو پیرس میں اتنی صفائی سے چوری کرتا ہے کہ کوئی اسے پکڑ نہیں پاتا۔ دوٹیلول نے اپنی دولت کو سماجی اور فلاحی کاموں میں صرف کیا۔ اسے تعلیم کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے کیلئے قومی ایوارڈ بھی دیا جانے والا تھا۔ وہ اب بھی صبح دفتر جاتا تھا اور وہاں جب لوگ ’’دی لون وولف‘‘ کے کارنامے بیان کرتے تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے:عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: وقت اور جگہ

ایک دن دفتر کے ساتھی بینک آف فرانس میں کی گئی لون وولف کی چوری کی تعریف کررہے تھے کہ دوٹیلول نے انتہائی جوشیلے انداز میں کہا، ’’دوستو! لون وولف میں ہی ہوں۔‘‘ اس کی بات پر اس قدر بلند قہقہہ پڑا کہ اس کی آواز دب کر رہ گئی۔ اس کے ساتھیوں نے اس کا خوب مذاق اڑایا۔ وہ اپنی سچائی بتا کر بھی لوگوں کے درمیان لطیفہ بن کر رہ گیا تھا۔ کوئی بھی اس کی بات پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ کچھ دنوں بعد اس نے زیورات کی ایک دکان پر چوری کی مگر اس مرتبہ اس کا ارادہ فرار ہونے کا نہیں بلکہ گرفتار ہونے کا تھاتاکہ اس کے ساتھی اس کی بات پر یقین کرلیں کہ لون وولف وہی ہے، اور پھر وہی ہوا۔ پولیس نے لون وولف کو گرفتار کرلیا۔
 اگلے دن دوٹیلول کے ساتھیوں نے جب اخبارات کے صفحہ اول پر دوٹیلول عرف دی لون وولف کی تصویر دیکھی تو سخت حیران ہوئے۔ وہ نادم تھے کہ انہوں نے اپنے ہونہار اور بہادر ساتھی کو سمجھنے میں اتنی بڑی غلطی کیسے کردی۔ لیکن اب بھی کوئی نہیں جانتا تھا کہ دوٹیلول میں دیوار سے گزر جانے کی صلاحیت ہے۔ جیل جانے کے بعد بھی دوٹیلول نے دیواروں سے گزرنا ترک نہیں کیا البتہ سب حیران تھے کہ جیل میں عجیب و غریب واقعات ہونے لگے تھے۔ کبھی جیلر کی سونے کی گھڑی کسی ساتھی کے جیب میں ملتی تو کبھی لائبریری کی کتابیں درختوں کے نیچے پڑی ہوتیں۔ پہریدار حیران تھے کہ جب سبھی قیدی حتیٰ کہ دوٹیلول بھی اپنے کمرے میں رہتا ہے تو یہ عجیب وغریب واقعات کیسے ہورہے ہیں۔اکثر ان کی کمر پر لاتیں بھی پڑتیں مگر وہ کسی کو بھی رنگے ہاتھوں پکڑنے سے قاصر تھے۔ پھر ایک دن دوٹیلول جیل سے غائب ہوگیا۔ جب اخبارات میں اسکے فرار کی خبریں شائع ہوئیں تو لوگ بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے پیرس کی سڑکوں پر جشن منایا۔
ضضض 
 دوٹیلول اپنے فلیٹ میں بیٹھا گرم کافی سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ وہ اب بھی چوریاں کرتا تھا مگر اسے گرفتاری کی پروا نہیں تھی۔ اگر اسے جیل میں ڈالا جاتا تو وہ بآسانی دیوار سے نکل آتا۔ سب حیران ہوتے کہ وہ فرار کیسے ہوجاتا ہے مگر کوئی بھی اس کے راز سے واقف نہیں تھا۔ اسے ایک بار پھر جیل میں ڈالا گیا مگر وہ اسی رات وہاں سے فرار ہوگیا۔ 
 پھر اس نے اپنا حلیہ تبدیل کرلیا۔ اس نے فرنچ کٹ ڈاڑھی کاٹ لی اور اپنی عینک بھی تبدیل کروالی۔ اس نے پرانے فلیٹ کے قریب ہی ایک نیا فلیٹ لیا اور اپنے سارے سامان کے ساتھ اس میں سکونت اختیار کرلی۔ 
 ایک صبح اس کی ملاقات سنہری بالوں والی ایک خوبصورت دوشیزہ سے ہوئی جو کافی مغموم نظر آرہی تھی۔ درد مند دل رکھنے والے دوٹیلول سے اس کا غم دیکھا نہ گیا اور جب اس نے دوشیزہ سے اس کا غم دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ اس کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی ہے جو اِس پر تشدد کرتا ہے۔ یہ سن کر دوٹیلول کو سخت غصہ آیا مگر دوشیزہ جس کا نام جولی تھا، نے کہا کہ وہ اپنے شوہر کے بغیر اس دنیا میں نہیں رہنا چاہتی لہٰذا دوٹیلول صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گیا مگر اب اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ جولی کو اس کے شوہر کے عتاب سے محفوظ رکھے گا۔ باتوں باتوں میں اس نے جولی کے گھر کا پتہ بھی پوچھ لیا تھا۔ 
 دوٹیلول کا نیا فلیٹ جولی کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا اس لئے سورج ڈھلتے ہی وہ عقبی دیوار سے گزر کر اس کے باغ میں داخل ہوگیا اور پھر ساری رات پہرہ دیتا رہا۔
 اگلی صبح اس کے سر میں شدید درد تھا۔اس نے دواؤں کے ڈبے سے ایک گولی کھائی اور سوگیا۔ شام کو پھر جولی کے باغ میں پہنچ گیا۔ ساری رات جاگتا رہا مگر جولی پر کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں ہوا۔ 

یہ بھی پڑھئے:عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: دولت کا دیوتا اور تیر انداز

لہٰذا وہ صبح اپنے فلیٹ پر لوٹ آیا۔ 
 تاہم، اس نے نوٹ کیا کہ اب وہ اتنی تیزی سے دیوار سے نہیں نکل پارہا ہے جتنی تیزی سے آج سے پہلے نکل پاتا تھا۔ رات بھر جاگتے رہنے سے اس کے سر میں درد بڑھ گیا تھا لہٰذا اس نے آج دو گولیاں کھائیں اور آرام سے سوگیا۔ 
 اگلی شام دوٹیلول پھر جولی کے باغ میں تھا۔ دوٹیلول کو لگنے لگا تھا کہ وہ جولی سے محبت کرنے لگا ہے۔ اس نے سوچا کہ آج رات موقع دیکھ کر وہ جولی سے اظہار محبت کرے گا۔ تبھی اسے اندر سے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں، وہ دیوار سے گزرتے ہوئے جب اندر جانے لگا تو اسے کافی مشقت کرنی پڑی۔ اسے لگا جیسے دیوار سے آسانی سے گزرنے والی اس کی صلاحیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ تاہم، وہ اندر پہنچ ہی گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ جولی کا شوہر اس پر تشدد کررہا ہے تو وہ اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکا اور اس پر جھپٹ پڑا۔ دونوں کافی دیر تک لڑتے رہے۔ دوٹیلول نے ایک وزنی گلدان شوہر کے سر پر دے مارا جس سے وہ بے ہوش ہوگیا۔ 
 جولی کی جھیل سی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ جب دوٹیلول نے آنسو پونچھنے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو وہ جھٹکے سے پیچھے ہٹ گئی۔ اسے اپنے شوہر سے محبت تھی۔ دوٹیلول نے بھی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر جولی کے شوہر پر حملہ کیا تھا مگر جولی کو دوٹیلول میں دلچسپی نہیں تھی۔ 
 دوٹیلول، جولی کے اس رویے سے دل برداشتہ ہوگیا اور پھر اس کے سامنے ہی دیوار سے گزر کر باہر جانے لگا۔ آج پہلی بار کوئی اس کے راز سے واقف ہورہا تھا۔ جولی یہ دیکھ کر حیران رہ گئی مگر دوٹیلول نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ وہ دیواریں پار کرتا رہا۔ 
 آج اسے دیواروں سے نکلنے میں لطف نہیں آرہا تھا۔ وہ مایوسی سے سر جھکائے، چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا آگے بڑھتا جارہا تھا۔ آج دیواریں اس کیلئے رکاوٹ بن رہی تھیں لیکن وہ جدوجہد کرتا رہا، آگے قدم بڑھاتا رہا۔ پھر راستے میں باغ کی عقبی دیوار آگئی جو سب سےموٹی تھی۔ دوٹیلول اس میں داخل ہوگیا مگر اسے لگ رہا تھا کہ وہ دیوار سے گزر نہیں پا رہا ہے، اس کے قدم جمتے جارہے تھے۔ وہ کڑی جدوجہد کررہا تھا کہ دیوار سے نکل سکے مگر بے سود۔ دیوار کا اندھیرا اس کے دل و دماغ پر قائم ہوتا جارہا تھا۔ بدقت تمام اسے ہلکی سی روشنی نظر آئی۔ اس کا سر دیوار سے نکل آیا، دونوں ہاتھ کلائی تک اور دایاں پاؤں بھی باہر آگیا مگر جسم کے باقی اعضا دیوار کے اندر ہی رہ گئے۔ وہ مکمل طور پر نہیں نکل سکا۔ دیواروں کا بادشاہ ، دیوار ہی کا قیدی بن کر رہ گیا۔ دوٹیلول عرف دی لون وولف کی دیواروں سے نکلنے کی صلاحیت ختم ہوگئی۔
 کہتے ہیں کہ مونٹے مارٹرے، پیرس کے ایک مکان کی دیوار میں اب بھی دوٹیلول پھنسا ہوا ہے۔ چاندنی رات میں جب لوگ اس دیوار کے قریب سے گزرتے ہیں تو انہیں ایک مدھم آواز سنائی دیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ’’دی لون وولف: دوٹیلول‘‘ کی آواز ہے جو اپنے شاندار کریئر کے خاتمے پر اظہارِ افسوس اور اپنی محبت پر ماتم کر رہا ہے۔ 
نوٹ: سر درد کی شکایت ہونے پر دوٹیلول نے غلطی سے وہ گولیاں کھالی تھیں جو ڈاکٹر نے اُسے اُس وقت دی تھیں جب دوٹیلول نے دیوار کے آر پار جانے والی اپنی صلاحیت کے بارے میں جانا تھا اور اپنا مسئلہ پیرس کے سب سے ماہر ڈاکٹر سے بیان کیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK