زویا اختر نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ’’سلیم (خان) اور جاوید (اختر، زویا اختر کے والد) نے اپنی فلموں میں کبھی کوئی کردار بے ہودہ نہیں لکھے۔ ہر کردار باوقار اور مضبوط ہوتا تھا مگر ان کے کرداروں میں ہر چیز سیاہ اور سفید تھی مگر میرا خیال ہے کہ ہر چیز میں ’’گرے‘‘ شیڈز بھی ہوتے ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ سلیم جاوید کی زندگیوں پر مبنی ’’اینگری ینگ مین‘‘ نامی دستاویزی سیریز ۲۰؍ اگست کو امیزون پرائم ویڈیو پر ریلیز ہوگی۔
زویا اختر۔ تصویر : آئی این این
فلمساز زویا اختر ایک نئی فلم پر کام کررہی ہیں جس میں غالباً مشہور اسکرپٹ رائٹرجوڑی سلیم جاوید کا رنگ ہوگا۔ ’’گلی بوائے‘‘، ’’زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘‘، اور ’’دل دھڑکنے دو‘‘ جیسی فلموں سے شہرت پانے والی زویا نے انکشاف کیا کہ وہ کرائم مافیا ڈرامے والی ایک فلم پر کام کر رہی ہیں، جس میں ان کے والد جاوید اختر نے اپنے سابق اسکرین رائٹنگ پارٹنر سلیم خان کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ خیال رہے کہ سلیم جاوید نے ایک ساتھ ۲۴؍ فلمیں لکھی ہیں جن میں سے ۲۲؍ بلاک بسٹر ثابت ہوئی ہیں۔ ان کی کامیاب فلموں میں ’’ شعلے، دیوار، زنجیر، ڈان، ترشول، اور کالا پتھر‘‘ کے نام قابل ذکر ہیں۔ خیال رہے کہ ان دونوں کی زندگیوں پر امیزون پرائم ویڈیو کی دستاویزی فلم ’’اینگری ینگ مین‘‘ بھی بن رہی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:پونے: برگرکنگ شہر میں واقع ’’برگر کنگ‘‘ سے ٹریڈ مارک کی قانونی جنگ ہار گیا
اس دستاویزی فلم کی ریلیز سے پہلے، زویا اختر نے انڈین ایکسپریس ڈاٹ کام سے بتایا کہ کس طرح ان کے کام میں بھی ان دونوں کی تحریروں کے آثار پائے جاتے ہیں۔ زویا کی پہلی فلم ۲۰۰۹ء میں ریلیز ہونے والی ’’لک بائے چانس‘‘ تھی۔ اس فلم میں ان کے تمام کردار سیاہ اور سفید نہیں تھے۔ ان کے تمام کرداروں میں ابہام ہے، جس میں ان کے ہیرو بھی شامل ہیں۔ اس کے متعلق زویا نے بتایا کہ ’’ہر چیز مکمل نہیں ہوتی۔ ہر چیز سیاہ اور سفید نہیں ہوتی۔ سبھی چیزوں میں تھوڑے ’’گرے‘‘ شیڈز ہوتے ہیں۔ انسان بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ میرے ہر کردار میں یہ شیڈ نکھر کر سامنے آتا ہے۔ میرے کرداروں میں ایک خاص گونج اور کشش ہوتی ہے، جو سلیم جاوید کے سبب ممکن ہوسکا ہے۔‘‘ زویا نے بتایا کہ وہ ’’دی آرچیز‘‘ کے بعد ایک کرائم مافیا فلم کی اسکرپٹ لکھ رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:’’استری۲‘‘ نے ۲؍ دنوں میں ۱۰۰؍ کروڑ کا ہندسہ پار کرلیا، مجموعی آمدنی ۱۴۵؍ کروڑ
انہوں نے سلیم جاوید کی اسکرپٹ رائٹنگ کے بارے میں مزید بتایا کہ ’’ان کی فلموں میں مردوں کی دنیا دکھائی جاتی تھی مگر اس میں بھی انہوں نے خواتین کے کردار کو باوقار اور مضبوط لکھا۔ اگر غور کریں تو احساس ہوگا کہ اگر ان کی مردوں کی دنیا دکھانے والی اسکرپٹس سے خواتین کے کردار نکال دیئے جائیں تو فلم بے جان ہوگی، اور شاید کوئی انہیں نہیں دیکھے گا۔ ان دونوں نے ہر کردار، خاص طور پر خواتین کو، شناخت دی۔‘‘ زویا نے کہا کہ کس طرح فرحان اختر نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ ’’دیوار میں پروین بابی کا کردار رات کے مزدور کا ہے لیکن اس میں وقار ہے۔‘‘
اینگری ینگ مین کی ہدایتکار نمرتا راؤ ہیں جو ’’میڈ ان ہیون‘‘ اور ’’اوئے لکی‘‘ کی ایڈیٹنگ کیلئے مشہور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سیریز میں سلیم جاوید کی تحریر میں صنفی عناصر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ تاہم، سلیم جاوید نے یہ بھی بتایا کہ ان کے بعض کردار ایسے ہیں، جنہیں اس دور کی مناسبت سے لکھا گیا تھا، اگر انہیں آج ایسے کردار لکھنے کیلئے کہیں جائیں تو وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے، مثلاً سیتا اور گیتا کے کردار۔