اللہ کی مدد کا یقین دلانے والی کہانی۔
EPAPER
Updated: July 20, 2024, 1:50 PM IST | Salim Khan | Faizpur
اللہ کی مدد کا یقین دلانے والی کہانی۔
گرمی کا موسم تھا۔ تیز دھوپ، سبزہ زاروں کی شادابی اور ندی نالوں کا پانی پی گئی تھی۔ گرم ہواؤں سے سارا جنگل سائیں سائیں کر رہا تھا۔ تالاب کے آس پاس املی، پیپل، نیم اور برگد جیسے تناور درخت تھے۔ جن کی آغوش میں پرندے اور چوپائے اپنی جان چھپائے بیٹھے تھے۔ لیکن وہیں قریب صندل، ساگوان، دیودار، ببول وغیرہ کے پودے بھی تھے جو کھلے میدان میں سخت گرمی سے جوجھ رہے تھے۔
چلچلاتی دھوپ سے گھبرا کر ساگوان کے پودے نے اپنے بے باک ساتھی صندل سے کہا، ’’بھائی زمین سے پانی مل رہا ہے اور نہ غذا۔ اوپر سے گرمی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ یہی حال رہا تو چند روز میں ہم سب مرجھا کر سوکھ جائیں گے۔‘‘
’’ہاں بھائی ساگوان ٹھیک ہی کہہ رہا ہے۔‘‘ دیودار نے اس کی تائید کی۔ ببول کے پودے نے تیوریاں چڑھا کر کہا، ’’صندل بھائی، یہ سب ان لمبے گھنے پیڑوں کی بدمعاشی ہے۔ یہ ہمارے اطراف کا سارا پانی اور غذا جذب کر لیتے ہیں۔ دیکھو وہ مسٹنڈے کیسے ہرے بھرے لگ رہے ہیں۔ صندل اپنے ساتھیوں کی باتیں سن کر سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر اس نے فکر انگیز لہجے میں کہا، ’’ہاں بھائیو، آپ لوگ ٹھیک کہہ رہے ہیں، مجھے بھی اب بڑی تکلیف ہورہی ہے۔ میں ابھی ان پیڑوں سے بات کرتا ہوں۔‘‘
اور پھر صندل کا پودا تناور درختوں سے مخاطب ہوا، ’’اے چھتنار پیڑو! ہم ننھے پودوں کا کچھ تو خیال رکھو، ہم مرجھا کر سوکھ رہے ہیں اور آپ لوگ کھا پی کر موٹے تاز ے ہورہے ہیں۔‘‘ املی کا پیڑ جو پودوں سے بہت قریب تھا، اس نے جھُک کر حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’کیا بات ہے صندل بابا، کیوں لال پیلے ہورہے ہو؟ ہم نے کیا ظلم کیا ہے آپ لوگوں پر!‘‘ صندل نے ناگواری سے جواب دیا، ’’آپ لوگوں کی لمبی گہری جڑیں ساری غذا اور پانی جذب کرلیتی ہیں۔ اوپر سے یہ آتشی نیزوں کی چبھن۔ ہمار ا تو جینا مشکل ہوگیا ہے۔‘‘
’’ارے نادان پودے، ہم تو اپنی ضرورت کے مطابق غذا حاصل کرتے ہیں، اور ہماری جڑیں زمین کی گہرائی میں ہیں۔ جہاں تمہارا کوئی تعلق نہیں۔ رہی بات آتشی نیزوں کی تو آپ لوگ سورج سے فریاد کریں۔ شاید اسے تم پر رحم آجائے۔‘‘ املی کے پیڑ کی بات سن کر ساگوان نے کہا، ’’ہاں بھائی صندل، ہمیں سورج سے اپیل کرنی چاہئے۔ میں نے سنا ہے ماحول کی تبدیلی میں اس کا بڑا عمل دخل ہے۔‘‘ صندل کے پودے نے پسینہ پونچھ کر اپنی سانسیں درست کیں۔ اور پھر آگ اگلتے سورج سے مخاطب ہوا:
’’اے سنہرے سلطان! آپ سے ایک گزارش ہے۔‘‘
’’کون ہے بھائی، کہاں سے بول رہے ہو!‘‘ سورج نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’جی، مَیں صندل کا پودا بول رہا ہوں اجنتا کی پہاڑی سے۔‘‘ ’’اچھا... اچھا! بولو کیا کہنا چاہتے ہو۔‘‘ ’’جہاں پناہ، ہم معصوم پودوں سے تیز دھوپ برداشت نہیں ہورہی ہے۔ اپنی کرنوں کی آب تاب ذرا کم کیجئے۔ بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘ سورج نے مسکرا کر جواب دیا، ’’ارے میرے پیارے! تم سمجھ رہے ہو میں تمہیں تکلیف پہنچا رہا ہوں، جان بوجھ کر دہک رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں میری تیز کرنوں سے چرند، پرند اور تم جیسے کمسن پودوں کو بہت تکلیف پہنچتی ہے۔ لیکن کیا کروں، مَیں مجبور ہوں۔‘‘ ’’مجبور ہیں!آپ کی کیا مجبوری ہے؟‘‘
’’ارے میاں! میری تپش میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ میں اپنی جگہ قائم ہوں۔ زمیں کی گردش کے سبب میں کبھی تم سے نزدیک اور کبھی دور ہوجاتا ہوں۔‘‘
’’مَیں سمجھا نہیں، آپ نزدیک اور دور کیسے ہوجاتے ہیں؟‘‘ صندل نے حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ سورج نے اسے نرم لہجے میں سمجھایا، ’’صندل راجا! زمین کی شکل گول ہے، گیند کی طرح۔ وہ اپنے محور پر گھومنے کے ساتھ ساتھ میرے گرد بھی سال میں ایک چکر پورا کرتی ہے۔ زمین کی محوری گردش مطلب وہ لٹو کی طرح اپنی جگہ پر مسلسل گھومتی ہے۔ محوری گردش کا ایک چکر ۲۴؍ گھنٹوں میں مکمل ہوتا ہے۔ جس سے دن رات وجود میں آتے ہیں۔ زمین کا جو حصہ میرے سامنے ہوتا ہے وہاں دن ہوتا ہے اور جو حصہ میری مخالف سمت میں ہوتا ہے وہاں رات ہوتی ہے۔ اور میرے گرد زمین جو ایک سال میں ایک چکر لگاتی ہے، اسے مداری گردش کہتے ہیں۔ اس گردش کا راستہ جسے مدار کہتے ہیں وہ بیضوی (انڈے کی طرح) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا درمیانی فاصلہ بدلتا رہتا ہے۔ جب زمین میرے قریب سے گزرتی ہے تو جو حصہ میرے سامنے ہوتا ہے۔ اس خطہ ارض پر گرمی کا موسم ہوتا ہے۔ اور جب زمین دور سے گزرتی ہے۔ تب میرے سامنے والے خطے پر سردی کا موسم ہوتا ہے۔ زمین کے محوری جھکاؤ اور مداری گردش کی وجہ سے زمین پر ہر جگہ موسم بدلتے ہیں۔ یہ سب قدرتی نظام ہے اور اس میں ہم سب کی بھلائی ہے۔‘‘
یہ سب باتیں قریب کا بوڑھا سوکھا پیڑ سن رہا تھا۔ اس نے دنیا کے سرد گرم اور کئی آندھی طوفان دیکھے تھے۔ اس نے ننھے پودوں سے کہا، ’’پیارے بچو! تمہیں ان درختوں اور سورج سے فریاد کرنے کی ضرورت نہیں۔ سورج ٹھیک کہہ رہا ہے۔ یہ کائنات اس خالق و مالک یعنی اللہ کی تابع ہے۔ ہر شئے اسی کے ماتحت چلتی ہے۔ ہماری ہر مصیبت اور پریشانی اللہ ہی دور کرسکتا ہے۔ وہی دن کو رات، اور رات کو دن میں بدلتا ہے۔ دن کو سورج سے روشن کرتا ہے اور رات کو چاند تارو ں سے جگمگاتاہے۔ دیکھو ان چرند پرند کو کیسے آنکھیں بند کئے سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ اور وہ دیکھو، اس آم کے پیڑ پر کویل کیسے کوک رہی ہے۔ جب گرمی بڑھ جاتی ہے۔ وہ اپنی سریلی آواز میں کوکنا شروع کردیتی ہے۔ یہ سب اپنے اپنے انداز میں دعا مانگ رہے ہیں۔‘‘
صندل نے سوکھے پیڑ کو حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’دادا جان، آپ تو کافی لمبے اور مضبوط ہیں، پھر آپ کی یہ حالت کیسے ہوگئی؟‘‘ سوکھے پیڑ نے پودوں کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا، ’’پیارے بچو! مَیں آس پاس کے ان تمام پیڑوں سے عمر رسیدہ ہوں، یہ سب میرے سامنے تمہاری طرح بچے تھے۔ اب میں بوڑھا ہوچکا ہوں۔ میری جڑیں کمزور ہوچکی ہیں۔ ان میں غذا حاصل کرنے کی طاقت نہیں رہی۔ تم یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ دنیا کی ہر شے فانی ہے۔ میرا سوکھا وجود اس حقیقت کی زندہ نشانی ہے۔ تم لوگ یہ بات یاد رکھو کہ اپنی پریشانی اور مصیبت دور کرنے کیلئے ہمیشہ اپنے خالق و مالک سے دعا کرنی چاہئے۔ وہی مشکل کشا حاجت رواں ہے۔‘‘ بوڑھے پیڑ کی باتیں پودوں کے دل میں اتر گئیں۔
سب پودوں نے اپنی نرم نازک ڈالیاں جھکا کر دل سے دعا ئیں کیں، ’’اے اللہ ہم کمسن کمزور پودے ہیں، تیز دھوپ اور گرم ہواؤں سے ہمیں بہت تکلیف ہورہی ہے۔ سورج کی تپش کم کردے مالک۔ ان گرم ہواؤں کو روک دے یا رب۔ ہم بہت دنوں سے پیاسے ہیں، ہماری جڑیں اور پتے سوکھ رہے ہیں۔ تو رحیم و کریم ہے مولا، رحم و کرم کی بارش کردے۔‘‘
معصوم پودوں کی دعائیں سن کر اللہ کی رحمت جوش میں آگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر کچھ کالے بادل امڈ آئے۔ ان میں سے ایک بڑے سرمئی بادل نے آگ اگلتے سورج کا چہرہ ڈھک دیا اور آناً فانا ًپہاڑی پر گہرا سایہ پھیل گیا۔ بدلی چھاتے ہی ہلکی ہلکی ہوائیں چلنے لگیں۔ پودوں کی گھبراہٹ کم ہوگئی اور وہ لمبی لمبی سانسیں لینے لگے۔ چوپائے تیز قدموں سے اُچھل کود کرتے ہوئے میدان کی طرف نکل آئے اور پرندے چہچہاتے ہوئے کھلے آسمان میں اپنی اڑان کے کرتب دکھانے لگے۔
پھررات کو گہرے کالے بادل گھر آئے اور موسلادھار برستے رہے۔ دو روز تک مسلسل بارش ہوتی رہی۔ ندی نالے تالاب بھر گئے تھے اور ہر طرف سبزہ اُگ آیا تھا۔ تین چار دن بعد جب سورج نے پہاڑی پر اپنی سنہری کرنوں کی چادر پھیلائی تو زندگی جگمگا اٹھی۔ ہر طرف جانوروں کی چہل پہل، پرندوں کی دلکش آوازیں۔ مینڈکوں کی ٹرٹر.... جنگل میں منگل ہوگیا تھا۔
پودوں کی رگ رگ سیراب ہوگئی تھی، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں، نرم نرم دھوپ، جل تھل زمین ان کے دلوں میں جینے کی امنگیں جگا رہی تھیں اور وہ جھوم جھوم کر سہانے موسم کا لطف اٹھا رہے تھے۔ اچانک جب صندل کے پودے کی نظر بوڑھے سوکھے پیڑ پر گئی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے لہلہا کر کہا، ’’بابا.... بابا! آپ کے سوکھے تنے پر تو کونپلیں نکل آئی ہیں!‘‘ سوکھے پیڑ نے مسکرا کر آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’بیٹا، یہ سب اللہ کی قدرت ہے۔ میں نے کہا تھا نہ وہ خالق و مالک بڑا مہربان ہے۔ اسی نے میرے سوکھے وجود کو یہ تازگی بخشی ہے۔‘‘ صندل گہری نظر سے آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ ہر طرف گہرے کالے بادل چھائے ہوئے تھے اور آگ اُگلتے سورج کا کہیں پتا نہ تھا۔