معروف مصری ادیب نجیب محفوظ کی شہرہ آفاق کہانی ’’دی ٹائم اینڈ دی پلیس‘‘ The Time and The Placeکااُردو ترجمہ۔
EPAPER
Updated: July 19, 2024, 5:38 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
معروف مصری ادیب نجیب محفوظ کی شہرہ آفاق کہانی ’’دی ٹائم اینڈ دی پلیس‘‘ The Time and The Placeکااُردو ترجمہ۔
پرانے گھر میں آج میری آخری رات تھی۔ ہر شخص کی زندگی میں والدین کے گھر کا ایک مضبوط کردار ہوتا ہے۔ قاہرہ میں واقع ہمارا گھر بہت قدیم تھا جو ہمیں وراثت میں ملا تھا۔ ہماری پرورش وہیں ہوئی تھی۔ پھر مختلف نسلوں کے اختلاف کے سبب ہمارے اور گھر کے درمیان عداوت کا احساس پروان چڑھا، اور پھر ہم وہاں کی تنگ گلیوں سے نکل کر ایک روشن اور نئے ماحول میں آباد ہونے کیلئے تیار ہوگئے۔
مَیں پرانے گھر کے ایک وسیع و عریض کمرے میں ایک خستہ حال صوفے پر بیٹھا تھا۔موسم خزاں عروج پر تھا۔ مَیں دار چینی کی چائے کے گھونٹ بھر رہا تھا اور سامنے میز پر پڑے پیتل کے جگ کو دیکھ رہا تھا جس سے خوشبودار دھواں اٹھ رہا تھا۔ اچانک میں اضطراب کا شکار ہوگیا۔ ساری زندگی میری آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح گزرنے لگی۔ پھر میں لامتناہی گہرائیوں میں ڈوب گیا۔ پھر مَیں نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ اس گھر سے دور میرے لئے ایک بہتر دنیا انتظار کررہی ہے۔ مجھے آنے والے کل کے متعلق سوچنا چاہئے۔ اپنے نئے ٹھکانے کا تصور کرتے ہوئے مَیں نے یہاں سے رخصتی کے غموں سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی۔ جیسے ہی دار چینی کی چائے گلے سے اتری مَیں دوسری دنیا میں پہنچ گیا۔ ایسا احساس ہوا کہ سب کچھ اچانک بدل گیا ہے۔ اب میرے سامنے ایک وسیع صحن تھا۔ اس کی دیواریں موٹی اور سفید تھیں۔ صحن گھاس سے ڈھکا ہوا تھا جس کے بیچ میں ایک کنواں تھا۔ کنویں سے تھوڑے فاصلے پر کھجور کا ایک اونچا درخت تھا۔ مَیں نے اپنے آپ کو دو احساسات کے درمیان ڈگمگاتا پایا: ایک احساس نے مجھے بتایا کہ میں ایک ایسا منظر دیکھ رہا ہوں جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، اور دوسرے نے مجھے بتایا کہ اس میں کوئی عجیب بات نہیں ہے کہ میں نے یہ پہلے دیکھا تھا اور اسے اب دوبارہ یاد کر رہا تھا۔ مَیں نے سر جھٹک کر اپنے آپ کو حال میں لانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اب مجھے کھجور کے درخت اور کنویں کے بیچ ایک انسان نظر آرہا تھا۔ یہ شخص سیاہ جبہ اور لمبی سبز پگڑی باندھے ہوئے تھا۔ وہ کوئی اور نہیں مَیں تھا۔ میرے چہرے پر لمبی ڈاڑھی تھی۔ مَیں نے ایک بار پھر اپنا سر جھٹکا لیکن منظر غائب ہونے کے بجائے اور واضح ہوتا گیا۔ ہلکی ہلکی روشنی نے اشارہ کیا کہ سورج غروب ہو رہا ہے۔کنویں اور کھجور کے درمیان اب ایک ادھیڑ عمر شخص بھی کھڑا تھا جس نے میرے جیسا لباس پہنا تھا۔ اس نے ایک چھوٹا سا ڈبہ میرے حوالے کرتے ہوئے کہا، ’’یہ عدم تحفظ کے دن ہیں۔ تمہیں اسے زمین میں اس وقت تک کیلئے دفن کردینا چاہئے جب تک تم مقررہ وقت پر واپس نہ آ جاؤ۔‘‘ ’’کیا میں اسے چھپانے سے پہلے اس پر ایک نظر ڈال لوں؟‘‘مَیں نے سوال کیا۔
یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: دولت کا دیوتا اور تیر انداز
’’نہیں، نہیں،‘‘ اس نے سختی سے کہا، ’’تمہیں کم سے کم ایک سال انتظار کرنا ہوگا، ورنہ تم ہلاک ہوجاؤ گے۔‘‘
وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر بات جاری رکھی۔ ’’یہ عدم تحفظ کے دن ہیں،‘‘ اس نے خبردار کیا، ’’اور تمہارے گھر کی تلاشی لی جائے گی اس لئے تمہیں اسے گہرائی میں چھپانا چاہئے۔‘‘ اور پھر دونوں مل کر کھجور کے درخت کے قریب کھدائی کرنے لگے۔ ڈبہ کو دفن کرنے کے بعد، انہوں نے مٹی برابر کردی۔ پھر ادھیڑ عمر شخص نے کہا، ’’مَیں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ ہوشیار رہو، یہ عدم تحفظ کے دن ہیں۔‘‘
پھر یہ منظر ایسے غائب ہو گیا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ مَیں اپنے پرانے گھر کے اسی کمرے میں بیٹھا ہوا تھا اور جگ سے اب بھی بھاپ اٹھ رہی تھی۔ کیا یہ تخیل تھا؟ یہ واضح تھا لیکن میں اسے کیسے قبول کر سکتا تھا اور اس منظر کو کیسے بھول سکتا تھا جس نے ایسی ٹھوس شکل اختیار کر لی تھی کہ جیسے سب کچھ میرے سامنے ہوا ہو۔ مَیں ماضی کا ایک حصہ جی آیا تھا مگر مجھے اب بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ غالباً مَیں نے اپنے آپ کو یا اپنے آبا اجداد میں سے کسی کو دیکھا تھا۔ مَیں نہیں جانتا تھا کہ یہ کیسے ہوا لیکن مجھے معلوم تھا کہ ایسا حقیقت میں ہوا ہے۔ مَیں اپنے آپ سے یہی سوال کررہا تھا کہ پرانے گھر میں آخری ہی رات کو ایسا کیوں ہوا؟ ایک لمحے کیلئے لگا کہ مجھے کچھ کرنے کیلئے کہا جارہا ہے، جس سے فرار ممکن نہیں۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ’’دوسرے‘‘ نے ایک سال کی میعاد پوری ہوجانے کے بعد ڈبہ نکالا ہو اور وہ کام کر دیا ہو جو اسے کرنے کی ہدایت دی گئی تھی؟ یا، کیا وہ صبر نہیں کرسکا اور جلدبازی نے اسے ہلاک کردیا؟ مجھ پر ان سوالوں کے جواب جاننے کی دھن سوار تھی۔ ذہن میں ایک عجیب خیال آیا کہ ماضی مجھ پر صرف اسلئے ظاہر ہوا تھا کہ ’’دوسرے‘‘ کو ڈبے تک پہنچنے سے روکا گیا تھا اور مجھ سے اسے کھودنے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کہا جا رہا تھا۔ مجھے اس ہدایت پر عمل کرنا چاہئے۔ یہ مجھے حکم دے رہا تھا کہ پرانا گھر نہ چھوڑوں اور کسی قدیم حکم پر عمل کروں۔ ساری صورتحال خواب معلوم ہورہی تھی اور ذِی عقل کیلئے بالکل برعکس تھی، اس کے باوجود اس نے ایک غاصبانہ قوت کے ساتھ مجھ پر قبضہ کر لیا۔ میرا دل امید سے بھرگیا۔ پوری رات میں ایک لمحہ بھی نہیں سو پایا کیونکہ میرا تصور وقت کی وسعتوں میں گھومتا رہا جس میں ماضی، حال اور مستقبل ایک ساتھ شامل تھے۔ یہاں سے روانگی کے خیال کا اب سوال ہی نہیں تھا۔ مَیں اس امید سے نامعلوم ماضی کو کھودنے کی خواہش سے مغلوب ہو گیا تھا کہ کسی نے مجھے حکم دیا ہے۔ پھر میں نے سوچا کہ اب کیا کیا جائے۔ گزرے ہوئے منظر کا سامنے نظر آنے والے نظاروں سے موازنہ کرتے ہوئے میں نے اندازہ لگایا کہ کھجور کی پرانی جگہ وہ جگہ تھی جہاں چھوٹی سی سیڑھیاں کمرے تک جاتی تھیں اس لئے کھدائی اس سے تھوڑے فاصلے پر، لیونگ روم کی کھڑکی سے ملحق ہونی چاہئے۔
مجھے اپنے بھائی اور بہن کو یہ بتانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا کہ میں نے گھر کو چھوڑ کر جانے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔ ہم ابھی یونیورسٹی میں تھے؛ میں قانون کے آخری سال میں تھا، جبکہ میرا بھائی، جو میرے ایک سال سے جونیئر تھا، انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا تھا، اور میری بہن، مجھ سے دو سال چھوٹی، طب کی تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ ان دونوں نے میرے اس اچانک فیصلے پر زیادہ سوال نہیں کئے۔ اب کام شروع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں حقیقت میں اس امکان سے خوفزدہ تھا کہ شاید یہ کچھ بھی نہ ہو لیکن مجھے ایک ایسی طاقت نے گھیر لیا تھا جو مجھے پیچھے ہٹنے نہیں دے رہی تھی۔ پھر مَیں نے مکمل رازداری سے رات کو اس جگہ کو کھودنے کا ارادہ کیا۔ مَیں کلہاڑی، بیلچہ، ٹوکری اور انتھک جوش کے ساتھ کام پر لگ گیا۔ دھول مٹی کے ساتھ میرے نتھنوں میں گزرے دنوں کی پرانی یادوں کی خوشبو بھر گئی تھی۔ میں نے اس وقت تک کام جاری رکھا جب تک مَیں نے اسے اپنے قد جتنا نہیں کھود لیا۔ پھر کلہاڑی کے ایک جھٹکے سے ایک غیر مانوس آواز آئی جو کسی غیر مانوس مادے کی موجودگی کا اشارہ دیتی تھی۔ میرا دل اس قدر دھڑک رہا تھا کہ جسم میں ارتعاش پیدا ہورہا تھا۔ موم بتی کی روشنی میں مَیں نے دیکھا کہ ڈبہ میری طرف غبار آلود نظروں سے دیکھ رہا ہے، گویا میری طویل تاخیر پر مجھے ملامت کر رہا ہے، ان برسوں کے نقصان کی بھرپائی کا تقاضا کررہا ہے، اور اپنی ناراضگی کو واضح کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مجھے ایک ٹھوس شکل میں حقیقت پیش کی جا رہی تھی جو ناقابل تردید تھی۔ ایک مجسم معجزہ، وقت کے خلاف جیتی گئی فتح۔
یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: آسمانی تحفہ
مَیں ڈبہ سمیت اپنے کمرے میں آیا۔ دھول صاف کی اور ڈبہ کھولا۔ اس کے اندر ایک خط تھا جو کپڑے میں لپٹا ہوا تھا۔ مَیں نے اسے احتیاط سے کھولا اور پھر پڑھنے لگا: ’’اے میرے بیٹے! اللہ آپ کی حفاظت فرمائے۔ سال گزر گیا اور ہر ایک کو اپنا راستہ معلوم ہو گیا۔ اپنا گھر نہ چھوڑو کیونکہ یہ قاہرہ میں سب سے خوبصورت ہے۔ اس کے علاوہ مومنوں کیلئے کوئی گھر نہیں، کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں۔ اب وقت ہے کہ آپ حرم کے محافظ، ہمارے آقا عارف البقلانی سے ملیں، اس لئے ان کے گھر جائیں، جو آرام گور گلی میں داخل ہوتے ہی دائیں جانب تیسرا ہے، اور انہیں پاس ورڈ بتا دیں۔ جو ہے: اگر میں غائب ہوں تو وہ ظاہر ہوتا ہے، اور اگر وہ ظاہر ہوتا ہے تو وہ مجھے غائب کر دیتا ہے۔اس طرح آپ اپنا فرض ادا کریں گے اور قسمت آپ پر مہربان ہوگی، اور آپ کو وہ حاصل ہو جائے گا جو اہل ایمان آپ کیلئے چاہتے ہیں، وہ بھی جو آپ اپنے لئے چاہتے ہیں۔‘‘
مَیں نے خط کو اتنی بار پڑھا کہ اسے پڑھنا مشینی اور بے معنی معلوم ہونے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ گھر اب قاہرہ میں سب سے خوبصورت نہیں رہا، نہ ہی مومنوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ، اور عارف البقلانی، حرم کے محافظ، اب موجود نہیں تھے۔ کیوں، پھر تخیل؟ اور محنت کیوں؟ کیا یہ ممکن تھا کہ ایسا معجزہ بغیر کسی وجہ کے رونما ہو سکتا تھا؟ کیا یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ میں آرام گور گلی کے تیسرے گھر میں جاؤں تاکہ مجھ پر کوئی ایسی چیز نازل ہو جس کا میں نے پہلے سے اندازہ نہیں لگایا تھا؟ کیا مَیں اپنے آپ کو وہاں جانے سے روک سکتا تھا؟ دل و دماغ کے درمیان جنگ جاری رہی اور رات ہی میں مَیں اس گلی کی جانب روانہ ہوگیا۔ غالباً میں کئی سو سال تاخیر سے وہاں جارہا تھا۔ پھر مجھے وہ گلی نظر آئی جو تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: ایک طبع زاد اور غیر مطبوعہ کہانی: شاہی قید خانہ
سوائے چند افراد کے جو تیزی سے سڑک عبور کر گئے، مجھے انسانی زندگی کا وہاں کوئی نشان نظر نہ آیا۔ میں پہلے گھر سے گزر کر دوسرے گھر پہنچا۔ تیسرے کے سامنے قدم رُک گئے۔ مجھے ایسا لگا کہ مَیں خواب میں چلتے ہوئے یہاں پہنچا ہوں۔ ایسا لگا کہ مجھے دروازے کے پار کچھ غیر واضح انسانی شکلیں نظر آرہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں پیچھے ہٹتا، دروازہ کھلا اور یورپی لباس میں دو لمبے آدمی باہر نکلے۔ انہوں نے میرا راستہ روک لیا، پھر ان میں سے ایک نے کہا کہ اندر جاؤ اور جس سے ملنے آئے ہو اس سے مل لو۔ مَیں نے حیرت سے کہا، ’’میں کسی سے ملنے نہیں آیا البتہ گھر میں رہنے والے کا نام جاننا چاہتا ہوں۔‘‘
’’واقعی! اور کیوں؟‘‘
خوف کے احساس کو ایک طرف دھکیلتے ہوئے مَیں نے کہا، ’’مَیں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہاں رہنے والا شخص البقلانی خاندان سے ہے؟‘‘ انکے حلیہ سے لگ رہا تھا کہ یہ دونوں محافظ تھے۔
پھر ان دونوں نے میرے دونوں بازو پکڑ لئے اور میری جدوجہد کے باوجود مجھے اندر لے گئے۔ مجھے ایک روشن کمرے میں لے جایا گیا جس کے بیچ میں ایک شخص سفید جبہ میں ہتھکڑیاں لگائے کھڑا تھا۔ کمرے کے چاروں طرف میں نے ایک ہی قسم کے کئی آدمیوں کو دیکھا۔دونوں محافظوں میں سے ایک نے کہا، ’’یہ اپنے دوست سے ملنے آیا تھا۔‘‘
ایک آدمی، جو گروہ کا لیڈر نظر آرہا تھا، زیر حراست شخص کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’تمہارا ایک ساتھی؟‘‘ اس نے پوچھا۔’’مَیں نے اسے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘ نوجوان نے اداسی سے جواب دیا۔ میری طرف دیکھتے ہوئے، لیڈر نے پوچھا، ’’کیا تم بھی وہی کہوگے جو اس نے کہا ہے؟‘‘
’’مَیں خدا کی قسم کھاتا ہوں،‘‘ مَیں نے سختی سے کہا، ’’میرا کسی بھی چیز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
اس نے ہاتھ بڑھایا۔ ’’تمہارا شناختی کارڈ۔‘‘
مَیں نے اسے کارڈ دیا۔ اس نے اسے پڑھا، پھر مجھ سے پوچھا، ’’تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘
مَیں نے دونوں آدمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غصے سے کہا ’’یہ مجھے زبردستی لائے ہیں۔‘‘
’’انہوں نے تمہیں سڑک سے اٹھایا ہے؟‘‘
’’مَیں البقلانی خاندان کے متعلق پوچھ رہا تھا۔‘‘
’’اور تم ان کے متعلق کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
’’مَیں نے ان کے بارے میں تاریخ میں پڑھا ہے،‘‘ مَیں نے بات جاری رکھی، ’’مَیں نے پڑھا ہے کہ جب آپ اس گلی میں داخل ہوتے ہیں تو وہ دائیں جانب تیسرے گھر میں رہتے تھے۔‘‘
’’تم نے ایسا کہاں پڑھا ہے؟ مجھے بتاؤ!‘‘
میں اور بھی الجھ گیا اور کوئی جواب نہیں دیا۔
’’جھوٹ ہمیشہ نقصاندہ ہوتا ہے۔‘‘
’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ مَیں نے مایوسی سے پوچھا۔
’’ہم تمہیں پوچھ گچھ کیلئے لے جا رہے ہیں۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’اگر میں تمہیں سچ بتاؤں تو تمہیں یقین نہیں آئے گا۔‘‘ مَیں نے چیخ کر کہا۔
’’کیسا سچ ؟‘‘ میں نے ایک آہ بھری؛ میرے تھوک میں دھول کی آمیزش تھی۔ پھر میں نے بات شروع کی، ’’مَیں اپنے گھر میں اکیلا بیٹھا تھا...‘‘ اور پھر مَیں نے ان کی سخت اور طنزیہ نگاہوں تلے اپنا راز کھول دیا۔ بات پوری ہوئی تو لیڈر نے سرد لہجے میں کہا، ’’پاگل ہونے کا ڈراما کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘
جیب سے خط نکال کر میں نے خوشی سے پکارا، ’’یہ رہا ثبوت۔‘‘اس نے اس کا جائزہ لیا، پھر اپنے آپ سے بڑبڑایا، ’’کاغذ کا ایک عجیب ٹکڑا جس کا راز ہم جلد ہی معلوم کر لیں گے۔‘‘
اس نے تحریر کی سطروں کو غور سے پڑھنا شروع کیا اور اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ ’’ایک واضح ضابطہ،‘‘ وہ بڑبڑایا۔
پھر اس نے گھر کے مالک کی طرف دیکھا، جو زیر حراست تھا، اور پوچھا، ’’کیا تم عارف البقلانی بنو گے؟ کیا یہ تمہارا کوڈ نام ہے؟‘‘ ’’میراکوئی کوڈ نام نہیں ہے،‘‘ نوجوان نے حقارت سے کہا، ’’اور یہ اجنبی تمہاری ایک کٹھ پتلی ہے جسے تم مجھ پر الزام لگانے کیلئے لائے ہو، لیکن میں ایسی چالوں سے بخوبی واقف ہوں۔ ‘‘
’’بہتر ہوگا کہ ہم انتظار کریں تاکہ اس کے گروہ کے کچھ لوگ ہمارے جال میں پھنس جائیں۔‘‘ ایک معاون نے لیڈر سے کہا۔
’’ہم صبح تک انتظار کریں گے،‘‘ لیڈر نے کہا، اور اس نے دونوں آدمیوں کی طرف اشارہ کیا اور انہوں نے مجھے بھی ہتھکڑی لگادی۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میرے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے۔ لیکن یہ خواب مجھ پر محض مشکلات کیلئے ظاہر نہیں ہوا تھا۔ مجھے اپنی غلطی کو تسلیم کرنا چاہئے، چیزوں پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور وقت پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
ایک خاموشی نے ہمیں گھیر لیا۔ میں نے تصور کیا کہ میرا بھائی اور بہن نئے گھر میں ہیں جبکہ پرانا گھر اب اُجڑ چکا ہے۔ اس صورتحال میں مَیں نے دیکھا کہ بند دروازے کے اس پار کوئی شخص کھڑا مجھے دیکھ رہا ہے، اور مَیں اپنی ہنسی پر قابو نہیں رکھ سکا مگر میری طرف کوئی متوجہ ہوا نہ کسی نے خاموشی توڑی۔