ایک زمانہ تھا جب ’’سائنس رحمت ہے یا زحمت‘‘ کے موضوع پر تحریری اور تقریری مقابلے ہوا کرتے تھے۔ اب اے آئی رحمت ہے یا زحمت پر مقابلے کا دور ہے۔ اس مضمون میں یہی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت تخلیقی صلاحیتوں کا نعم البدل نہیں ہے
EPAPER
Updated: January 31, 2025, 9:30 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
ایک زمانہ تھا جب ’’سائنس رحمت ہے یا زحمت‘‘ کے موضوع پر تحریری اور تقریری مقابلے ہوا کرتے تھے۔ اب اے آئی رحمت ہے یا زحمت پر مقابلے کا دور ہے۔ اس مضمون میں یہی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت تخلیقی صلاحیتوں کا نعم البدل نہیں ہے
وہ اپنی سیاہ جینس کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے دریا کے سامنے سر جھکائے خاموشی سے کھڑا تھا۔ اس کی نظریں بہتے شفاف پانی پر تھیں۔ ۲۲؍ سالہ نوجوان کسی گہری میں سوچ میں غرق نظر آرہا تھا۔ ڈوبتا سورج اس کی نارنجی رنگ کے شرٹ میں گھلتا محسوس ہورہا تھا۔ اطراف کے پیڑوں پر پرندے چہچہارہے تھے مگر یوں لگتا تھا کہ اس کے کان کسی بھی قسم کی آواز سننے سے قاصر ہیں۔ جنگل کے اس حصے میں انسانوں کو آمدورفت کی اجازت تھی۔ یہاں جنگلی جانور نہیں آتے تھے۔ صبح کے وقت لوگوں کی بڑی تعداد اس حصے میں جاگنگ کیلئے آتی تھی اور دریا کے کنارے ہر عمر کے افراد ہلکی رفتار میں دوڑتے رہتے تھے مگر شام میں یہاں تنہا آنے سے گریز کرتے تھے۔ جنگل کے اس حصے کے متعلق طرح طرح کی بھیانک داستانیں مشہور تھیں مگر ان کی ہولناکیاں بھی میثم کو غروب آفتاب کے وقت یہاں آنے سے نہیں روک سکی تھیں۔ تبھی مخالف سمت کی جھاڑیوں میں ہلچل سی ہوئی اور ایک ......
اسکولوں میں ’’کہانی آگے بڑھایئے‘‘ نامی مشق کروائی جاتی ہے جس میں طلبہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کہانی آگے بڑھاتے ہیں۔ اگر ایک جماعت میں ۵۰؍ طلبہ ہیں تو ۵۰؍ مختلف کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔ اس بات کے امکانات صفر ہوتے ہیں کہ طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں ایک سی ہوں گی۔ ان کالموں کا پہلا پیراگراف راقم کا تخلیق کردہ ہے مگر اب اس کہانی کو مکمل کرنے کیلئے کسی انوکھے خیال اور منفرد زاویئے کی ضرورت ہے۔ وہ کہانی کے اس موڑ پر پھنس کر رہ گیا ہے۔ ایسے میں اسے کیا کرنا چاہئے؟ ۵۰؍ طلبہ کی قدرتی ذہانت کی مدد لینی چاہئے یا انسانوں کی تیار کردہ مصنوعی ذہانت کی؟
یہ بھی پڑھئے: کریڈٹ کارڈ؛ معیشت اور ڈجیٹل لین دین کیلئے صحتمند یا غیر صحتمند؟
دورِ حاضر میں سانس لینے والے زیادہ تر افراد کا جواب یہی ہوگا کہ مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشیل انٹیلی جنس، یا، اے آئی) کی مدد لے لیجئے، کہانی بآسانی مکمل ہوجائے گی۔ اے آئی ۵۰؍ کیا ۵۰؍ ہزار سے زائد طلبہ کا کام محض چند سیکنڈز میں کرسکتا ہے۔ جی ہاں ! سائنس اور ٹیکنالوجی کی مضبوط ہوتی ہوئی اس شاخ کی مدد سے کئی ایسی باتیں ممکن ہیں، جو آج سے چند برس پہلے تک ناممکن لگتی تھیں۔ عصر حاضر کے تقریباً سبھی شعبوں میں اے آئی کو کسی نہ کسی شکل میں شامل کرلیا گیا ہے، تعلیمی ادارے ہوں، فیکٹریاں ہوں، کال سینٹرز ہوں، بی پی او ہوں، یا، سافٹ ویئر بنانے والی کمپنیاں، سبھی اے آئی اب کے مرہون منت ہیں۔ اسمارٹ فون کی مدد سے یہ اب ہر عمر کے انسان کی دسترس میں ہے۔ زیادہ پرانا نہ ہونے کے باوجود وہ زمانہ لد گیا جب کہا جاتا تھا ’’جو بھی پوچھنا ہے گوگل سے پوچھو، گوگل سب جانتا ہے۔‘‘ اب یہ کہا جارہا ہے کہ ’’اے آئی سے پوچھو، اے آئی سب جانتا ہے۔ یہ وہ بھی جانتا ہے جو آپ نہیں جانتے۔ یہ وہ بھی بناسکتا ہے، جو آپ نہیں بناسکتے۔ یہ آپ کی ایسے راستوں سے مدد کرسکتا ہے، جو آج سے پہلے کسی کو نظر نہیں آتے تھے۔‘‘
دنیا کی بڑی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں، ایپل، گوگل، مائیکرو سافٹ، اوپن اے آئی، ایکس اور میٹا وغیرہ، اپنے اپنے اے آئی کو سب سے زیادہ طاقتور بنانے میں بے دریغ رقم خرچ کررہی ہیں۔ انہیں اس ضمن میں فائدہ بھی ہورہا ہے، جس کا ثبوت وہ کروڑوں افراد ہیں جو چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیزوں کیلئے ان کے اے آئی استعمال کررہے ہیں۔
چیٹ جی پی ٹی، سیری، جیمینائی، گورک، کوپائلٹ، میٹا آئی، بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے اے آئیز ہیں جنہیں اب بچہ بچہ استعمال کرنا جانتا ہے۔ اسکول کا پروجیکٹ ہو یا کسی مشہور شخصیت کا انٹرویو کرنا ہو، اب اے آئی چند سیکنڈز میں آپ کو وہ ساری معلومات عطا کردیتا ہے جنہیں جمع کرنے کیلئے ۶۔ ۶؍ مہینے درکار ہوتے تھے۔ اے آئی کا اثر ادب (خاص طور پر کہانیاں اور نظمیں لکھنا) پر بھی ہورہا ہے۔ اب کوئی بھی شخص چند سیکنڈز میں نظمیں اور کہانیاں ’’لکھ کر‘‘ (اے آئی کی مدد سے) آپ کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔ یہ ہے ناں حیرت انگیز! یہی ہے اے آئی، جس نے کاموں کو اتنا آسان بنا دیا ہے کہ اب انسانوں کو کوئی تخلیقی کام کرنے کیلئے اپنا ذہن دوڑانے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ آپ کو اب صرف کسی اے آئی سافٹ ویئر پر چند ’’کی ورڈز‘‘ (کلیدی الفاظ) لکھنا ہے اور کہانیاں اور نظمیں آپ کے سامنے جلوہ گر ہوں گی۔ درج بالا سطور میں بڑی کمپنیوں کے اے آئی کے نام بتائے گئے ہیں لیکن اگر آپ گوگل پر سرچ کریں یا اے آئی سے پوچھ لیں تو وہ آپ کو سیکڑوں نام بتا دیں گے جنہیں استعمال کرنا انتہائی آسان ہے۔ صرف اکاؤنٹ بنایئے اور کہانیوں اور نظموں کا انبار لگا دیجئے، اس طرح قلیل مدت میں آپ بن گئے ادیب اور شاعر۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا آپ درحقیقت ایک ادیب اور شاعر بن گئے؟
یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ:’’لوسٹ اینڈ فاؤنڈ‘‘ بھول گئے مگر دوبارہ پانے کی کوشش نہیں کی!
ایک کامیاب ادیب یا شاعر وہ ہوتا ہے جو اپنی فطری صلاحیتوں کی بنیاد پر لکھتا ہے۔ اس کی کہانیاں اور نظمیں نسل در نسل چلتی ہیں اور پھر کلاسک کا درجہ اختیار کرلیتی ہیں۔ انہیں پسند کیا جاتا ہے، بار بار پڑھا جاتا ہے اور واقف کارو ں یا اجنبیوں پر دھونس جمانے کیلئے کہا جاتا ہے کہ مَیں نے فلاں ادیب یا شاعر کی ساری تصانیف پڑھی ہیں۔ لیکن اے آئی کی آمد نے تخلیقی ذہن کے حامل ادیبوں اور شاعروں کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ سوشل میڈیا کا شور شرابہ اور اے آئی کی تخلیقات، اب اس شخص کو راتوں رات مشہور کردیتی ہیں جسے انہیں صحیح طریقے سے استعمال کرنا، بالفاظ دیگر شور مچانا، آتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ شور دب جاتا ہے، مگر تخلیقی صلاحیتیں ہر تخلیق کے بعد مزید نکھرتی ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا آسان ہے کہ تخلیقی ذہن کا حامل شخص زیادہ طاقتور ہے اور اس کی تخلیقات کی گونج عبوری طور پر شور میں بھلے ہی دب جائے مگر یہ گونج دیر تک اور دور تک سنی جاتی ہے۔
جب کوئی چیز مشہور ہونے لگتی ہے اور اس کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے تو اس کی لگام کسنے کیلئے قواعد و ضوابط بنائے جاتے ہیں۔ جس طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال پر قابو پانے کیلئے آج ہر ملک کمربستہ ہوگیا ہے ٹھیک اسی طرح اے آئی کی مکمل طور سے آمد سے قبل ہی الگ الگ ممالک اس پر اپنا کنٹرول رکھنے کیلئے مختلف قسم کے قواعد و ضوابط بنا رہے ہیں۔ اس ضمن میں کمپنیاں بھی پیش پیش ہیں۔ اے آئی سے تیار کردہ مضامین، کہانیاں، نظمیں حتیٰ کہ ایک شعر بھی اب ’’اے آئی‘‘ ہی کی مدد سے پکڑا جاسکتا ہے۔ درجنوں سافٹ ویئر بتاسکتے ہیں کہ کوئی تخلیق اے آئی کی مدد سے تیار کی گئی ہے یا نہیں۔ لہٰذا اے آئی کے ذریعے ادب تخلیق کرنے والے افراد جو اپنے آپ کو ادیب یا شاعر کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں، ان کیلئے کڑی مشکل ہے۔ جو افراد اے آئی کی مدد سے اپنی ’’صلاحیتوں ‘‘ کو دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں، وہ دراصل اعتماد کی کمی کا شکار ہورہے ہیں۔ ادب تخلیق کرنے والا اپنے مداحوں کا بے جھجک سامنا کرسکتا ہے، ان سے گھنٹوں بات چیت کرسکتا ہے اور ان کے سوالوں کا جواب دے سکتا ہے لیکن وہ شخص ایسی صورتحال کا سامنا کیسے کرے گا جس نے اپنی صلاحیتوں کی مدد سے ادب تخلیق نہیں کیا؟ اسے اے آئی استعمال کرنے کا طریقہ آتا ہے مگر اسے اپنی ذہنی صلاحیتوں کی مدد سے کہانیوں، ناولوں، غزلوں یا نظموں کو تیار کرنے کا ہنر نہیں آتا۔ اے آئی اسے مختصر مدت کیلئے شہرت عطا کریگا لیکن ’’اے آئی پولیس‘‘ (وہ سافٹ ویئر جو اے آئی سے تیار کردہ مشمولات کی جانچ کرتے ہیں اور انہیں پکڑ سکتے ہیں ) کی گرفت میں آنے کے بعد اسے عمر بھر کی رسوائی سے بھی دوچار کریگا۔ فیصلہ اب اس ’’ادیب‘‘ اور ’’شاعر‘‘ کو کرنا ہے جو اے آئی کی مدد سے ادیب اور شاعر بنا ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اے آئی جتنا تیز اور ذہین انگریزی زبان میں ہے، اتنا دیگر زبانوں میں نہیں ہے۔ راقم نے چند اے آئی سافٹ ویئرس کی مدد سے اردو، ہسپانوی اور فرانسیسی زبانوں میں کہانیاں اور نظمیں ’’تخلیق‘‘کرنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا: اُردو زبان میں اے آئی ابھی کافی کمزور ہے۔ جملوں کی ساخت، املا اور گرامر کی درجنوں غلطیوں پر آسانی سے گرفت کی جاسکتی ہے۔ اے آئی، اردو کے مقابلے ہسپانوی اور فرانسیسی زبانوں میں قدرے بہتر ہے مگر اس میں بھی یہی مسائل ہیں۔ چونکہ اس کی کوڈنگ میں انگریزی زبان استعمال ہوتی ہے اس لئے جتنا بہتر طریقے سے یہ انگریزی میں مشمولات تیار کرسکتا ہے، اتنا دیگر زبانوں میں ممکن نہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر بعض سافٹ ویئر ایسے ہیں کہ آپ محض چند کی ورڈز لکھئے اور اے آئی آپ کو ۹۹؍ کہانیاں تیار کرکے دے گا۔ آپ ’’کی ورڈز‘‘ میں مزید کچھ الفاظ شامل یا حذف کیجئے، اب اسی کہانی کا نیا ۹۹؍ ورژن پڑھ لیجئے۔ تاہم، ٹیکنالوجی اور اے آئی کی ترقی کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ چند برسوں میں یہ دیگر زبانوں میں بھی مشاق ہوجائے گا۔
موجودہ دور میں ٹیکنالوجی اور اے آئی سے دوری ممکن نہیں ہے اور ان سے دوری اختیار کرنی بھی نہیں چاہئے لیکن جب یہ چیزیں آپ کو سست اور کاہل بنانے لگیں، آپ کے ذہن پر زنگ لگانے لگیں اور آپ کی تخلیقی صلاحیتوں پر حاوی ہونے لگیں تو ان کے استعمال میں حد درجہ سنجیدگی اور احتیاط برتنا چاہئے ورنہ شہرت کی مدت کم، رسوائی کی زیادہ ہوگی۔