ملّی مسائل پرجرأتمندانہ انداز میں اظہار خیال کرنے والی معروف سیاسی اور سماجی شخصیت ابوعاصم اعظمی کسی لاگ لپیٹ کے قائل نہیں ہیں۔ ملاحظہ کیجئے وہ مزید کیا کہتے ہیں؟
EPAPER
Updated: July 28, 2024, 5:46 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
ملّی مسائل پرجرأتمندانہ انداز میں اظہار خیال کرنے والی معروف سیاسی اور سماجی شخصیت ابوعاصم اعظمی کسی لاگ لپیٹ کے قائل نہیں ہیں۔ ملاحظہ کیجئے وہ مزید کیا کہتے ہیں؟
ممبئی کی معروف سماجی، سیاسی اور کاروباری شخصیت ابوعاصم اعظمی گزشتہ ۳۰؍ سال سے سماجوادی پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ان تین دہائیوں میں بے شمار سیاسی نشیب و فراز کے باوجود وہ سماجوادی پارٹی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کرچلتے رہے۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ آنجہانی ملائم سنگھ یادو سے ان کے قریبی مراسم تھے۔اسی تعلق اور ابوعاصم کی قائدانہ صلاحیت کی بنیاد پر انہیں مہاراشٹر کی باگ ڈور سونپی گئی تھی، جسے وہ بڑی ذمہ داری اور خوش اسلوبی سے نبھا رہے ہیں۔ حالانکہ فی الحال مہاراشٹر اسمبلی میں سماجوادی پارٹی کے ۲؍ اراکین اسمبلی ہیں مگر اقلیتی مسائل پر دونوں ہی اراکین اسمبلی ابوعاصم اعظمی اور رئیس شیخ پُر زور آواز بلند کرتے ہیں جس سے ابوعاصم اعظمی کی جرأت مندانہ سیاست کاندازہ ہوتا ہے۔ وہ ایک بے خوف اور سچ بولنے والے لیڈر ہیں ، جو اسمبلی میں مسلمانوں کے مسائل کی ترجمانی اور انہیں ان کا حق اور انصاف دلانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔
ابوعاصم اعظمی نے حال ہی میں ایک اور بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جو اُن کی سیاسی فعالیت اور دور اندیشی کا مظہر ہے۔ حالیہ پارلیمانی الیکشن میں اُترپردیش سے کامیاب ہونے والے ۳۷؍ اراکین پارلیمان کو ممبئی مدعو کر کے ان کی کامیابی کا شاندار جشن منایا گیا اور ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ یہ مہاراشٹر سماجوادی پارٹی کے ریاستی صدر ابوعاصم اعظمی کے ذہن کی اُپج تھی۔ یہ اور ایسے کئی موضوعات پر انقلاب نے ان سے گفتگو کی جس کے اقتباسات ان کالموں میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں اترپردیش کے نومنتخب اراکین پارلیمان کا ممبئی میں جشن منایا گیا، کسی اور ریاست میں ایسانہیں ہوا، مہاراشٹر میں یہ کس کاآئیڈیا تھا، یہاں آنے والے نومنتخب اراکین پارلیمان کا رسپانس کیسا تھا ؟
جواب : اُترپردیش کے نومنتخب ۳۷؍ اراکین اسمبلی کو ممبئی مدعوکرنے کاآئیڈیا میرا تھا۔ اس تعلق سے میں نے اکھلیش بھائی سے بات کی اور کہا کہ اگر ہمارے نومنتخب اراکین پارلیمان ممبئی آتے ہیں تو اس سے پارٹی کے رضا کاروں، ممبئی کے عوام اور ممبئی میں رہنے والے اُترپردیش کے شہریوں کا حوصلہ بڑھے گا۔ ساتھ ہی رام کے نام پر جن لوگوں نے ایودھیا میں اتنا ہنگامہ کیا تھا، وہا ں مندر تعمیر کر کے رام للا کو بٹھایا ہے، اس رام للا نے انہیں وہاں سے بھگا دیا، ان کی جگہ سماجوادی پارٹی کے اُمیدوار اودھیش پرساد کو وہاں سے کامیابی ملی ہے۔ اگر وہ یہاں آئیں گے تو ایک بہت اچھاپیغام جائے گا۔اکھلیش بھائی نے میری اس اپیل پر اپنی آمادگی ظاہر کی، اس کا بہت اچھا رسپانس ملا، پارٹی کے کارکنان کا حوصلہ بلند ہوا اور سبھی اراکین پارلیمان بھی بہت خوش ہوئے۔
یہ بھی پڑھئے: ’’منڈل کمیشن کی سفارشات کی بنیاد پر مسلم او بی سی تحریک ضروری تھی جو مؤثر رہی‘‘
کیاکچھ اراکین پارلیمان کو لے کر آپ اُدھو ٹھاکرے سے ملاقات کرنے بھی گئے تھے؟
جواب: جی ہاں !اودھیش پرساد کی ایودھیا پارلیمانی حلقے سےکامیابی ان دنوں سیاسی گلیاروں میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ دراصل میں اُدھو ٹھاکرے سے ملاقات کیلئے نہیں گیا تھا بلکہ اُدھو جی کا پیغام آیا تھا، وہ اوھیش پرساد سے ملنا چاہتے تھے۔ اس بارے میں پہلے میں نے اکھلیش بھائی سے بات کی، ان کی اجازت پر ہم اُدھو ٹھاکرے سے ملاقات کرنے گئے تھے۔ ہمارے ساتھ رکن پارلیمان دھرم جی اور بھیونڈی کے رکن اسمبلی رئیس شیخ بھی تھے۔ یہاں کسی طرح کی کوئی سیاسی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ صرف رسمی گفتگو کے بعد ہم لوٹ آئے تھے۔
آنے والے ریاستی اسمبلی الیکشن میں سماجوادی پارٹی کا موقف کیا ہوگا ؟ مہاوکاس اگھاڑی کے ساتھ کن شرطوں اور کتنی سیٹوں پر الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ ہے ؟
جواب : کانگریس پارٹی کئی مرتبہ ہمیں دھوکہ دے چکی ہے۔ اس لئے اس مرتبہ میں یہاں بات نہیں کروں گا۔ میں نے اکھلیش جی سے کہا ہے کہ آپ راہل گاندھی سے بات کریں ، ہم یہی چاہتے ہیں کہ جس طرح انڈیا الائنس کو مضبوط کیا گیا ہے، اس کی بنیاد پر مہاراشٹر میں الائنس میں ہم لڑیں گے توٹھیک رہےگا۔ ووٹ تقسیم نہیں ہونا چاہئے۔ زبردستی ہم پچاسوں سیٹ پر اُمیدوار کھڑا کر دیں اور کچھ ووٹوں سے اُمیدوار ہار جائیں، یہ ہمیں منظور نہیں ہے۔ ہم جہاں جیت سکتے ہیں، وہاں کی سیٹو ں کی فہرست اکھلیش جی کو دی ہے۔ انہوں نے راہل گاندھی سے بات کرنے کا وعد ہ کیا ہے۔ اگر ہماری بات مان لی گئی تو ٹھیک ہے ورنہ کسی اورمتبادل کے بارے میں سوچا جائے گا۔ ہمارا مطالبہ کم ازکم ۷؍ سیٹوں کا ہے۔
چند مہینوں میں مہاراشٹر، ہریانہ اور اس کے بعد جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ ان ریاستوں میں سماج وادی پارٹی کی کتنی طاقت ہے اور آپ اسمبلی الیکشن میں کتنی کامیابی کی اُمید کر رہے ہیں ؟
جواب : ہریانہ اور جھارکھنڈ میں ہماری معمولی طاقت ضرور ہے لیکن اکھلیش بھائی سے میری یہی بات ہوگی کہ ان تینوں ریاستوں میں ہمیں الائنس کے ساتھ مل کر لڑنا چاہئے۔ ہمیں اکیلے نہیں لڑنا چاہئے۔ ہماری پارٹی قومی سطح کی تو نہیں لیکن متعدد قومی پارٹیوں سے بڑی ضرور ہے۔ جس کا واضح ثبوت حالیہ لوک سبھا الیکشن میں اُترپردیش سے ہماری نمایاں کامیابی ہے۔ سماجوادی پارٹی کو قومی سطح کی پارٹی بنانے کی مہم شرو ع کرنے کایہی صحیح وقت ہے۔ ہم جلد ہی اس پر کام کریں گے۔ میں انقلاب کے ذریعے عوام کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حقیقت میں اگر کوئی فرقہ پرستی سے لڑ رہا ہے، حقیقت میں اگر کوئی اقلیتوں کو ان کاحق دینا چاہتا ہے تو اکھلیش یادو اور سماجوادی پارٹی کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ اس پر میں کھلے عام مباحثہ کیلئےبھی تیار ہوں۔
یہ بھی پڑھئے: مُلک کے تعلیمی اور امتحانی نظام میں شفافیت لانے کیلئےعدلیہ کا کردار
حالیہ پارلیمانی انتخابات میں اترپردیش میں سماجوادی پارٹی نے نمایاں کامیابی حاصل کی، اس کے باوجود وہاں اقلیتوں پر ظلم ہونے کی شکایتیں آ رہی ہیں، اس پر سماجوادی پارٹی کے لیڈران خاموش کیوں ہیں ؟
جواب: وہاں پر اقلیتوں پر ہی نہیں بلکہ سیاسی لیڈروں پر بھی ظلم ہو رہا ہے۔ دہلی کی برسراقتدار حکومت، وزیر اعلیٰ تک کو جیل بھیج دے رہی ہے۔ اس کے باوجود سماجوادی پارٹی خاموش نہیں بیٹھی ہے۔ ابھی پرتاپ گڑ ھ میں کچھ ہوا تھا، ہماری پارٹی کا وفد وہاں گیا تھا۔ حالانکہ یوپی میں سماجوادی پارٹی کی حکومت نہیں ہے، اس کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر ہم وہاں کام کر رہے ہیں۔ کسی کو سماجوادی پارٹی پر شبہ نہیں کرنا چاہئے۔
مہاراشٹر کےکتنےاسمبلی حلقوں میں سماج وادی پارٹی کی ساکھ مضبوط ہےاوراگر اسےاُمیدوار کھڑا کرنے کا موقع ملا توکتنی سیٹیں نکل سکتی ہیں ؟
جواب : ہم وہیں سے سیٹیں مانگیں گے جہاں پر کانگریس، این سی پی اور شیوسینا ( اُدھوگروپ ) کے اُمیدوار نہیں ہوں گے اور جتنی سیٹوں سے ہمارے اُمیدوار کھڑے ہوں گے، سبھی سیٹوں پر ہماری فتح ہوگی۔
وشال گڑھ کے واقعے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟کیا اسمبلی الیکشن سے قبل یہ ریاست کا ماحول خراب کرنے کی کوشش ہے ؟ ایسے واقعات کو کس طرح روکا جاسکتا ہے ؟
جواب : وشال گڑھ جیسے متعدد واقعات اس سے پہلے بھی رونما ہوچکے ہیں۔ یہ واقعہ بھی سنگین نوعیت کاحامل ہے۔ فرقہ پرست کھلے عام اعلان کر رہے تھے کہ ہم وشال گڑھ جاکر جس طرح ایودھیا میں بابر کی چھاتی پر چڑھ کر مسجد توڑی تھی، اسی طرح یہاں بھی کریں گے۔ سرکار کی ذمہ داری تھی کہ ان کو فوراً حراست میں لیتی لیکن حکومت نے انہیں پکڑا نہیں۔ جس کانتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے وشال گڑھ جاکر مسلمانوں کی عبادت گاہ اور مکانوں کو نقصان پہنچایا۔ اگر قانون نام کی کوئی چیز ہوتی تو ان خطاکاروں کو یو اے پی اے کےتحت گرفتار کیاجاتا۔ اگر ایک آدمی کشمیر میں فلسطین کا پرچم لہراتا ہے تو اس پر یو اے پی اے لگ جاتا ہے۔ سرکار کو ایسا لگتا ہے کہ جتنا مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہوگا، اتنا ہی زیادہ انہیں ووٹ حاصل ہوگا۔ اس طرح کے واقعات کو روکنے کیلئے ہم نے اسمبلی میں کئی بار سرکار کی توجہ مبذول کرائی ہے کہ ایسے عناصر کو قابو میں رکھنے کیلئے ایک خاص قانون بنایا جائے اور خاطیوں پر دہشت گردی کا الزام عائد کر کے انہیں کچھ برسوں کیلئے جیل بھیج دیا جائے۔ وشال گڑھ میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کےعوض سرکار کومعاوضہ دینا چاہئے۔ اس معاملے پرشرد پوار اور ادھو ٹھاکرے کو بھی بولنا چاہئے تھا۔
اسمبلی کے ساتھ یا آس پاس کارپوریشن الیکشن بھی ہوگا۔ ممبئی کارپوریشن کے کتنے حلقوں میں سماجوادی پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہے اور وہ کون سے حلقے ہیں ؟
جواب : کارپوریشن کا الیکشن ۲۰۲۲ء میں ہوناتھا لیکن ابھی تک نہیں ہوسکا ہے۔ جولوگ الیکشن کا نظم کرتے ہیں، وہ علاقوں کابٹوارہ اس طرح کرتے ہیں کہ اقلیتوں کی سیٹیں کم سےکم ہو جائیں۔ ۱۹۹۷ ء میں جب ہم پہلی مرتبہ کارپوریشن کا الیکشن لڑے تھے، اس وقت ہماری ۲۳؍ سیٹیں آئی تھیں۔ آج بھی اقلیتی علاقوں کے علاوہ اُترپردیش کے شہری جن علاقوں میں آباد ہیں، وہاں ہماری پوزیشن بہت اچھی ہے۔ مانخورد شیواجی نگر میں ۷۔۵؍ سیٹیوں پرہمیں کامیابی مل سکتی ہے۔ جنوبی ممبئی کے مدنپورہ، محمدعلی روڈاور ناگپاڑہ وغیرہ کے علاقوں کی ۸۔۷؍ سیٹوں پربھی ہم جیت سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جن علاقوں میں اُترپردیش اور دلتوں کی اکثریت ہے مثلاً بوریولی، ملاڈ اور جوگیشوری وغیرہ میں بھی ہم اچھی کارکردگی پیش کرسکتے ہیں۔ مجموعی طور پر ہم ۳۵۔۳۰؍ سیٹ جیت سکتے ہیں۔ کارپوریشن الیکشن کیلئے بھی ہماری تیاری جاری ہے۔
انڈیا اتحاد کا مستقبل کتنا روشن ہے؟ کیا یہ اتحاد طویل عرصے تک برقرار رہ پائے گا ؟
جواب: انڈیا الائنس کا مستقبل روشن ہے اور رہنا ہی چاہئے۔ جو لوگ اس ملک سے فرقہ پرستی ختم کرنا چاہتے اور یہاں کے آئین کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ، اگر وہ پارٹی کے بجائے ملک کو بڑا کرنے سے متعلق سنجیدہ ہیں تو ان شاءاللہ یہ الائنس ضرور برقرار رہے گا۔ میری گزارش بھی یہی ہے کہ اس کو برقرار رکھا جائے۔ اس تناظر میں میرا مشورہ ہے کہ مہاراشٹر اسمبلی الیکشن کیلئے انڈیا الائنس سیٹوں کا بٹوارہ جلد سے جلد کرلے تاکہ پارٹیاں اپنا کام شروع کرسکیں۔ اگر سیٹوں کا بٹوارہ جلدی نہیں کیا گیا تو پارٹیاں ہر سیٹ پر اپنا کام شروع کردیں گی، اس کے بعد اگر الائنس ہوتا ہے توجن سیٹوں پر تیاریاں کی گئی ہوں گی، ان سیٹوں کے نہ ملنے پر اُمیدوار کے دیگر پارٹی میں چلے جانے کا خدشہ ہے۔ جس سے ووٹ کے تقسیم ہونے کا خطرہ ہے۔اس لئے سیٹوں کا بٹوارہ جلد کیا جائے تاکہ ہم اپنی پوری طاقت سے الیکشن میں قسمت آزمائی کرسکیں۔ مجھے اُمید ہے کہ ایسا کرنے پر مہا وکاس اگھاڑی کو بڑی کامیابی ملے گی۔
ممبئی سے اعظم گڑھ تک آپ کانام گونجتا ہے، کیا آپ قومی سطح پر بھی اپنا رول دیکھتے ہیں ؟
جواب :یوپی کی ایک بڑی آبادی ممبئی میں رہائش پزیر ہے۔ میں ایک خدمت گار اور ظلم کے خلاف لڑنے والاانسان ہوں۔ میں سیاسی آدمی نہیں تھا لیکن ممبئی بم دھماکہ( ۱۹۹۳ء) کے بعد بےقصوروں پر ظلم اور زیادتی کے بڑھنےسے مجھے سیاست میں آنا پڑا۔ میں یہ نہیں مانتا کہ میں بہت بڑا لیڈر یا شہرت یافتہ انسان ہوں۔ یہ ضرور ہے کہ خدمت کا جذبہ ہے اور ہر کسی کی مدد کرنے سے مجھے خوشی ملتی ہے۔ میرا تو ایک ہی پیغام ہے کہ اس ملک میں ہندو، مسلم، سکھ اورعیسائی سب مل جل کر بھائی بھائی کی طرح رہیں، ملک کاآئین محفوظ رہے، سب کو انصاف ملے، مائناریٹی کے ساتھ جو ناانصافی کھلے عام ہو رہی ہے، وہ لڑائی میں بہت طاقت کے ساتھ لڑنا چاہتا ہوں۔ اسی طاقت کی حصولیابی کیلئے سیاست میں ہوں۔ آج اگر میں رکن اسمبلی نہ ہوتا تو اتنی بات نہیں کر سکتا تھا۔