• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: نوجوان بادشاہ (دوسری اور آخری قسط)

Updated: October 06, 2023, 2:05 AM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف آئرش ادیب آسکر وائلڈ کی شہرۂ آفاق کہانی ’’دی ینگ کنگ‘‘ The Young King کااُردو ترجمہ۔ واضح رہے کہ اس کہانی کا پہلا حصہ ۶؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کے تعلیمی انقلاب میں شائع ہوا ہے۔ پڑھئے اس کا دوسرا حصہ:

Photo: INN
تصویر: آئی این این

کہانی کا دوسرا حصہ

اس کہانی کا پہلا حصہ پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کیجئے

’’نہیں،‘‘ موت نے جواب دیا، ’’جب تک تم مجھے اناج کا ایک دانہ نہیں دوگی مَیں نہیں جاؤں گی۔‘‘
 لیکن طمع نے اپنی مٹھی سختی سے بند کرلی اور دانت بھینچ لئے۔ ’’میں تمہیں کچھ نہیں دوں گی۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔موت نے ہنستے ہوئے ایک سیاہ پتھر اٹھایا، اور اسے جنگل میں پھینک دیا، اور پھر جنگلی جھاڑیوں سے بخار کے شعلے بلند ہوئے اور ہجوم سے گزرتے ہوئے اس نے جسے چھوا، وہ مرگیا۔ 
طمع کانپ گئی۔ اس نے اپنے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے کہا ’’تم ظالم ہو۔ دنیا کے مختلف شہروں میں قحط ہے۔ سمرقند کے حوض خشک ہیں۔ صحراؤں میں ٹڈیاں ہیں۔ پادریوں نے گناہگاروں پر لعنت بھیجی ہے۔ تم انہیں اپنا نشانہ بناؤ۔ وہاں تمہیں ڈھیر سارے لوگ مل جائیں گے۔ مجھے اور میرے نوکروںکو چھوڑ دو۔‘‘
’’نہیں،‘‘ موت نے جواب دیا، ’’جب تک تم مجھے اناج کا ایک دانہ نہیں دوگی مَیں نہیں جاؤں گی۔‘‘
’’میں تمہیں کچھ نہیں دوں گی،‘‘ طمع نے کہا۔
موت ہنسنے لگی۔ اس نے اپنی انگلیوں سے سیٹی بجائی، اور ایک عورت ہوا میں اڑتی ہوئی آئی جس کی پیشانی پر طاعون لکھا ہوا تھا۔ آسمان پر گدھوں کا جھنڈ چکر لگانے لگا۔ 
عورت نے اپنے پر پھیلائے اور اس وادی کا ایک بھی شخص زندہ نہیں بچا۔ طمع چیختی ہوئی وہاں سے بھاگ گئی۔ موت بھی اپنے سرخ گھوڑے پر بیٹھ کر سرپٹ دوڑی۔ 
وادی کے نچلے حصے سے طرح طرح کے جانور نکل آئے۔ وہ فضا میں چکراتے گدھوں کو دیکھ کر اندازہ لگانے لگے کہ لاشیں کس سمت میں ہیں۔ 
نوجوان بادشاہ نے روتے ہوئے پوچھا، ’’یہ لوگ کون تھے اور کس چیز کی تلاش میں تھے؟‘‘
’’بادشاہ کے تاج کیلئے یاقوت تلاش کررہے تھے۔‘‘ پیچھے سے آواز آئی۔ 
نوجوان بادشاہ نے پلٹ کر دیکھا تو ایک زائر (زیارت کرنے والا) ہاتھ میں چاندی کا آئینہ لئے کھڑا تھا۔ 
نوجوان بادشاہ کی رنگت زرد پڑگئی، اور وہ پوچھنے لگا، ’’کون سے بادشاہ کیلئے؟‘‘
زائر نے جواب دیا، ’’اس آئینے میں تمہیں اس کی شکل نظر آئے گی۔‘‘ 
نوجوان بادشاہ نے جب آئینے میں دیکھا تو اسے اپنا ہی عکس نظر آیا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، اور اس کی آنکھ کھل گئی۔

تاجپوشی والا دن
اس نے دیکھا کہ سورج کی کرنیں اس کے کمرے کو روشن کررہی ہیں، اور باغ میں پرندے خدا کی حمد و ثنا میں مصروف ہیں۔ 
وزراء، نوجوان بادشاہ کے کمرے میں آگئے۔ انہوں نے اسے سجدہ کیا، اور سونے کے تاروں کا لباس ، یاقوت کا تاج اور بڑے موتی والا عصا اسے پیش کیا۔
 نوجوان بادشاہ نے ان خوبصورت چیزوں کو دیکھا۔
 اُسے اپنے تینوں خواب یاد آگئے۔ اس نے وزراء سے کہا، ’’ان چیزوں کو میری نظروں سے دور کردو۔ مَیں انہیں کبھی نہیں پہنوں گا۔‘‘
درباری حیران رہ گئے۔ 
نوجوان بادشاہ نے سختی سے کہا، ’’ان چیزوں کو لے جاؤ۔ آج میری تاجپوشی کا دن ہے مگر میں کسی بھی چیز کو قبول نہیں کروں گا۔ یہ لباس غمزدہ اور مظلوم لوگوں نے تیار کیا ہے۔ اس یاقوت کا سرخ رنگ ہزاروں مزدوروں کے خون سے رنگا ہوا ہے۔ اس عصا کے موتی میں ایک مظلوم غلام کی موت پوشیدہ ہے۔‘‘ 
پھر اس نے اپنے تینوں خواب درباریوں کو سنائے۔ 
یہ سننے کے بعد وہ آپس میں سرگوشی کرنےلگے، ’’یہ لڑکا یقیناً پاگل ہے۔ خواب حقیقت نہیں ہوتے۔ خواب خواب ہوتے ہیں۔ ان پر غور و فکر نہیں کرنا چاہئے۔ ہمیں ان لوگوں کی زندگیوں سے کیا جو ہمارے لئے محنت کرتے ہیں؟ کیا آدمی اس وقت تک روٹی نہیں کھائے گا جب تک کہ وہ بیج بونے والے کو نہ دیکھ لے؟‘‘ 
وزراء نے نوجوان بادشاہ سے کہا، ’’میرے آقا! ہم گزارش کرتے ہیں کہ ان سیاہ خوابوں کو بھول جائیں اور یہ خوبصورت لباس پہن کر تاج اپنے سر پر رکھ لیں۔ ان چیزوں کے بغیر لوگوں کو کیسے معلوم ہوگا کہ آپ بادشاد ہیں؟ آقا! وہ آپ کو شاہی لباس کے بغیر نہیں پہچان سکیں گے۔‘‘
’’مجھے لگتا تھا کہ انسان اپنے کردار سے بادشاہ ہوتا ہے،‘‘ اس نے جواب دیا، ’’لیکن ہو سکتا ہے کہ تم سچ کہہ رہے ہو۔ مَیں بادشاہ نہیں بننا چاہتا۔ مَیں جس لباس میں محل میں آیا تھا، اسی میں یہاں سے نکل جاؤں گا۔ لوگ مجھے پہچان نہیں سکیں گے۔‘‘ 
پھر اس نے سبھی کو اپنے کمرے سے نکال دیا۔ صرف ایک لڑکے کو اپنے ساتھ رکھا جو اس سے صرف ایک سال چھوٹا تھا۔ غسل کے بعد اس نے اپنا پرانا صندوق کھولا اور کھال والا لباس پہن کر ایک کھردری چادر اوڑھ لی۔ ہاتھ میں چرواہے والی اپنی لاٹھی لے لی۔ 
دوسرا لڑکا اپنی بڑی بڑی نیلی آنکھوں سے نوجوان بادشاہ کو حیرت سے دیکھ رہا تھا، پھر اس نے مسکراتے ہوئے سوال کیا، ’’میرے آقا! مَیں آپ کا شاہانہ لباس اور عصا دیکھ سکتا ہوں لیکن تاج کہاں ہے؟‘‘
نوجوان بادشاہ نے کمرے کی بالکونی پر چڑھے ایک جنگلی بیل کا ایک حصہ توڑا، اسے موڑ کر دائروی شکل دی اور اسے اپنے سر پر رکھ لیا۔
’’یہ میرا تاج ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
پھر وہ دربار میں آیا جہاں سبھی اس کا انتظار کررہے تھے۔ اسے گڈریئے کی شبیہ میں دیکھ کر کچھ افراد کہنے لگے، ’’میرے آقا! لوگ اپنے بادشاہ کا انتظار کر رہے ہیں، اور آپ انہیں ایک فقیر دکھارہے ہیں۔‘‘ کچھ غضبناک ہوکر کہنے لگے، ’’اس لڑکے نے ہمارے ملک کی توہین کی ہے۔ یہ ہمارا آقا بننے کے لائق نہیں ہے۔‘‘ لیکن نوجوان بادشاہ جواب دیئے بغیر محل کی روشن راہداریوں سے گزرنے لگا۔ وہ کانسے کے اونچے اونچے دروازوں سے نکلا، اور اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر چرچ کی جانب چل پڑا۔ 
محل کے باہر موجود لوگ ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ ’’یہ بادشاہ کا مسخرہ ہے۔‘‘ انہوں نے اس کا خوب مذاق اڑایا۔اس نے گھوڑے کی لگام کھینچتے ہوئے کہنے لگا، ’’مَیں بادشاہ کا مسخرہ نہیں بلکہ بادشاہ ہوں۔‘‘ پھر اس نے انہیں اپنے تین خواب سنائے۔ 
دفعتاً ہجوم سے ایک شخص نکلا اور انتہائی ترش لہجے میں کہنے لگا، ’’جناب! کیا آپ نہیں جانتے کہ امیروں کی عیش و عشرت کی زندگی کی قیمت غریب ہی ادا کرتے ہیں؟ آپ کی شان و شوکت ہم سے ہے۔ آپ کی بری عادتیں ہمیں روٹی دیتی ہیں۔ ایک سخت حکمراں کیلئے محنت کرنا مشکل ضرور ہے لیکن محنت کرنے کیلئے کسی آقا کا نہ ہونا، اس سے بھی زیادہ تلخ ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کوے ہمیں روٹی کھلائیں گے؟ آپ کے پاس ان مسائل کا کیا حل ہے؟ کیا آپ قیمت خرید اور قیمت فروخت مقرر کریں گے؟ میرے خیال میں آپ ایسا نہیں کرسکیں گے۔ اس لئے اپنے محل میں واپس جایئے اور سونے کا لباس زیب تن کیجئے۔ آپ کو ہماری تکالیف سے کیا؟‘‘ 
’’کیا امیر اور غریب بھائی نہیں ہوسکتے؟‘‘ نوجوان بادشاہ نے افسردگی سے پوچھا۔
’’ہاں،‘‘ اس آدمی نے تلخی سے جواب دیا، ’’مگر امیر بھائی کا نام قابیل ہے۔‘‘
 یہ سن کر نوجوان بادشاہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں، اور وہ لوگوں کی بڑبڑاہٹ کے درمیان آگے بڑھتا چلا گیا۔ اس کے ساتھ جو لڑکا تھا، وہ خوفزدہ ہو کر ساتھ چھوڑ گیا۔
نوجوان بادشاہ جب چرچ کے عظیم الشان دروازے پر پہنچا تو سپاہیوں نے اسے دھکا دیتے ہوئے کہا، ’’تم یہاں کیا ڈھونڈ رہے ہو؟ اس دروازے سے بادشاہ کے سوا کوئی داخل نہیں ہوتا۔‘‘
نوجوان بادشاہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا، اور اس نے کہا، ’’مَیں بادشاہ ہوں۔‘‘ اور اُنہیں غضبناک نظروں سے دیکھتا ہوا چرچ میں داخل ہوگیا۔ 
جب بوڑھے پادری نے نوجوان بادشاہ کو چرواہے کے لباس میں دیکھا تو حیرت سے اپنے تخت سے اٹھا اور آگے بڑھتے ہوئے کہنے لگا، ’’بیٹا! کیا یہ بادشاہ کا لباس ہے؟ مَیں آپ کو کون سا تاج پہناؤں اور کون سا عصا دوں؟یہ آپ کیلئے خوشی کا دن ہونا چاہئے، ذلت کا نہیں۔‘‘ 

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا ترجمہ: راہ گیر (رے براڈ بری)

’’کیا خوشی وہی پہنے گی جو غم نے بنایا ہے؟‘‘ نوجوان بادشاہ نے پوچھا ۔ پھر اس نے پادری کو اپنے تین خواب سنائے۔
جب پادری نے یہ بات سنی تو اس کی پیشانی پر بل پڑگئے، پھر اس نے کہا، ’’میرے بیٹے! میں ایک ضعیف شخص ہوں۔میں جانتا ہوں کہ اس وسیع دنیا میں متعدد برے کام ہوتے ہیں۔ خوفناک ڈاکو پہاڑوں سے اترتے ہیں اور بچوں کو اغوا کرلیتے ہیں۔ انہیں بازاروں میں نیلام کیا جاتا ہے۔ شیر قافلوں کی تاک میں رہتے ہیں اور اونٹوں پر چھلانگ لگادیتے ہیں۔ جنگلی سور کھیتوں میں مکئی کی فصل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ لومڑیاں انگوروں کی فصل برباد کردیتی ہیں۔ قزاق ماہی گیروں کے جہازوں کو جلا دیتے ہیں اور ساحلوں کو ویران کردیتے ہیں ۔ نمکین دلدلوں کے کنارے کوڑھی بستے ہیں۔ کوئی بھی ان کے قریب نہیں جاتا۔ بھکاری شہروں میں گھومتے پھرتے ہیں اور کتوں کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ آپ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے کیا کرسکتے ہیں؟ کیا آپ کوڑھی کو اپنا ساتھی بنالیں گے اور فقیر کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھائیں گے؟ کیا شیر اور جنگلی سور آپ کی بات مانیں گے؟ ایک ہی ذات مصیبتوں کو مات دے سکتی ہے۔ آپ نے جو کیا، وہ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ محل واپس جائیں اور وہی لباس پہنیں جو آپ کیلئے بنایا گیا ہے۔ مَیں آپ کے سر پر یاقوت کا تاج رکھوں گا اور آپ کے ہاتھوں میں موتی کا عصا دوں گا۔ جہاں تک آپ کے خوابوں کا تعلق ہے، ان کے بارے میں زیادہ نہ سوچیں۔ اس دنیا کا بوجھ اتنا ہے کہ ایک آدمی اسے اکیلا نہیں اٹھا سکتا، اور دنیا کا غم اتنا بھاری ہے کہ ایک دل اس کی تکلیف نہیں برداشت کرسکتا۔‘‘ 
نوجوان بادشاہ، پادری کو عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ، اس کے پاس سے گزرتے ہوئے مسیح کی عظیم الشان تصویر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ تصویر کے نیچے رکھی میز پر سونے کے شاندار برتن، گلاسوں میں مشروبات اور مقدس تیل کی ایک شیشی رکھی ہوئی تھی۔ اس نے مسیح کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ شمع دان خالص چاندی کے تھے۔ ان میں بڑی بڑی موم بتیاں تھیں جن سے لوبان اور بخور کا دھواں نکل رہا تھا اور چاروں طرف پھیلتا جارہا تھا۔ 
اچانک گلی میں شور بلند ہوا۔ درباری اپنی تلواریں لہراتے ہوئے چرچ میں داخل ہوئے۔ ’’یہ خواب دیکھنے والا کہاں ہے؟‘‘ وہ چیخے، ’’چرواہوں کے لباس والا بادشاہ کہاں ہےجس نے ہمارے ملک کی شان و شوکت کو مٹی میں ملا دیا ہے؟ آج ہم اس کا قتل کردیں گے۔ وہ ہم پر حکومت کرنے کے لائق نہیں ہے۔‘‘
نوجوان بادشاہ نے فوراً پلٹ کر انہیں دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔ اس نے اپنا سر جھکا کر دعا کی۔ دعا کے بعد افسردگی کے عالم میں جب وہ پلٹا تو وہاں موجود تمام لوگ اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ 
چرچ کی پینٹ شدہ کھڑکیوں سے سورج کی روشنی نوجوان بادشاہ پر پڑ رہی تھی۔ سورج کی شعاعوں نے اس کے گرد ایسا ہالہ بنادیا تھا کہ اس کا چرواہے والا لباس، سونے کے لباس سے زیادہ خوبصورت محسوس ہورہا تھا۔ مردہ لاٹھی پر گل سوسن کھل اٹھے، جو موتیوں سے زیادہ سفید تھے۔ اس کے سر پر رکھے بیر کے کانٹوں میں پتیاں اور ننھے ننھے سرخ گلاب نکل آئے جو یاقوت سے زیادہ سرخ تھے۔ 
فقیر کے لباس والا نوجوان بادشاہ ایک عظیم الشان بادشاہ کے لباس میں کھڑا تھا۔ چاندی کے شمع دانوں میں موجود موم بتیوں کی لوئیں بھڑک اٹھیں، اور مزید روشن ہوگئیں۔ وہ بادشاہ کے لباس میں کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر جلال تھا۔ چرچ میں رکھے موسیقی کے آلات نے دنیا کی سب سے بہترین موسیقی چھیڑ دی۔ 
لوگ خوفزدہ ہو کر گھٹنوں کے بل گر پڑے۔ درباریوں کی تلواریں میانوں میں چلی گئیں اور وہ بھی سجدے میں گرگئے۔ پادری کا چہرہ خوف سے زرد پڑگیا اور ہاتھ کانپنے لگے۔
’’آپ کو ایک عظیم شخصیت نے تاج پہنایا ہے۔‘‘ وہ بلند آواز میں کہنے لگا اور اس نے بھی نوجوان بادشاہ کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔ 
 نوجوان بادشاہ، مسیح کی تصویر کے پاس سے اتر آیا اور لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہوا اپنے گھر کی جانب چل پڑا۔ لیکن ہجوم کے کسی بھی شخص میں اس کے چہرے کی طرف دیکھنے کی تاب نہ تھی کیونکہ اس کا چہرہ کسی فرشتے کی طرح شفاف اور معصوم تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK