ایک حالیہ انٹرویو میں ’’دوسرا آدمی‘‘ اور ’’صاحبان‘‘ جیسی فلموں کے ہدایتکار رمیش تلوار نے کہا کہ سلیم جاوید اپنے دور کے کامیاب اسکرپٹ رائٹر تھے۔ تاہم، ان کی علاحدگی کے بعد سلیم خان صاحب کو لگتا تھا کہ ’’سلیم جاوید‘‘ کو توڑنے میں میرا ہاتھ ہے۔
EPAPER
Updated: September 01, 2024, 7:41 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ایک حالیہ انٹرویو میں ’’دوسرا آدمی‘‘ اور ’’صاحبان‘‘ جیسی فلموں کے ہدایتکار رمیش تلوار نے کہا کہ سلیم جاوید اپنے دور کے کامیاب اسکرپٹ رائٹر تھے۔ تاہم، ان کی علاحدگی کے بعد سلیم خان صاحب کو لگتا تھا کہ ’’سلیم جاوید‘‘ کو توڑنے میں میرا ہاتھ ہے۔
سلیم خان اور جاوید اختر (معروف: سلیم جاوید) نے ۱۹۸۲ء میں اپنی راہیں جدا کر لی تھیں۔ اس کے بعد سلیم خان نے اسکرپٹ لکھنے کا اپنا سفر جاری رکھا جبکہ جاوید اختر نے اسکرپٹ اور نغمہ نگاری کے اپنے کریئر میں توازن قائم کیا۔ تاہم، حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ جاوید اختر نے اپنے انفرادی کریئر کا آغاز اسی وقت کردیا تھا جب وہ سلیم خان کے ساتھ شراکت میں تھے۔ فلمساز رمیش تلوار، جو ۱۹۶۹ء سے ۱۹۷۹ء تک یش چوپڑا کی مدد کرنے اور ’’دوسرا آدمی‘‘ اور ’’صاحبان‘‘ جیسی فلموں کی ہدایتکاری کیلئے جانے جاتے ہیں، نے کہا کہ سلیم جاوید ’’دوستانہ‘‘ کے وقت یش جوہر کے ساتھ قانونی لڑائی لڑ رہے تھے۔ اس کے باوجود جاوید اختر نے یش جوہر کیلئے انفرادی طور پر فلم لکھنے کی پیشکش کی تھی۔
یہ بھی پڑھئے:’جی لے ذرا‘ کی شوٹنگ پرینکا، عالیہ اور کترینہ کی تاریخیں ملنے پر شروع ہوگی: زویا اختر
ٹائمز آف انڈیا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، رمیش تلوار نے جاوید اختر کے متعلق بتایا کہ انہوں نے تنہا کام کرنے کیلئے اپنی فیس نصف تک کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اسی فیصلے کے تحت وہ یش جوہر کی دہلیز پر آئے تھے۔ اتفاق سے یہ قریب قریب ایک ہی وقت تھا جب ’’دوستانہ‘‘ کے حوالے سے یش جوہر اور سلیم جاوید کے درمیان قانونی جنگ چل رہی تھی۔ رمیش تلوار نے کہا کہ ’’اس وقت امیتابھ بچن نے اپنی فیس ۲۵؍ لاکھ تک بڑھا دی تھی، تو سلیم جاوید نے اپنی فیس ۲۱؍ لاکھ کردی۔ کوئی بھی انہیں ۲۱؍ لاکھ دینے کو تیار نہیں تھا۔ جب بھی کوئی ان کی فیس پر گفت و شنید کرنے کو کہتا تو وہ کہتے کہ ان کے ساتھ کام نہ کریں۔ وہ مغرور ہو چکے تھے۔ پھر جاوید صاحب نے اپنی فیس نصف کر دی۔ میرا خیال ہے کہ وہ اس وقت ۱۰؍ سے ۱۱؍ لاکھ روپے لیتے تھے۔ انہوں نے اس کا بھی نصف کردیا اور نغمہ نگاری پر بھی رضامندی ظاہر کی۔ ان کا اس وقت یش جوہر کے ساتھ ’’دوستانہ‘‘ کا عدالتی مقدمہ بھی چل رہا تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’لیکن یش جوہر نے سوچا کہ وہ سلیم جاوید کے جاوید اختر کو حاصل کر رہے ہیں اس لئے انہوں نے مجھ سے جاوید صاحب سے ملاقات کا بندوبست کرنے کو کہا۔ میں نے کہا کہ میں ملاقات کا انتظام کروں گا لیکن میٹنگ میں شرکت نہیں کروں گا۔ لہٰذا میں نہیں جانتا کہ اس ملاقات میں کیا ہوا لیکن اس کے بعد کے حالات سے آپ واقف ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے:وہ ۳؍ فلمیں جنہیں نہ کرنے پر دلیپ کمار نے اظہارِ افسوس کیا تھا
بالآخر سلیم اور جاوید الگ ہو گئے اور انفرادی طور پر کام کرنے لگے۔ انڈسٹری کے زیادہ سے زیادہ لوگ جاوید اختر کے ساتھ کام کرنے لگے۔ دھرمیندر نے جاوید سے سنی دیول کی لانچ میں مدد کرنے کو کہا تھا۔ انہوں نے دلیپ کمار کی ’’دنیا‘‘ اور یش چوپڑا کی ’’مشعل‘‘ بھی لکھیں۔ رمیش تلوار نے مزید کہا کہ ’’ایک فلم کیلئے جیتندر اور سری دیوی کی تاریخیں لی گئی تھیں۔ میں نے سلیم صاحب سے پوچھا کہ کیا کوئی اسکرپٹ ہے؟ اس وقت جاوید صاحب تنہا ہی ’’دنیا‘‘ سائن کر چکے تھے۔ سلیم صاحب کے پاس پوری اسکرپٹ نہیں تھی لیکن انہوں نے جو کچھ تیار کیا تھا وہ مجھے سنایا۔ تاہم، فلم نہیں بن سکی۔ میں اس وقت ’’صاحبان‘‘ بنا رہا تھا۔ فلم کے پروڈیوسر ڈی کے چاؤلہ نے مجھے بتایا کہ وہ سلیم خان کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں اور سلیم اپنے بیٹے سلمان خان کو ہیرو کے طور پر کاسٹ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک بار پھر، میں نے ان سے کہا کہ میں ایک میٹنگ کا انتظام کروں گا لیکن اس کا حصہ نہیں بنوں گا۔ ملاقات کے بعد سلیم صاحب نے مجھے بتایا کہ میٹنگ کامیاب رہی اور میں فلم کیلئے تیار ہوں۔ لیکن پروڈیوسر چاؤلہ، نیگیٹو کٹنگ کے دن ہی انتقال کر گئے۔ اس لئے میں سلیم صاحب کے ساتھ اکیلا کام نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے جاوید صاحب کے ساتھ کام کیا۔ میں نے ’’زمانہ‘‘ (۱۹۸۵ء) کی ہدایتکاری کی جسے انہوں نے بطور سلیم جاوید لکھا۔ وہ ’’زمانہ‘‘ کی ایڈیٹنگ میں بھی میرے ساتھ تھے۔ چونکہ ’’دنیا‘‘ پہلے ہی بن چکی تھی، سلیم صاحب نے سوچا کہ تقسیم (سلیم جاوید کی) میں میرا ہاتھ ہے۔‘‘
خیال رہے کہ حال ہی میں ریلیز ہونے والی دستاویزی سیریز’’اینگری ینگ مین‘‘ میں سلیم جاوید نے کہا کہ تقسیم کے باوجود وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ تھے۔ سیریز میں سلمان خان نے اعتراف کیا کہ اس علاحدگی کے بعد ان کے والد سلیم کا دل ٹوٹ گیا تھا لیکن دونوں خاندانوں کے درمیان دوستی برقرار تھی۔