• Thu, 05 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: آگ

Updated: June 15, 2024, 8:54 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف امریکی ادیب اور ناول نگار جیک لینڈن کی شہرہ آفاق کہانی ’’ٹو بلڈ اے فائر‘‘ To Build a Fire کا اردو ترجمہ۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

دن سرد اور سرمئی ہوگئے تھے۔ ایک شخص ’’یوکون‘‘ (کنیڈا کا ایک علاقہ) کی مرکزی پگڈنڈی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ صبح کے نو بج رہے تھے مگر سورج اب تک طلوع نہیں ہوا تھا اور نہ ہی اس کے نکلنے کے آثار تھے۔ دن صاف تھا مگر چیزیں دھندلی نظر آرہی تھیں۔ ایک لطیف اداسی پھیلی ہوئی تھی جیسے کسی نے دن کو تاریک بنادیا ہو۔ مگر وہ شخص پریشان نہیں تھا۔ اسے اب سورج کے نہ نکلنے کی عادت سی ہوچکی تھی۔ اسے سورج کو دیکھے کئی دن گزر چکے تھے، اور وہ جانتا تھا کہ ابھی آئندہ کئی دنوں تک سورج نہیں نکلے گا۔ 
اس شخص نے اس راستے پر ایک نظر ڈالی جہاں سے وہ آیا تھا۔ یوکون تین فٹ برف کے نیچے دب چکا تھا۔ ہر طرف سفیدی تھی۔ برف ہی برف۔ سفید برف پر بہت دور آسمان سرمئی لکیر جیسا نظر آرہا تھا۔ وہ کئی سو میل کا فاصلہ طے کرکے یہاں پہنچا تھا اور اسے ابھی اپنے ساتھیوں کے پاس جانا تھا جو آگے کیمپ میں تھے۔ اس نے موٹے اونی کپڑے پہن رکھے تھے مگر سرد ہوائیں ہڈیوں میں گھستی محسوس ہورہی تھیں۔ درجہ حرارت منفی ۶۰؍ تھا۔ وہ شخص پہلی مرتبہ یوکون آیا تھا۔ اسے اتنی سردی برداشت کرنے کی عادت نہیں تھی۔ 
وہ سوچ رہا تھا کہ کیا اندھیرا ہونے سے پہلے وہ کیمپ تک پہنچ سکے گا؟ اگر پہنچ گیا تو وہاں آگ ملے گی اور کیمپ میں موجود اس کے دوست اسے گرما گرم کھانا پیش کرینگے۔ دوپہر کے کھانے کیلئے اس کے بسکٹ کا ایک پیکٹ تھا جسے اس نے قمیض میں چھپا رکھا تھا تاکہ وہ سردی سے جم نہ جائے۔ 

یہ بھی پڑھئے: عالمی نظم کے مرکزی خیال مبنی کہانی: شیطان

وہ آہستہ آہستہ برف کا راستہ پار کرتا جارہا تھا۔ اس کی ناک سرخ ہوگئی تھی اور جبڑے آپس میں جم گئے تھے۔ اس کے ساتھ ایک کتا بھی سفر کررہا تھا۔ بھیڑیا نما کتا جسے ’’ہسکی‘‘ کہتے ہیں۔ شدید سردی سے یہ جانور بھی افسردہ تھا مگر اسے اس موسم کی عادت تھی۔ اس شخص کی سرخ ڈاڑھی اور مونچھوں پر برف کے ذرات اٹکے ہوئے تھے۔ اس نے اپنی گھڑی دیکھی۔ دس بج رہے تھے۔ وہ چار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہا تھا۔اس کا اندازہ تھا کہ وہ چھ بجے تک کیمپ پہنچ جائے گا اور رات کا کھانا وہیں کھائے گا۔ وہ چوکنا تھا کیونکہ اس علاقے کی جھیلیں اور دریا بھی برف بن گئے تھے۔ اسے بتایا گیا تھا کہ کئی جھیلوں پر برف کی انتہائی پتلی چادر ہے اس لئے اسے دھیان رکھنا ہوگا۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ ٹھنڈے پانی میں نہ گرجائے۔ کتا اس کے قدم سے قدم ملا رہا تھا۔ چوکنا ہونے کے باوجود اس کا ایک پاؤں پتلی چادر والی جھیل پر پڑگیا اوروہ کمر تک پانی میں گرگیا۔ یخ بستہ پانی نے اس کے نچلے حصے کو مفلوج کردیا۔ اسے احساس ہوا کہ اس کے پاؤں جم رہے ہیں۔ بڑی مشکل سے وہ جھیل سے باہر آیا۔ وہ سردی کی شدت سے کانپ رہا تھا۔ 
دن کے ۱۲؍ بج رہے تھے مگر سردی کی شدت میں کمی نہیں آئی تھی۔ کیمپ میں آگ اور رات کا کھانا، یہ دو چیزیں ایسی تھیں جو اس شخص کیلئے امید کی کرن بن گئی تھیں ورنہ اتنی سردی نے اسے مایوس کردیا تھا۔ تبھی اسے ایک ٹوٹا ہوا درخت نظر آیا جس کی چند پتیوں پر ابھی برف نہیں جمی تھی۔ اپنے آپ کو حرارت دینے کیلئے وہ شخص تیزی سے درخت کے پاس پہنچا اور جھولے سے ماچس کے گچھے سے ایک تیلی نکال کر اسے آگ لگادی ۔ آگ کے ننھے شعلوں نے پھیلنا شروع کیا۔ آگ تھوڑی بڑھی تو اس نے اپنے چہرے کی برف پگھلائی اور چند بسکٹ کھائے۔ کتے نے بھی آگ میں کچھ اطمینان حاصل کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے کپڑے سوکھ جائیں مگر شدید سردی میں ایسا ہونا آسان نہیں معلوم ہورہا تھا۔ کچھ دیر سستانے کے بعد جب وہ شخص سفر کیلئے نکلنے کی تیاری کرنے لگا تو اسے احساس ہوا کہ اس کے پاؤں سُن ہوگئے ہیں۔ 
اسے سخت غصہ آیا مگر اب کچھ دیر اور رُکنے اور آگ بڑھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ چنانچہ وہ آس پاس سے کچرا اٹھا کر آگ میں ڈالنے لگا، کچھ سوکھی ٹہنیاں بھی ہاتھ آئیں اور پتے بھی، جن پر برف تھی مگر آگ میں ڈالنے سے قبل وہ پگھل جاتی تھیں۔ اب اسے کیمپ پہنچنے میں مزید تاخیر ہونے والی تھی۔ یہی بات اس شخص کو چڑچڑا بنارہی تھی۔ کتا چند میل ٹوٹی ایک کھوکھلی شاخ میں بیٹھا اپنے آپ کو گرم رکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس شخص نے آگ کی مدد سے اپنے ہاتھ پاؤں، چہرے اور انگلیوں کو خاطر خواہ حرارت پہنچائی۔
اس نے برف سے لدے ایک درخت کے نیچے آگ لگائی تھی۔ اپنے آپ کو اور کتے کو حرارت دینے کیلئے وہ اطراف کے درختوں سے ٹہنیاں توڑتا اور آگ میں ڈالتا جاتا، جس سے آگ بڑھتی۔ اس طرح کتے اور اس شخص کے جوش و خروش میں مزید اضافہ ہوتا۔ تبھی اسے شاخوں کے چٹخنے کی آواز سنائی دی۔ اس نے اوپر دیکھا اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اسے آگ کھلے میں لگانی چاہئے تھی۔ درخت کے نیچے آگ لگانے کا اثر یہ ہوا تھا کہ شاخوں پر لدی برف پگھلنے لگی تھی اور پھر برف کا ایک بڑا تودہ اس قدر کمزور ہوگیا کہ سیدھا آگ پر گرگیا اور آگ بجھ گئی۔ 

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: شاندار راکٹ

ایک لمحے کیلئے وہ بیٹھا اس جگہ کو گھورتا رہا جہاں آگ لگی تھی۔ وہ دوبارہ آگ لگاسکتا تھا۔ مگر آگ بجھ جانے کے بعد اسے سردی زیادہ لگنے لگی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کے ہاتھ اور پاؤں کی انگلیاں جم کر ٹوٹ جائیں گی۔ اسے دوبارہ آگ جلانا چاہئے جس میں کچھ وقت لگے گا۔ اس خیال کے آتے ہی وہ دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا اور اس مرتبہ کھلے میں آگ جلانے کا فیصلہ کیا۔ وہ اشیاء چن چن کر جمع کرنے لگا۔ اس نے خشک گھاس اور چھوٹی ٹہنیاں اکٹھا کیں۔ کتا بیٹھا اسے دیکھتا رہا، اس کی آنکھوں میں عجیب تڑپ تھی کیونکہ وہ اسے آگ فراہم کرنے والے کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ اس پورے عمل میں اس کی انگلیاں جم گئی تھیں۔ وہ ہاتھوں سے کچھ بھی پکڑنے کیلئے کافی جدوجہد کررہا تھا۔ چیزیں جمع ہوگئی تھیں مگر وہ جیب میں یہاں وہاں ہاتھ مار رہا تھا۔ اس کے چہرے سے بے بسی عیاں تھیں۔ اس کے ہاتھ ماچس کے گچھےسے لگ رہے تھے مگر شدید سردی کی وجہ سے اس کی انگلیاں جم گئی تھیں اور وہ اسے پکڑنے سے قاصر تھیں۔ کتا تیزی سے اس کے اطراف گھوم رہا تھا۔ 
اس نے گہری سانس لی، دستانوں میں قید اپنے ہاتھوں کو تیزی سے رگڑنے لگا جس سے انگلیوں کو تھوڑی حرارت ملی۔ اس نے جلدی سے دستانے نکالے اور انگلیوں کو اپنی جیب میں ڈال دیا۔ ماچس کا گچھا نکالا۔ اتنی دیر میں اس کی انگلیاں سُن ہونے لگی تھیں۔ گچھے سے ایک تیلی الگ کرنے کی کوشش میں گچھا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر برف میں گرگیا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ انگلیاں کام نہیں کررہی تھیں۔ وہ برف پر بیٹھ کر تمام تیلیوں کو اکٹھا اپنی ہتھیلیوں میں کھینچ کر دامن میں بھرلیا۔ اس عمل میں اس کی گود میں تیلیوں کے ساتھ بہت ساری برف بھی آگئی۔ اس کے ہاتھ بالکل شل ہوچکے تھے۔ انگلیوں نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنی کلائیوں میں گچھا پھنسا کر منہ تک لایا اور اس سے ایک تیلی الگ کرنے کی کوشش کی۔ مگر اس کے ہونٹ بھی ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بالکل جم گئے ہوں۔ بڑی دقت سے اس کے ہونٹ الگ ہوئے اور اس نے دانتوں سے ایک تیلی کھینچ لی۔ آگ روشن ہونے سے پہلے اس نے کم وبیش بیس مرتبہ اسے ڈبیہ پر کھرچا تھا۔ جیسے ہی آگ بھڑکی، کتے اور اس شخص کی جان میں جان آئی۔ تھوڑی اور حرارت کی خاطر اس نے دانتوں سے دستانے کھینچ کر نکال لئے اور ننگی کلائیوں کے درمیا نے پکڑے گچھے کو آگ لگادی اور پھر ایک ساتھ ۷۰؍ سے زائد تیلیاں جل اٹھیں۔ گندھک کی ناگوار بو پھیل گئی، تیز دھواں نکلا مگر کلائیوں میں حرارت ہوئی۔ اسے اپنا ہی گوشت جلنے کی بو آئی مگر وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ گچھا اس کی کلائیوں سے چمٹ گیا تھا۔ وہ بے بسی سے بیٹھا رہا۔ کرب سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، مگر وہ برداشت کرتا رہا۔ تیلیاں جب مکمل جل گئیں تو کلائیوں پر جلن کا احساس کم ہوا۔ وہ تیزی سے اٹھ کر سوکھی کائی، پتے اور ٹہنیاں آگ میں ڈالنے لگا تاکہ آگ بھڑکتی رہے۔ کتا آگ کے پاس تیزی سے گھوم رہا تھا۔
کتے پر نظر پڑتے ہی اس کے دماغ میں ایک شیطانی خیال آیا۔ اسے برفانی طوفان میں پھنسنے والے ایک آدمی کی کہانی یاد آگئی، جو ایک یارک کو مار کر اس کی کھال میں گھس گیا تھا، جس کے سبب وہ زندہ بچ سکا تھا۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ اس بڑے کتے کو مار کر اس کی کھال میں گھس جائے تو محفوظ رہ سکتا ہے۔ لہٰذا اس نے کتے کو پاس بلایا۔ لیکن اس کی آواز میں ایک عجیب سا خوف تھا جس نے جانور کو بھی خوفزدہ کر دیا تھا۔ جانور کی مشکوک فطرت نے خطرہ محسوس کرلیا تھا۔ مگر وہ جانتا نہیں تھا کہ خطرہ کیا ہے۔ ہسکی اس شخص سے تھوڑا اور دور ہوگیا تھا۔وہ شخص کچھ دیر تک اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ پھر اس نے پچکارنے کے انداز میں کتے کو قریب بلایا۔ اس مرتبہ کتے کو اس پر رحم آگیا اور وہ اس کی طرف بڑھنے لگا۔ فاصلہ کم تھا، اس شخص نے کتے کو پکڑنے کیلئے جیسے ہی ہاتھ بڑھائے، کتا خطرہ بھانپ گیا اور تیزی سے پیچھے ہٹنے لگا مگر تب تک اس شخص نے کتے کو اپنے بازوؤں میں گھیر لیا تھا۔ اسی دوران اس شخص کو احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ بالکل جم چکے ہیں کیونکہ وہ کتے کو انگلیوں سے پکڑنے سے قاصر تھا۔ اس نے کتے کو تھامے رکھا جبکہ وہ اس کے بازوؤں میں پھڑپھڑا رہا تھا، کراہ رہا تھا اور جدوجہد کر رہا تھا۔
مگر وہ کتے کے ساتھ کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ وہ اسے مار نہیں سکتا تھا۔ نہ وہ میان سے چاقو نکال سکتا تھا نہ اپنے بے جان ہاتھوں سے کتے کا گلا گھونٹ سکتا تھا۔ وہ بے بسی سے اسی طرح بیٹھا رہا۔ پھر اس نے کتے کو آزاد کردیا۔ کتا تیزی سے اس کے بازوؤں سے نکلا اور چالیس فٹ دور جاکر کھڑا ہوگیا۔ پھر اس شخص نے میان سے چاقو نکالنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ انگلیوں نے ساتھ نہیں دیا۔ 
اس کے ذہن میں موت کا خوف تھا۔ تبھی اس نے سوچا کہ اسے تیزی سے کیمپ کی طرف بڑھنا چاہئے کیونکہ آہستہ آہستہ اس کے اعضا منجمد ہوتے جارہے تھے۔ وہ تیزی سے اٹھا اور کیمپ کے راستے پر بھاگنے لگا۔ کتا بھی اس کے پیچھے ہولیا۔ اب اسے اپنی جان کی فکر تھی۔ وہ برف میں نہیں مرنا چاہتا تھا اس لئے بس بھاگ رہا تھا۔ اسے اب بھی یقین تھا کہ کیمپ میں موجود اس کے دوست اسے دیکھیں گے تو اسے بچالیں گے۔ بھاگنے کے دوران اسے کئی بار ٹھوکر لگی، وہ کئی بار گرا، اٹھا، لڑکھڑایا مگر بھاگتا رہا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ وہ بے دم ہو کر گرپڑا اور اٹھنے کی کوشش میں ناکام رہا۔ وہ برف پر لیٹا اپنا سانس بحال کرنے لگا۔ اس نے نوٹ کیا کہ اب وہ کافی گرم اور آرام دہ محسوس کر رہا ہے۔ وہ کانپ نہیں رہا تھا، اور ایسا لگتا تھا کہ ایک گرم چمک اس کے سینے اور تن میں آگئی ہے۔ اس نے پھر دوڑ لگادی۔ 

یہ بھی پڑھئے: ایک طبع زاد کہانی: بدروح اور رومی شہزادہ

اس کے ساتھ کتا بھی بھاگ رہا تھا۔ وہ ددوبارہ گرگیا۔ اس بار کپکپاہٹ زیادہ تھی۔ وہ ٹھنڈ سے اپنی جنگ میں ہار رہا تھا۔ اس کے جسم میں چیونٹیاں سے رینگ رہی تھیں۔ منجمد ہوجانے کے خوف سے وہ پھر اٹھا اور بھاگنے لگا، وہ پھر لڑکھڑایا اور گر پڑا۔ وہ برف میں ایسے ہی پڑا رہا۔ جب اس نے اپنے سانس پرقابو پا لیا تو اٹھ بیٹھا۔ مگر وہ تھک چکا تھا۔ سردی اور جسم کی گرمی، ان دونوں احساسات کے درمیان اس کا جسم ساتھ چھوڑ رہا تھا۔ اسے دور دھند میں خیمے اور ہلکی آگ نظر آرہی تھی۔ اسے لگا شاید وہ کیمپ کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اس پر غنودگی طاری ہورہی تھی۔ تبھی اسے خیال آیا کہ یوں جدوجہد کرنے سے بہتر ہے آرام سے موت کی نیند سوجانا۔ غنودگی کے عالم میں اس نے دیکھا کہ وہ کیمپ میں موجود اپنے دوستوں کے ساتھ اسی مقام پر یہاں آیا ہے اور اس کا جسم کیمپ لے جایا جارہا ہے۔ 
وہ ان لوگوں کو بتانا چاہتا تھا کہ اس نے کتنی شدید سردی محسوس کی ہے مگر وہ بات کرنے سے قاصر تھا۔ پھر اس کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ کتا اس کے پاس بیٹھا اس کے اٹھنے کا انتظار کر رہا تھا۔ سردیوں کا ایک اور مختصر دن اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا۔ کتے کو آگ کے کوئی آثار نظر نہیں آرہےتھے۔جیسے جیسے شام ڈھلنے لگی، آگ کیلئے کتے کی بےتابی بڑھنے لگی۔ وہ اٹھ کر اس شخص کے اطراف گھومنے لگا، اس کے جسم کو سونگھنے لگا۔ اور پھر اسے احساس ہوا کہ آگ پیدا کرنے والا شخص ٹھنڈا پڑچکا ہے۔ کتے کے کان مایوسی کے عالم میں جھک گئے۔ آسمان پر ستارے طلوع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ کتے کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس کے منہ سے ہلکی آواز میں درد بھری چیخیں نکلیں۔ اور پھر وہ لاش سے دور ہٹ گیا۔ اندھیرا گہرا ہونے سے پہلے وہ کیمپ تک پہنچنا چاہتا تھا۔ انسانوں تک پہنچنا چاہتا تھا، جو اسے کھانا دے سکیں اور اس کیلئے آگ روشن کرسکیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK