• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

جیت

Updated: August 10, 2024, 3:13 PM IST | Masood Ansari | Mumbai

بڑی بہن سے دعوت حاصل کرنے کی جدوجہد پر مبنی کہانی۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

’’آپا جی! آخر آپ ہماری دعوت کریں گی بھی یا یوں ہی ٹال دینے کا ارادہ ہے؟‘‘ باجی نے ہم سب ’’چھوٹوں‘‘ کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ تم سب کیوں میرے پیچھے پڑ گئے ہو؟ کہہ تو دیا تھا کہ اب کوئی دعوت نہیں ہوسکتی.... کوئی موقع بھی تو ہو....!‘‘ آپا جی آسانی سے ’گلنے‘ والی تھوڑی ہیں۔ ’’موقع کیسے نہیں ہے؟ ’ڈگری‘ آئی ہے نا ہمارے گھر اور وہ بھی پہلی....!‘‘ مَیں بیچ میں ٹپک پڑا....
 ’’ارے! یہ ڈگری وگری کیا لگا رکھی ہے؟ اچھے بھلے گھر میں ایسی منحوس باتیں ہوا کرتیں۔ چپ رہو!‘‘ آپا جی نے کچھ اور ہی مطلب نکال لیا (ہمیشہ ہی مطلب کی بات ٹال جاتی ہیں۔)
 ’’آپا جی یہ وہ منحوس ’ڈگری‘ نہیں یہ تو آپ کی بی اے کی ڈگری ہے۔ ہاں! اور اس خوشی میں ’اچھے بھلے‘ گھر کو اور بھی ’اچھا بھلا‘ بنانے کیلئے ہی ہم آپ سے دعوت کے لئے کہہ رہے ہیں کیوں باجی؟‘‘ مَیں نے باجی سے تائید چاہی۔ ’’ہاں! ہاں!‘‘ باجی نے تائید کر دی۔
 ’’اچھا تو یہ بات ہے؟ صاف کیوں نہیں بتاتے ٹھہرو کان مروڑتی ہوں تمہارے۔ اس دن مٹھائی کاہے کی کھائی تھی؟ سند لے آئی تو جھپٹ پڑے سب کے سب ہی مجھ پر کہ آپا جی۔ پیاری ڈلاری آپا، مٹھائی کھلایئے، مٹھائی تو کھلا دی تھی، اب پھر پیچھے پڑے ہیں۔ دعوت کیجئے معاف رکھو بھیّا جی یہ دعوت نہیں ہوگی۔ نہیں ہوگی، ہرگز نہیں ہوگی....! آج کیا کوئی دوسرا نہیں ملا، جو میرے پیچھے پڑے ہو؟ خبردار....‘‘ اور پھر افوہ اتنی زور سے کان مروڑا ہے کہ بس چقندر میں اور اس میں کوئی فرق باقی نہیں رہ گیا۔

یہ بھی پڑھئے: سونے کا پہاڑ

اب وہاں سے اُٹھ نہ آتے تو پھر کیا کرتے؟ لیکن.... بھلا اتنی آسانی سے ’ٹلنے‘ والے تھے ہم؟ پکا ارادہ تھا جناب دعوت وصول کرنے کا اب یہ اور بات ہے کہ وہ ذرا دیر میں ’’گلتی‘‘ ہیں۔ ’’تو بھئی کچھ سوچا تم نے؟ آپا جی تو نرم ہونے والی نہیں۔‘‘ باجی میرے کمرے میں آتے ہی پوچھ بیٹھیں۔ ’’نہیں باجی.... اب تک تو کچھ پلے نہیں پڑا۔ مگر ہماری بھی ضد ہے کہ آپا جی سے دعوت کھائیں گے اور ضرور کھائیں گے.... کیوں....؟‘‘ مَیں ذرا جوش میں بول پڑا۔ ’’ہاں بھیّا.... کھائیں گے تو ضرور لیکن کچھ ترکیب تو سوچنی ہی پڑے گی۔ سیدھے سے تھوڑی کھلائیں گی وہ....‘‘ باجی نے بیٹھے بیٹھے نہ جانے اپنا دماغ کہاں اڑا دیا۔ کوئی ترکیب سوچ رہی تھیں شاید۔ مَیں بھی سوچنے لگا۔ لڈّو اور عذرا بھی ایک طرف گم صم نہ جانے کس خیال میں بیٹھے تھے انہیں بھی فکر تھی تو بس آپا جی سے دعوت ہی کھانے کی۔ ’’اونہہ.... باجی میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا اس وقت....؟‘‘ مَیں نے بہت دیر تک دماغ لڑانے کے بعد ہار سی مان لی۔
 ’’میرا بھی یہی حال ہے۔ چلو چلیں باہر۔ باغ میں جا کر بیٹھیں گے.... شاید کوئی ترکیب آہی جائے سمجھ میں....‘‘ اور پھر ہم چاروں چل دیئے باغ میں۔
 اِدھر اُدھر گھومتے حوض کے کنارے پہنچ گئے اچانک میری نظر ایک مڑے تڑے لال کاغذ پر پڑگئی۔ مَیں نے یوں ہی اسے اٹھا کر دیکھنا شروع کر دیا یہ تو ایک پرانا تار تھا آپا جی کی سہیلیوں کا۔ جبکہ انہوں نے ہمارے یہاں آنے کا پروگرام کینسل کیا تھا.... آنے کا وعدہ کرکے.... ٹیلی گرام کو باجی بھی غور سے دیکھنے لگیں.... اور پھر.... میرا دماغ یک بیک ’راکٹ‘ بن گیا۔ ’’ارے باجی! لایئے ہاتھ بڑی گریٹ ترکیب!‘‘ (مَیں نے سچ مچ ہی شاندار ترکیب سوچی تھی جناب! ایسا ویسا تھوڑی ہوں) ’’کیا؟‘‘ باجی نے نزدیک آکر پوچھا۔ اور بڑی دیر تک ہم میں آہستہ آہستہ گفتگو ہوتی رہی.... لڈّو اور عذرا بھی ہماری ترکیب بڑے غور سے سن رہے تھے.... جب ہم حوض کے کنارے سے اٹھے تو سب کے چہرے کھلے ہوئے تھے جیسے آپا جی کی دعوت کھا کر ہی اُٹھے ہوں۔ دوسرے دن ہم سب آپا جی کے ساتھ بیٹھے ادھر اُدھر کی گپیں ہانک رہے تھے کہ اتنے میں ’’لے جاؤ‘‘ کی آواز نے چونکا دیا.... مَیں دوڑا دوڑا گیا اور ایک لفافہ لئے اندر آگیا۔ آپا جی نے پوچھا، ’’کیا ہے بھئی؟‘‘
 ’’آپا جی.... یہ تو ٹیلی گرام ہے۔‘‘ مَیں نے لفافہ چاک کرتے ہوئے کہا، ’’پتہ نہیں کہاں سے آیا ہے لیجئے دیکھئے۔‘‘
 اور پھر آپا جی خوشی سے کھل اُٹھیں جیسے ’’چاند‘‘ ہی میں پہنچ گئی ہوں، ’’ارے! دیکھو تو شہناز، رخسانہ، شمیم اور وصیہ آرہی ہیں کل شام کی گاڑی سے.... انہوں نے ہی یہ ٹیلی گرام کیا ہے بمبئی سے۔‘‘
 ’’اچھا؟ پھر تو ہمیں اسٹیشن جانا ہوگا انہیں لینے؟‘‘ مَیں نے آپا جی سے پوچھا، ’’لیکن پچھلی دفعہ تو انہوں نے چکر دیا تھا؟ آنے کا ٹیلی گرام دیا تھا اور پھر گول کر گئیں!‘‘ ’’ہاں! انہیں اس وقت اچانک ہی رک جانا پڑا تھا۔ شہناز کی امی کی طبیعت جو خراب ہوگئی تھی۔ خیر یہ سب چھوڑو.... اب تو ہمیں ان کے لئے تیاری کرنی ہے۔‘‘ آپا جی یہ کہتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ مَیں نے آہستہ سے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا، آپا جی اپنا بکس کھولے کچھ نوٹ نکال رہی تھیں مَیں چپکے سے مسکراتا ہوا وہاں سے چلا آیا اور باجی کو یہ ’خوشخبری‘ سنا دی۔
 دوسرے دن صبح ہی سے آپا جی کچن میں بیٹھی حکم صادر فرما رہی تھیں مجھے بھی بار بار بازار جانا پڑا تھا.... اب یہ تو اندازہ ہو ہی گیا تھا کہ ذرا شاندار قسم کی تیاری ہورہی ہے اپنی سہیلیوں کے لئے۔ انہیں اب اپنے روپے خرچ ہونے کا ذرہ برابر بھی افسوس نہ تھا.... اپنی سہیلیوں کے لئے جو خرچ کر رہی تھیں ہمیں کیوں کھلاتیں؟ گھر کی مرغیاں دال برابر جو ہوئیں؟ ہاں تو جناب شام ہوتے ہوتے آپا جی کچن سے باہر نکلیں۔ اب اسٹیشن چلنے کی تیاریاں ہورہی تھیں، بڑا خوبصورت لباس پہن رکھا تھا۔ مَیں اور باجی بھی ساتھ ہوئے۔
 اِدھر آٹھ بجے اور ادھر بمبئی کی ٹرین آئی۔ آپا جی نے فرسٹ کلاس سے لے کر تھرڈ کلاس تک کے پورے ڈبے چھان مارے۔ ہم نے بھی مدد دی لیکن ان کی پیاری سہیلیاں نہ جانے کون سی اسپیشل کلاس میں بیٹھی تھیں۔ جو ملی ہی نہیں۔
 آپا جی کا چہرہ جو ابھی تک پھول کی طرح کھلا ہوا تھا۔ ایک دم مرجھا گیا ایک دم غم کے پچاسوں پہاڑ ساتھ ساتھ ان پر ٹوٹ پڑے تھے۔ ہم بھی ان کے ساتھ ہی منہ لٹکائے واپس آگئے۔ کیا کرتے؟ آپا جی کا ساتھ جو دینا تھا۔ ورنہ دل ہی دل میں پھول کر کپّا ہوئے جا رہے تھے۔ ہمیں کیا پڑی تھی؟ ان کی سہیلیوں سے ہمدردی کیا ہوسکتی ہے بھلا۔
 گھر آنے کے بعد آپا جی کے غصہ کا ٹمپریچر اونچا ہی ہوتا جارہا تھا۔ لیکن ممی کی ایک ہی ڈانٹ نے ٹھنڈا کرکے رکھ دیا ان کے غصے کو، ’’پہلے ہی کہا تھا کہ نہ کرو اتنا انتظام۔ مگر کہاں مانتی ہیں؟ اور اب چلی ہیں چھوٹے بہنوں بھائیوں کو ڈانٹنے۔ جیسا کیا ہے ویسا بھرو اب۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: بھنورا

میز پر سب ہی طرح کے ’لوازمات‘ رکھے تھے۔ اور آپا جی کے ہاتھ کا بنا ہوا خاص الخاص مزے دار انڈوں کا حلوہ بھی یہ سب ہمیں کھانے کی ’دعوت‘ دے رہے تھے یوں بھی.... وہاں ہمارے سوا کھانے والا تھا بھی کون؟ آپا جی تو غم ہی غم کھائے جا رہی تھیں پاپا اور ممی تو خیر ’بڑے‘ ہی ٹھہرے۔ بہرحال میں، باجی، لڈّو اور عذرا نے خوب ڈٹ کر ہاتھ صاف کئے۔ ’’کیوں بھئی رضیہ....؟ سنا ہے آج یہ سب تمہاری طرف سے پکا ہے کس سلسلہ میں؟‘‘ پاپا پوچھ ہی بیٹھے آپا جی سے۔
 ’’جی.... وہ.... وہ.... میری سہیلیاں آج بمبئی سے آنے والی تھیں انہوں نے ٹیلی گرام بھی کیا تھا، لیکن پھر پتہ نہیں کیوں نہیں آئیں.... مَیں نے اسی لئے پکوایا تھا یہ سب۔‘‘ آپا جی پھر کسی گہری سوچ میں ڈوب گئیں۔
 ’’اچھا! تمہاری سہیلیوں نے پہلے بھی تو ٹیلی گرام دیا تھا اور پھر نہیں آئی تھیں۔ مجھے بھی دکھانا ذرا۔ کہیں کسی نے شرارت نہ کی ہو۔‘‘ پاپا نے آپا جی کو فکر میں ڈوبی ہوئی دیکھ کر کہا۔
 ’’آپا جی نے فوراً اپنے پرس سے وہ ٹیلی گرام نکال کر پاپا کو دے دیا پاپا جی ایک دم چونک پڑے، ’’ہائیں! اس ٹیلی گرام پر تو پچھلے مہینے کی دس تاریخ پڑی ہوئی ہے! کون لایا تھا یہ؟‘‘
 ’’جی؟ پچھلے مہینے کی ۱۰؍ تاریخ؟ تو کیا یہ وہی ٹیلی گرام ہے جو شاہینہ نے پچھلے مہینے دیا تھا۔ لیکن اس پر لکھا تھا کہ ہم سب نہیں آسکیں گے، امی کی طبیعت خراب ہے! اور اس پر تو لکھا ہے ہم کل شام کی گاڑی سے آرہے ہیں۔ یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘ آپا جی حیرانی سے بول اٹھیں۔
 ہم زیادہ دیر تک اپنی ہنسی نہ روک سکے۔ آپا جی ہمیں قہر آلود نگاہوں سے گھورنے لگیں۔ ’’تو کیا یہ ان شیطانوں کی شرارت تھی؟‘‘ لیکن پاپا کے سامنے ہم پر ہاتھ نہ اٹھا سکیں۔
 باجی بھی پھٹ پڑیں، ’’پھر کیا کرتے؟ آپ کسی طرح پگھل ہی نہیں رہی تھیں تو ہم نے پچھلے ٹیلی گرام کی پرانی چٹ پھاڑ کر اس پر نئی چٹ ٹائپ کرکے چپکا دی تھی کہ ’’کل ہم آرہے ہیں‘‘ وہ منو کا دوست لا کر دے گیا اب چاہے ماریئے چاہے کچھ کیجئے! دعوت تو آپ کی طرف سے ہو ہی گئی۔‘‘ یکایک پاپا ہنس دیئے! آپا جی نے ایک نظر ہم پر ڈالی اور پھر خود بھی ہنس پڑیں.... اور کیا کرتیں؟ اپنی جھینپ اور شرمندگی جو مٹانی تھی سوائے اس کے چارہ بھی تو نہیں تھا کوئی ’جیت‘ تو بہرحال ہو ہی چکی تھی ہماری!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK