• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بزدل کون؟

Updated: July 27, 2024, 2:24 PM IST | Najma Parvez | Mumbai

ہنسی ہنسی میں بہت کچھ سمجھانے والی کہانی۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

باہر رم جھم رم جھم بارش ہورہی تھی۔ ہم سب ریشماں کے کمرے میں بیٹھے گپیں لڑا رہے تھے۔ ساون کا اتنا خوشگوار موسم ہو اور چائے کا دور چل رہا ہو پھر مزے سے دور دراز کی گپیں ہانکیں جائیں تو کتنا لطف آتا ہے.... اس کا تو آپ سب کو بھی خوب تجربہ ہوگا.... ہے نا....؟ زرینہ (ہمارے گروپ کی سب سے شریر لڑکی) اس وقت بہت سنجیدہ موڈ میں تھی (آپ جانتے ہی ہیں کہ جب شرارت سنجیدہ ہوتی ہے تو بہت خطرناک ہوتی ہے) باہر میدان میں چگتی ہوئی مرغیوں کو لگاتار گھونے کے بعد یکایک آہستہ سے بولی، ’’خدا معلوم کیوں میری آنکھیں کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔‘‘
 ’’ہیں.... آخر ایسا کیوں؟ تمہاری آنکھیں تو ہر معاملے میں تیز ہیں۔‘‘ ’’لیکن اب نہیں رہیں۔‘‘ زرینہ سچ مچ رونے والی تھی، ’’مجھے آج بہت کم نظر آرہا ہے۔ دیکھو نا.... یہ جو مرغیاں پھر رہی ہیں نا.... ان کی مجھے صرف دو ٹانگیں نظر آرہی ہیں جبکہ ہر مرغی کے تین ٹانگیں ہوتی ہیں!‘‘
 یہ سنتے ہی کمرے میں ہنسی کا زلزلہ آگیا اور جب ذرا ہنسی کے طوفان کا شور کم ہوا تو میری نظر چائے دانی پر گئی.... چائے بالکل ختم ہوگئی تھی۔ مَیں نے ریشماں سے دوبارہ چائے لانے کو کہا.... وہ جل کر بولی، ’’اب امّی سے ڈانٹ کھلوانے کا ارادہ ہے کیا؟ وہ یونہی ہم ’’بچیوں‘‘ کے لئے چائے پینے کی سخت مخالف ہیں.... دوسرے بارش ہورہی ہے۔ آپ خود ہی تکلیف کر لیجئے۔‘‘
 ’’اچھا! یہ بات ہمیں آج معلوم ہوئی کہ آپ نمک کی بنی ہوئی ہیں اس لئے پانی سے شرماتی ہیں۔ ویسے امی کا ڈر ہو تو ہو چائے نہ سہی آئس کریم ہی لے آؤ۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: ہاتھی کے آنسو

’’توبہ اس سرد موسم میں آئس کریم.... بھلا چائے چھوڑ کر آئس کریم کون گدھا پسند کرتا ہوگا؟‘‘ چائے کی شوقین روحی نے اعتراض کیا۔ ’’جی آپ ہی جیسے.... پسند فرما لیتے ہیں حضور!‘‘ شکیلہ نے سب کو ہنسانے کی کوشش کی۔ ’’اور میرا ساتھ تم دیتی ہو۔‘‘ روحی جھلا کر بولی اور اس سے پہلے کہ وہ دونوں آپس میں لڑ پڑیں، شمی نے سب کی توجہ باہر باغ میں لگے سرخ گلاب کے پھول کی طرف مبذول کرا دی، ’’ہائے کس قدر پیارا پھول ہے.... میرے لئے جو بھی وہ پھول لا دے وہی میری بہترین دوست ہوئی!‘‘
 ہم سب نے ایک نظر اپنے اپنے ریشمی کپڑوں پر ڈالی، ایک دوسرے کو دیکھا اور صاف انکار کر دیا، ’’دوستی الگ چیز ہے.... اس سے کسے انکار لیکن وہ بات یہ ہے کہ ذرا....‘‘ ’’کیوں ریشماں ڈیئر.... تمہاری طرف سے بھی نااُمیدی....؟‘‘ شمی امتحان لے رہی تھی شاید! ’’بھئی.... مجھے تو گھاس واس میں جاتے ڈر لگتا ہے.... پھر اُدھر بھوت کا اثر بھی سنتے ہیں۔ پچھلے ہفتے کا قصہ معلوم ہوا تمہیں؟‘‘ ریشماں بڑی صفائی سے بات کاٹ گئی۔
 ’’نہیں.... بتاؤ کیا ہوا تھا آخر؟‘‘
 ’’سچ.... مجھے تو وہ وقت یاد کرکے آج بھی پسینے آجاتے ہیں۔ غضب خدا کا.... کتنا دل دہلانے والا منظر تھا۔ میری یہ چھوٹی میز دیکھ رہی ہو نا.... یہ خود بخود چلنے لگی تھی۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: پودوں کی فریاد

 ’’جھوٹ.... ناممکن.... بھلا آج تک کہیں ایسا بھی ہوا ہے کہ میز چلنے لگے!‘‘ ہمیں قطعی یقین نہیں آرہا تھا۔
 ’’ارے نہیں.... ایمان سے بالکل سچ کہہ رہی ہوں۔ دراصل ہوا یوں کہ اس روز بے حد اندھیری رات تھی، بارش بھی موسلادھار اور اسی روز اس ماہ کا رسالہ آیا تھا۔ بھلا رسالہ پڑھے بغیر مجھے کیسے نیند آتی؟ سونے سے پہلے لیمپ جلا کر رسالہ پڑھنا شروع کیا۔ چاروں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا صرف بارش کی آواز سنائی دے رہی تھی تب ہی ایک پُراسرار جاسوسی کہانی پڑھتے پڑھتے میں نے محسوس کیا کہ میز جس پر لیمپ رکھا ہوا ہے، آہستہ آہستہ ہل رہی تھی۔ مَیں نے زیادہ غور نہیں کیا لیکن تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد وہ پھر ہلتی.... اب تو مَیں چونکی۔ رسالہ ایک طرف رکھا اور میز کو غور سے دیکھنے لگی۔ کھڑکیاں سب بند تھیں جو میں سوچتی کہ ہوا کی تیزی کے باعث ہے۔ میز پر فرش تک لٹکتا ہوا میز پوش تھا اچانک ایک بار میز پر جو زور سے ہلی تو لیمپ کھٹاک سے گڑ کر ٹوٹ گیا اور چاروں طرف گھپ اندھیرا.... اور مَیں مارے خوف کے کانپ گئی.... لیکن سوچا اگر کسی کو آواز دوں گی تو سب ڈرپوک کہیں گے۔ خیر جناب! ہمت کرکے دوبارہ لیمپ جلایا۔ چمنی ٹوٹ چکی تھی اور لیمپ کی مدھم ٹمٹماتی روشنی میں مَیں نے گھور گھور کر اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کیا۔ ایک بار جو ساری ہمت یکجا کرکے ذرا کڑک دار آواز میں پوچھا، کون ہے؟ تو جناب! میز باقاعدہ تیز چال میں چلتی ہوئی میرے قریب آنے لگی جیسے میری آواز سے مانوس ہو اب تو بھئی! مَیں نے لاکھ بہادر بننا چاہا لیکن آواز تک نہ نکل سکی اور مَیں گھبرا کر دروازہ کھول کر باہر بھاگی۔ باہر بارش کی وجہ سے پھسلن تھی اور مَیں صحن پار کرتی ہوئی.... اب آگے کیا بتاؤں....‘‘ ریشماں کی یہ خوفناک داستان ہم لوگ بہت خاموشی سے سن رہے تھے۔ اس کے چپ ہوتے ہی مَیں نے بے تابی سے پوچھا، ’’پھر کیا ہوا؟ بھوت پکڑا گیا نا؟‘‘
 ’’اجی بھوت کہاں... وہ تو اپنا جیکی تھا... وہی جھبرے بالوں والا کتّا... وہ بارش میں بھیگ کر سردی سے سکڑ کر میز کے نیچے چھپ گیا تھا لیکن میز پوش کے بہت نیچے ہونے کی وجہ سے نظر نہ آسکا تھا!‘‘ ریشماں کے چپ ہوتے ہی ہماری نظر غیر ارادی طور پر میز کی طرف چلی گئی۔ اب اس پر میز پوش نہیں تھا۔ ہم لوگ پھر بے تحاشا ہنسنے لگے اور ریشماں کی بزدلی کا خوب مذاق بنایا اور تبھی ہمیں احساس ہوا شام گہری ہوتی جارہی ہے اور بارش تیز... اور ذرا دیر میں ہماری یہ چھوٹی سی ہنسی مذاق کی محفل برخاست ہونے لگی چلتے چلتے میں نے ریشماں کو پھر شرمندہ کیا، ’’توبہ ہے تمہاری بزدلی کی۔‘‘ لیکن جب میں اپنے کمرے میں گئی تو خودبخود میری نظریں اپنی میز کی طرف چلی گئیں اور بغیر سوچے مَیں نے میز اور پلنگ کے نیچے ہلکے سے خوف کے ساتھ جھانک کر دیکھا.... نہ جانے کیوں؟ شاید میری دوسری سہیلیوں نے بھی ایسا ہی کیا ہو؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK