اس فلم کیلئےسب کچھ اُنہی کو کرنا تھا۔ اداکاری سکھانا، اسکرپٹ لکھنا، کیمرہ چلانا اور پروڈکشن کرنا۔ ہیرو اورہیروئن کی جگہ تیسرے درجے کے اسٹیج اداکار ہی دستیاب تھے۔ ہیروئن کے کردار کیلئے کوئی خاتون تیار نہیں تھی، یہاں تک کہ ایک طوائف نے بھی حقارت سےاس پیشکش کو ٹھکرادیا تھا۔بعد میں اے سالونکے نامی ایک مرد جو ایک ہوٹل کے باورچی کا معاون تھا، نے نسوانی کردار ادا کیا۔
ہندوستان میں بننے والی پہلی فیچر فلم ’راجہ ہریش چندر‘ جس کے خالق دادا صاحب پھالکے تھے۔ تصویر : آئی این این
ہمارے ملک میں ہر سال سیکڑوں فیچر اور دستاویزی فلمیں بنتی ہیں جن میں سے کچھ کامیاب ہوتی ہیں اور کچھ ناکام۔ آج کے دَور میں یہ ایک بڑی انڈسٹری کے طور پراپنی پہچان بنا چکی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اس بزنس کو حکومت نے ہنوز انڈسٹری کا درجہ نہیں دیا ہے، حالانکہ حکومت ہرسال فلمی خدمات کے اعتراف میں ایک بہت بڑا ایوارڈ ضرور دیتی ہے۔ یہ ایوارڈ دادا صاحب پھالکے سے منسوب ہے۔ آج ہم اس کالم میں دادا صاحب پھالکے پر ہی گفتگو کریں گے جنہیں ہندوستانی سنیما کا جنم داتا بھی کہا جاتا تھے۔
۳۰؍اپریل ۱۸۷۰ء کو دھنڈی راج گووِند پھالکے کا جنم ناسک شہر سے۲۹؍کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک قصبے تریمبکشور کے ایک برہمن خاندان میں ہوا تھا۔ اُن کے والد کا نام داجی شاستری پھالکے تھا جو بمبئی کے ولسن کالج میں سنسکرت پڑھاتے تھے۔ آبائی وطن ہی میں پھالکے کی ابتدائی تعلیم ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اپنے مخصوص خاندانی پس منظر کی وجہ سے ویدوں، پُرانوں، اُپنشدوں اور شاستروں کی بھی اچھی خاصی معلومات اُن کو حاصل ہو گئی تھی جو بعد میں دیومالائی قسم کی فلمسازی میں اُن کے بہت کام آئی۔ اُس کے بعد وہ اپنے والد کے پاس بمبئی پہنچ گئے اور ۱۵؍برس کی عمر میں ۱۸۸۵ء میں انہوں نے بمبئی کے جےجے اسکول آف آرٹس میں داخلہ لے لیا۔
۱۸۸۷ء میں بڑودہ کے کلابھون میں داخلہ کے ساتھ ہی انہیں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ رہائش اختیار کرنی پڑی۔ اُن دنوں کلابھون کے کرتا دھرتا پروفیسر گجر تھے جنہیں باصلاحیت فنکاروں کو تلاش کرنے کا بڑا شوق تھا۔ انہوں نے پھالکے کی صلاحیتوں کو پہچان کر کلابھون کے فوٹوگرافک اسٹوڈیو کی ذمہ داری اُنہیں سونپ دی۔ اس کا پورا فائدہ پھالکے نے اُٹھایا اور وہاں کے کتب خانے سے بھی اُن کو فیض حاصل ہوا۔
یہ بھی پڑھئے:آئی ایف ایف ایم ۲۰۲۴ء: ٹویلتھ فیل بہترین فلم، کارتک آرین بہترین اداکار
اسی دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب پھالکے کی عمر تقریباً ۴۰؍ برس کی ہوگی، جب فائن پرنٹنگ کا ان کا کاروبار بالکل ختم ہو گیا۔ بے دِلی کے عالم میں وہ ۱۹۱۰ء میں ایک دن اپنے چند دوستوں کے ساتھ کرسمس شو دیکھنے گئے۔ وہاں اس دن خصوصی طور پر امریکہ کی ایک فلم ’لائف آف کرائسٹ‘ دکھائی گئی تھی۔ پھالکے کیلئے اس طرح کی فلم دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ وہ اس کرشمے سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے اُسی وقت دل میں یہ ٹھان لیا کہ وہ بھی اسی طرز پر رامائن اور مہابھارت کی کہانیوں اور کرداروں پر فلمیں بنائیں گے۔ انہیں اس بات کر اُکسانے کیلئے کئی عوامل تھے۔ جیسے یہ کہ وہ برہمن تھے اور دیومالائی کہانیوں سے واقف تھے، جے جے اسکول آف آرٹس میں تخلیقی فن کی تعلیم حاصل کی تھی، جہاں انہوں نے مصوّری کے علاوہ اسٹیج کی سجاوٹ اور تھوڑی بہت جادوگری بھی سیکھی تھی۔ اس کے بعد بڑودہ کے کلابھون میں انہوں نے نہ صرف فوٹوگرافی کی تعلیم حاصل کی تھی بلکہ فوٹوگرافی میں استعمال ہونے والے کیمیکل پر کئی تجربات بھی کئے تھے۔ اُنہی دنوں کتابوں کی ایک دُکان میں دادا صاحب پھالکے کو ایک انگریزی کتاب ’دی اے بی سی آف سنیماٹوگرافی‘ حاصل ہو گئی مگر وہ ان کی زیادہ مدد نہ کر سکی۔ پھر بھی انہوں نے اس کو بار بار پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی اور اس طرح بہت سی تکنیکی باتیں اُن کی سمجھ میں آگئیں اور فلمسازی کا اُن کا شوق شدّت اختیار کرتا گیا۔ فلمسازی کے میدان میں آنے کے بعد یہ سارے عوامل ان کے بہت کام آئے۔
بڑودہ سے واپسی پر ان کی شادی ہو گئی اور آئندہ چند برسوں تک زندگی گزارنے کیلئے پھالکے کو فوٹوگرافی اور ناٹک کمپنیوں کیلئے مناظر کی تصویرکشی کرنے کا کام کرنا پڑا۔ ۱۹۰۳ء میں انہوں نے حکومت کے شعبۂ آثار قدیمہ میں فوٹوگرافر اور ڈرافٹ مین کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔ اسی دوران وہ اپنے شوق کی تسکین کیلئے تصویروں کے ہاف ٹون بلاک بنانے کا کام بھی کرتے رہے۔ ایک بار مشہور مصوّر راجہ روی ورما کی تصویروں کے ہاف ٹون بلاک بنانے پر ان کو بمبئی کی ایک نمائش میں چاندی کا تمغہ بھی انعام میں ملا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے بلاک بنانے اور پرنٹنگ کا کام شروع کر دیا۔ اس کامیابی کے بعد انہوں نے ’لکشمی آرٹ پرنٹنگ ورکس‘ کے نام سے فائن پرنٹنگ کا کام شروع کیا۔ ان سب کامیابیوں سے حوصلہ پاکر وہ تین کلر میں چھپائی کی غرض سے جدید مشینیں خریدنے کیلئے ۱۹۰۹ء میں جرمنی چلےگئے۔ وہاں جانے کے بعد ایک سال تک وہ مختلف سنیما گھروں کے چکر لگاتے رہے اور نئی نئی ایجادات کی تکنیکی باریکیوں کا جائزہ لیتے رہے۔ انہوں نے پانچ ڈالر کی قیمت سے ایک کیمرہ بھی خریدا جس سے وہ مختلف مواقع کی تصویریں بھی اُتارتے رہے۔
وہاں سے واپس آنے کے بعد اگلے ایک سال میں لگاتار بیس بیس گھنٹے کام کرتے ہوئے انہوں نے ایک ڈاکیومینٹری فلم ’مٹر کے بیج کا وِکاس‘ یعنی ارتقاء کی تخلیق کی۔ اس کیلئے انہوں نے ایک گملے میں مٹر کا ایک بیج بویا اور ہر دن کے حساب سے اس کی ایک تصویر اُتارتے چلے گئے۔ بعد میں سب تصویروں کو جوڑکر انہوں نے یہ دستاویزی فلم تیار کی تھی۔ اس فلم کی بنیاد پر انہیں کچھ قرضہ مل گیا اور کچھ پیسہ انہوں نے اپنی لائف بیمہ پالیسی کو رہن رکھ کر حاصل کیا، اس طرح یکم فروری ۱۹۱۲ء کو دادا صاحب پھالکے فلمسازی سے متعلق جانکاری حاصل کرنے اور اِس کیلئے ساز و سامان خریدنے انگلینڈ چلے گئے۔
اس سفر کے دو ماہ بعد جب پھالکے انگلینڈ سے واپس آئے تو ان کے پاس وِلیم سَن کیمرہ، ایک پروجیکٹر، ایک پرنٹنگ مشین اور فلمسازی سے متعلق وہاں کی تکنیکی جانکاری اور تجربہ بھی ساتھ تھا۔ وہ ہندوستان کے پہلے’فارین ریٹرن‘ فلمی تکنیک کار بھی بن گئے۔ ہندوستان واپس آکر انہوں نے مزید پونجی حاصل کرنے کیلئے بیوی کے گہنے گروی رکھے۔ اس طرح انہوں نے ملک کی پہلی خاموش فیچر فلم ’راجہ ہریش چندر‘ کا کام شروع کر دیا۔ اس فلم کیلئےسب کچھ اُنہی کو کرنا تھا۔ لوگوں کو اداکاری سکھانا، اسکرپٹ لکھنا، کیمرہ چلانا اور پروڈکشن کرنا۔ خوبصورت ہیرو ہیروئنوں کی جگہ تیسرے درجے کے اسٹیج اداکار ہی دستیاب تھیں۔ ہیروئن کے کردار کیلئے کوئی خاتون تیار نہیں تھی، یہاں تک کہ ایک طوائف نے بھی حقارت سےاس پیشکش کو ٹھکرادیا تھا۔ اسلئے بعد میں اے سالونکے نامی ایک مرد جو ایک ہوٹل کے باورچی کا معاون تھا، نے یہ نسوانی کردار ادا کیا۔
برسات کا موسم ختم ہوتے ہی پھالکے نے دادر کے مین روڈ پر واقع متھرا بھون میں اپنا اسٹوڈیو بنایا اور سیٹ تیار کراکے فلمسازی کا کام شروع کر دیا۔ فلم ’راجہ ہریش چندر‘ پہلی بار چند مخصوص لوگوں کو ۲۱؍اپریل ۱۹۱۳ء کو بمبئی کے اولمپیا سنیما میں دکھائی گئی۔ اس کے بعد ۳؍مئی ۱۹۱۳ء کو یہ فلم بمبئی کے کارونیشن تھیٹر میں عوامی سطح پر نمائش کیلئے پیش کی گئی تھی۔ اس فلم کی لمبائی ۳۷۰۰؍فٹ تھی جو چار ریلوں کے ذریعہ لگ بھگ سوا گھنٹے میں دکھائی گئی تھی۔ اس فلم کو بنانے میں دادا صاحب پھالکے کو تقریباً آٹھ ماہ کا وقت لگا تھا۔ پہلی بار۲۳؍دنوں تک ایک ہی سنیما ہال میں لگاتار چل کر اس فلم نے ایک ریکارڈ بنایاتھا۔
اپنی پہلی فلم ’راجہ ہریش چندر‘ بمبئی میں بنانے کے باوجود دادا صاحب پھالکے چند دوسری پریشانیوں کی وجہ سے بمبئی میں فلمسازی کرنے میں دِقّت محسوس کر رہے تھے، حالانکہ بمبئی میں فلمسازی سے متعلق ساز و سامان آسانی سے دستیاب ہو سکتا تھا۔ انہیں لگا کہ یہ کام ناسک میں زیادہ اطمینان سے ہو سکتا ہے۔
ناسک شہر کے جنوبی حصہ میں ان کو ایک ایسی جگہ مل گئی جہاں شہروں والی بھیڑ بھاڑ نہیں تھی۔ بڑا ہی پُرسکون ماحول تھا۔ وہ شری بھاوے نامی ایک شخص کی ملکیت تھی۔ مختلف قسم کے درختوں کی وجہ سے وہ جگہ کافی پُرکیف لگتی تھی۔ شری بھاوے نے پھولوں کا ایک باغیچہ اور اس کے درمیان میں ایک فوارہ بھی بنوا دیا تھا۔ دادا صاحب پھالکے نے یہ جگہ کرائے پر حاصل کر لی اور وہیں اپنا اسٹوڈیو قائم کیا۔ فوارے اور حوض کی وجہ سے یہ جگہ ’حوض کا بنگلہ‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔
دادا صاحب پھالکے نے فلمسازی کیلئے ’حوض کا بنگلہ‘ والی جگہ پر بہت سی تبدیلیاں کرائیں۔ اپنی کمپنی کا صدر دفتر، فلم پروسیسنگ کیلئے لیبارٹری اور شوٹنگ میں استعمال ہونے والے مور، طوطے، ہرن، خرگوش اور بندر جیسے چرند پرند پالنے کیلئے الگ انتظام کیا۔ ایک کھلی جگہ میں اُنہوں نے محل اور آشرم کے سیٹ بھی بنوائے کیونکہ اس زمانے میں فلموں کی شوٹنگ سورج کی روشنی میں ہی ہوا کرتی تھی۔ کل ملاکر پھالکے نے اس جگہ کو کافی خوشنما بنا دیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے:اے آر رحمان کو ۷؍ واں نیشنل ایوارڈ، سب سے زیادہ مرتبہ قومی ایوارڈ جیتنے والی فلمی شخصیت
دادا صاحب پھالکے نے اپنی پہلی فلم کی کامیابی سے حوصلہ پاکر اُسی سال اپنی دوسری فلم ’بھسماسُر موہنی‘ بنائی۔ اس فلم میں نسوانی کردار ادا کرنے کیلئے انہیں دو خاتون بھی مل گئیں۔ اس فلم میں پہلی بار پاروتی کا کردار دُرگا بائی گوکھلے اور موہنی کا کردار اُن کی بیٹی کملا بائی گوکھلے نے ادا کیا تھا۔ کملا گوکھلے آج کے مشہور کریکٹر ایکٹر وکرم گوکھلے کی دادی تھیں۔ کملا بائی گوکھلے کے شوہر رگھوناتھ گوکھلے بھی اسٹیج پر اداکاری کرتے تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے کئی ناٹکوں میں نسوانی کردار ادا کئے تھے جبکہ کملابائی گوکھلے کئی ناٹکوں میں مردانہ کردار ادا کر چکی تھیں۔ یہ لوگ مہاراشٹر کے کوکن علاقے کے رہنے والے تھے۔ کملابائی گوکھلے کے بیٹے اور وکرم گوکھلے کے والد چندرکانت گوکھلے ۸۷؍ برس کی عمر تک اداکاری کرتے رہے۔
دادا صاحب پھالکے کی یہ فلم ’بھسماسُر موہنی‘ ۱۹۱۶ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بعد ۱۹۱۷ء میں ان کی بنائی دو فلمیں ’ستیہ وان ساوتری‘ اور’لنکادہن‘ ریلیز ہوئیں۔ فلم ’لنکادہن‘ میں اےسالونکے سے رام اور سیتا، دونوں کے کردار ادا کراکے پھالکے نے ایک طرح سے ’ڈبل رول‘ کا تجربہ کیا تھا۔ بمبئی کے ’ویسٹ اینڈ سنیما‘ میں دس دن چل کر ۳۲؍ہزار روپے کی آمدنی سے اس فلم نے باکس آفس پر کامیابی کا پہلا ریکارڈ بھی قائم کیا تھا۔
اِن دونوں فلموں ہی نے ہندوستانی عوام کا دل جیت لیا تھا۔ اس کے بعد پھالکے صاحب نے اپنی کامیابی سے حوصلہ پاکر ۱۹۱۸ء میں فلم ’دی برتھ آف شری کرشن‘ بنائی۔ اس کے ایک برس بعد ہی انہوں نے اپنی بیٹی منداکنی کو ہیروئن لے کر فلم ’کالیامردن‘ ۱۹۱۹ء میں پیش کی۔ اس سال انہوں نے کل ملاکر تین فلمیں بنائیں۔ اسی درمیان انہوں نے ایک دستاویزی فلم ’ہائو فلمز آر میڈ‘ بنائی تھی، جس میں پہلی بار فلمسازی کی تکنیک پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی تھی۔ دادا صاحب پھالکے کی بنائی زیادہ تر دھارمک فلموں کی کامیابی اور ان کی طرف فلم بینوں کی توجہ کی خاص وجہ اُن فلموں میں جادو، چمتکار اور کرشموں کے ایسے مناظر کی بھرمار ہوتی تھی جو ٹرِک فوٹوگرافی سے تیار کئے جاتے تھے۔ ایسے مناظر کو دیکھ کر لوگ حیران رہ جاتے تھے اور بار بار ایسے ہی مناظر دیکھنا چاہتے تھے۔ اس ٹرِک فوٹوگرافی کے تجربے کیلئے انہوں نے ’دی میجک آف پروفیسر کیلفا‘ نام کی ایک فلم بھی بنائی تھی۔ کیلفا خود پھالکےکو ہندی میں اُلٹا لکھنے سے بنتا ہے۔
۱۹۱۸ء میں چند دوسرے ساجھی داروں کو شامل کرکے دادا صاحب نے ’پھالکے فلمز‘ کی جگہ ایک نئی ’ہندوستان فلم کمپنی‘ قائم کی اور اس کے بینر تلے فلم ’شری کرشن جنم‘ بنائی۔ یہ فلم کافی کامیاب رہی۔ ۱۹۱۷ء میں جنم اشٹمی کے دن یہ فلم مجیسٹک تھیٹر میں ریلیز ہوئی تھی اور زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق ۱۹۳۱ء تک اس ایک ہی فلم نے کل تین لاکھ روپے کمائے تھے، جو اُن دنوں کے حساب سے بہت زیادہ آمدنی تھی۔ ان کی اگلی فلم ’کالیامردن‘ بھی کامیاب رہی تھی۔ اس فلم میں پھالکے کی ٹرِک فوٹوگرافی کے مناظر نے فلمی دنیا میں دھوم مچا دی تھی۔ اُن کی فلموں میں کرشن کا کالیا ناگ سے لڑنا، ہنومان کا آسمان میں اُڑنا اور اُن کی پونچھ کے ذریعہ لنکا میں آگ لگانا جیسے مناظر نے پھالکے کو ٹرِک فوٹوگرافی کے لئے الگ سے ایک نئی پہچان دلائی تھی، لیکن چند برسوں میں ہی شراکت داروں سے تال میل ٹھیک نہ بیٹھنے کی وجہ سے دادا صاحب پھالکے ۱۹۲۱ء میں اس نئی کمپنی سے الگ ہوکر بنارس چلے گئے اور وہاں رہ کر ہی ناٹک لکھنے شروع کر دئیے تھے۔
پانچ برس بنارس میں رہ کر جب وہ واپس بمبئی آئے تو فلمی دنیا کا طرزِ زندگی ہی بدل چکا تھا۔ اس درمیان کلکتہ میں ’کوہ نور‘ اور بمبئی میں ’مہاراشٹر فلم کمپنی‘ تیزی سے امریکی فلموں کی نقل میں فلمیں بنا رہی تھیں لہٰذپھالکے اس نئے ماحول میں خود کو زیادہ بہتر محسوس نہ کر سکے۔ ۱۹۲۴ء سے ۱۹۳۰ء تک وہ اپنے کام میں پوری محنت اور لگن سے لگے رہے۔ اپنی دیومالائی فلموں کے ذریعہ انہوں نے ذات، برادری، چھواچھوت، توہم پرستی اور فرقہ پرستی کے خلاف انتہائی ترقی پسندانہ طرز پر کام کیا۔ ان کی اس روایت کو بعد میں بھال جی پنڈھاکر اور وی شانتارام جیسے باصلاحیت فلمسازوں نے بھی قائم رکھا۔ خاموش فلموں کا یہ سنہرا دور تھا۔ اس کے بعد ۱۴؍مارچ ۱۹۳۱ء کو ہندوستان کی پہلی متکلم فلم ’عالم آراء‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم کو فلمساز و ہدایتکار آرڈیشر ایرانی نے پیش کیا تھا۔
دادا صاحب نے ۱۹۳۲ء میں اپنی آخری خاموش فلم ’سیتو بندھ‘ بناکر اپنے آپ کو اس کاروبار سے الگ کر لیا۔ کافی عرصے تک وہفلمی دنیا سے الگ تھلگ رہے۔ اس کی وجہ سے ان کے مالی اور گھریلو حالات بھی خراب ہوتے چلے گئے۔ ۱۹۳۷ء میں کولہا پور سِنے ٹون نے انہیں اپنی مراٹھی اور ہندی میں ایک ساتھ بننے والی فلم’گنگا وترن‘ کی ہدایت کی ذمہ داری کے ساتھ مکالمے لکھنے اور موسیقی تیار کرنے کا کام بھی سونپا۔ اس فلم میں دادا صاحب نے ایک بار پھر اپنی ٹرِک فوٹوگرافی کے جلوے دکھائے۔ یہ فلم اُن کی پہلی اور اِکلوتی متکلم فلم ثابت ہوئی۔
ہندوستانی سنیما کے اس جنم داتا نے اپنی زندگی کے آخری چند سال نہایتکسمپرسی کے عالم میں گزارے۔ اُن کے آخری دِنوں کا ایک واقعہ جو فلمساز وہدایتکار پنڈت کیدار شرما نے ایک بار سنایا، وہ یہ تھا کہ ایک دِن بمبئی کے رنجیت اسٹوڈیو کے باہر دادا صاحب پھالکے خاکی پینٹ اور ایک ڈھیلی ڈھالی سی قمیص پہنے کھڑے تھے۔ کیدار شرما جب اسٹوڈیو سے باہر نکلے تب پھالکے نے پہلے تو اُن کے کام اور فلمسازی میں ان کے ہنر کی تعریف کی اور پھر کہا کہ کیا وہ اپنے اسٹوڈیو میں اُن کو کوئی کام دِلوا سکتے ہیں ؟ یہاں تک کہ پھالکے صاحب اسٹوڈیو میں کیمرے صاف کرنے اور اُن میں تیل ڈالنے تک کے لئے تیار تھے۔
کیدار شرما نے ان کو اسٹوڈیو کے مالک چندو لال شاہ کے پاس بھیج دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سیٹھ چندو لال شاہ نے نہ صرف یہ کہ انہیں کام دینے سے انکار کر دیا بلکہ چو کیدار سے کہہ کر انہیں اسٹوڈیو کے باہر بھی نکلوا دیا۔ یہ وہی پھالکے تھے جنہوں نے ہندوستان جیسے بڑے ملک میں فلم انڈسٹری کی بنیاد کی پہلی اینٹ رکھی تھی اور اس کام کیلئے اپنی بیوی کے گہنے اور مکان تک بیچ ڈالا تھا۔ بعد میں اس پورے منظر کو گرودت نے اپنی بے مثال فلم ’کاغذ کے پھول‘ میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا تھا اور رشی کیش مکرجی نے اپنی شاہکار فلم’گڈی‘ میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔ کچھ اسی طرح کا حال فلمی دنیا کے ایک اور بڑے ستون بابورائو پینٹر کا بھی ہو اتھا۔ بعد میں چندولال شاہ کے بارے میں بھی سنا گیا کہ وہ بھی اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اپنے ہی اسٹوڈیو کے باہر اپنی بنائی ہوئی فلموں کے فوٹو اور پوسٹر بیچتے ہوئے پائے گئے تھے۔
آج دادا صاحب پھالکے کے نام پر قائم ہندوستان کے سب سے بڑے فلمی اعزاز ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ کو حاصل کرکے ہمارے فلمی دُنیا کے لوگ اپنے آپ پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ اعزاز فلمی دنیا میں اپنی زندگی کے بیش قیمت ماہ و سال گزارکر کچھ کر گزرنے والے فنکاروں کو دیا جاتا ہے۔ ۱۹۷۰ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ حکومت نے قائم کیا تھااور اس سال یہ پہلا ایوارڈ حاصل کرنے والی ایک خاتون اداکارہ دیویکا رانی تھیں۔ حکومت کے محکمۂ ڈاک تار نے دادا صاحب پھالکے کے ۱۰۰؍ویں جنم دن کے موقع پر ۳۰؍اپریل ۱۹۷۱ء کو ایک خصوصی ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔ بمبئی میں دادر علاقے کی ایک سڑک کا نام بھی اُن سے منسوب ہے۔ انہوں نے تقریباً ۲۰؍ فیچر اور۹۷؍ دستاویزی فلمیں بنائیں مگر ان کی مالی حالت ہمیشہ خستہ ہی رہی۔ ۷۱؍برس کی عمر میں ۱۶؍ فروری ۱۹۴۴ء میں دادا صاحب پھالکے کا انتقال ہو گیا تھا۔
دادا صاحب پھالکے ایوارڈ پانے والوں کی فہرست
۱۹۶۹ء دیویکا رانی
۱۹۷۰ء بریندر ناتھ سرکار
۱۹۷۱ء پرتھوی راج کپور
۱۹۷۲ء پنکج ملک
۱۹۷۳ء روبی میئرس
۱۹۷۴ء بی این ریڈی
۱۹۷۵ء دھیریندر گنگولی
۱۹۷۶ء کنن دیوی
۱۹۷۷ء نتن بوس
۱۹۷۸ء رائے چند بورل
۱۹۷۹ء سہراب مودی
۱۹۸۰ء پی جے راج
۱۹۸۱ء نوشاد
۱۹۸۲ء ایل وی پرساد
۱۹۸۳ء درگا کھوٹے
۱۹۸۴ء ستیہ جیت رے
۱۹۸۵ء وی شانتا رام
۱۹۸۶ء بی این ریڈی
۱۹۸۷ء راج کپور
۱۹۸۸ء اشوک کمار
۱۹۸۹ء لتا منگیشکر
۱۹۹۰ء اے این راؤ
۱۹۹۱ء بھالجی پنڈھارکر
۱۹۹۲ء بھوپن ہزاریکا
۱۹۹۳ء مجروح سلطانپوری
۱۹۹۴ء دلیپ کمار
۱۹۹۵ء راجکمار(کنڑ)
۱۹۹۶ء شیواجی گنیشن
۱۹۹۷ء کوی پردیپ
۱۹۹۸ء بی آر چوپڑہ
۱۹۹۹ء رشی کیش مکھرجی
۲۰۰۰ء آشا بھوسلے
۲۰۰۱ء یش چوپڑہ
۲۰۰۲ء دیو آنند
۲۰۰۳ء مرنال سین
۲۰۰۴ء ادور گوپال کرشنن
۲۰۰۵ء شیام بینیگل
۲۰۰۶ء تپن سنہا
اس کے بعد منا ڈے، وی کے مورتھی، ڈی راما نائیڈو، کے بالا چندر، سومترا چٹرجی، پران، گلزار، ششی کپور، منوج کمار، کے وشوناتھ، ونود کھنہ، امیتابھ بچن، رجنی کانت، آشا پاریکھ اور وحیدہ رحمان کو یہ ایوارڈ ملا۔