اکیڈمی کے ۶۹۰ ممبران، جن میں مارک روفیلو، ایوا ڈیورنے، الفانسو کوارون جیسی معروف شخصیات شامل تھیں، نے ایک دستخط شدہ خط میں حمدان بلال پر وحشیانہ تشدد اور ان کی غیرقانونی حراست کی مذمت اور اس واقعہ پر اکیڈمی کی خاموشی پر تنقید کی تھی۔
EPAPER
Updated: March 29, 2025, 10:11 PM IST | Inquilab News Network | Washington
اکیڈمی کے ۶۹۰ ممبران، جن میں مارک روفیلو، ایوا ڈیورنے، الفانسو کوارون جیسی معروف شخصیات شامل تھیں، نے ایک دستخط شدہ خط میں حمدان بلال پر وحشیانہ تشدد اور ان کی غیرقانونی حراست کی مذمت اور اس واقعہ پر اکیڈمی کی خاموشی پر تنقید کی تھی۔
موشن پکچر آرٹس اینڈ سائنسز اکیڈمی نے فنکاروں پر حملوں کی مذمت میں جاری کئے گئے اپنے ابتدائی بیان میں آسکر ایوارڈ یافتہ فلسطینی ہدایتکار حمدان بلال کا ذکر نہ کرنے پر معذرت کرلی ہے۔ اکیڈمی کے سی ای او بل کریمر اور صدر جینیٹ یانگ نے ۱۱ ہزار ممبران کو بھیجے گئے بیان میں کہا، "بدھ کو ہم نے حمدان بلال، جو دستاویزی فلم`نو ادر لینڈ` کے شریک ہدایتکار ہیں، پر ان کے فنکارانہ اظہار کی وجہ سے تشدد کی اطلاعات کے جواب میں ایک خط بھیجا۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہم اس میں براہ راست بلال اور فلم کا نام لینے میں ناکام رہے۔" امریکی نیوز پورٹل ورائٹی کی رپورٹ کے مطابق، بیان میں مزید کہا گیا، "ہم بلال اور تمام فنکاروں سے معذرت خواہ ہیں جنہیں ہمارے سابقہ بیان سے عدم حمایت کا احساس ہوا۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اکیڈمی دنیا میں کہیں بھی اس قسم کے تشدد کی مذمت کرتی ہے۔ ہم ہر صورت میں آزادی اظہار پر حملہ کو قابل مذمت سمجھتے ہیں۔"
یہ بھی پڑھئے ط: اسرائیل روزانہ کی بنیاد پر ۱۰۳؍ فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتاررہا ہے: یورومیڈ مانیٹر
یہ بیان اکیڈمی کے بورڈ آف گورنرز اور اعلیٰ عہدیداروں کی جمعہ کی صبح ہوئی ہنگامی میٹنگ کے بعد سامنے آیا جس میں سابقہ بیان میں بلال کا نام شامل نہ کرنے پر بڑھتی ہوئی تنقید پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ واضح رہے کہ اکیڈمی کے ۶۹۰ ممبران، جن میں مارک روفیلو، ایوا ڈیورنے، الفانسو کوارون جیسی معروف شخصیات شامل تھیں، نے ایک دستخط شدہ خط میں حمدان بلال پر وحشیانہ تشدد اور ان کی غیرقانونی حراست کی مذمت اور اس واقعہ پر اکیڈمی کی خاموشی پر تنقید کی تھی۔ ان ممبران نے اپنے کھلے خط میں کہا، "ہم مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں اور اسرائیلی فورسیز کی جانب سے آسکر یافتہ فلسطینی ہدایت کار حمدان بلال پر وحشیانہ تشدد اور غیرقانونی حراست کی مذمت کرتے ہیں۔ آسکر جیتنا کوئی آسان کام نہیں۔ مقابلے میں آنے والی زیادہ تر فلموں کو وسیع تقسیم اور مہنگی مہمات کا فائدہ ملتا ہے۔ `نو ادر لینڈ` کا ان فوائد کے بغیر آسکر جیتنا ثابت کرتا ہے کہ یہ فلم ووٹنگ ممبران کیلئے کتنی اہم ہے۔ بلال کو نشانہ بنانا صرف ایک فلم ساز پر حملہ نہیں بلکہ ان تمام افراد پر حملہ ہے جو حقائق کو بیان کرنے کی جرات کرتے ہیں۔" کئی بین الاقوامی اداروں اور اکیڈمی کے مختلف شعبوں کے ممبران نے اس کھلے خط کی حمایت کی۔ اس خط پر دستخط کرنے والوں میں مارک روفیلو، ایوا ڈیورنے، الفانسو کوارون، اولیویا کولمین، جوکوئن فینکس، رض احمد، پینی لوپے کروز، ایما تھامپسن، نتاشا لیون، خاویئر بارڈیم، ساندرا ہولر، رچرڈ گیر، اینڈریا رائزبرو اور سوسن سیرنڈن جیسے معروف اداکاروں کے ساتھ ہدایتکار بوٹس رائلی, ٹوڈ ہینز, ایڈم میکے, جوناتھن گلیزر اور جم جارموش بھی شامل تھے۔
یہ بھی پڑھئے: نیتن یاہو اپنی حکومت کو بچانا چاہتا ہے، یرغمالوں کو نہیں: اسرائیلی ماہر تعلیم
یاد رہے کہ رواں ہفتہ پیر کو مغربی کنارے کے سوسیا گاؤں میں حمدان بلال پر اسرائیلی آبادکاروں نے حملہ کیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کے بعد، اسرائیلی فورسیز نے انہیں ہی گرفتار کرلیا تھا تاہم منگل کو انہیں رہا کردیا گیا۔ یورپی فلم اکیڈمی اور انٹرنیشنل ڈاکیومنٹری ایسوسی ایشن سمیت دیگر عالمی فلمی اداروں نے اس واقعہ کی سخت مذمت کی لیکن اکیڈمی کی جانب سے ابتدائی طور پر صرف ایک عمومی بیان جاری کیا گیا جس میں بلال کا نام شامل نہیں تھا۔ `نو ادر لینڈ` کے شریک ہدایتکار یوول ابراہم نے بلال کا نام شامل نہ کرنے پر اکیڈمی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ابراہم، جو خود اسرائیلی صحافی اور فلمساز ہیں، نے اکیڈمی کے اراکین کو بھیجے گئے بیان کا اسکرین شاٹ شیئر کیا جس میں دنیا بھر میں فنکاروں پر حملوں کی مذمت کی گئی تھی لیکن بلال کے واقعے کا کوئی خاص تذکرہ نہیں تھا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، "اکیڈمی کے پاس ہمت اور یکجہتی دکھانے کا موقع تھا، لیکن اس نے خاموشی اختیار کی۔"
واضح رہے کہ یوول ابراہم, حمدان بلال, باسل ادرا اور ریچل زور پر مشتمل اسرائیلی-فلسطینی ٹیم نے مشترکہ طور پر دستاویزی فلم `نو ادر لینڈ` کی ہدایتکاری کی تھی۔ فلم مغربی کنارے میں ایک فلسطینی برادری کی جدوجہد کو بیان کرتی ہے جو اسرائیلی فورسیز کے ہاتھوں بے دخلی کا شکار ہے۔ یہ فلم ۲۰۲۳ء کے برلن فلم فیسٹیول میں جیوری اور عوامی ایوارڈ جیتنے کے بعد بہترین دستاویزی فلم کا آسکر بھی حاصل کرچکی ہے۔ تنقیدی پزیرائی کے باوجود، امریکہ میں یہ فلم خود تقسیم کی گئی، کیونکہ ڈسٹری بیوٹرز نے اسے خریدنے سے انکار کردیا تھا۔