• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’اسمبلی الیکشن میں خاطر خواہ مسلم نمائندگی کی ہماری کوشش کامیاب ہونے کی پوری اُمید ہے!‘‘

Updated: August 04, 2024, 5:51 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

دوبار کارپوریٹر رہنے اور ممبادیوی اسمبلی حلقہ سے تین مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہونے والے امین پٹیل کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کالموں میں اُن کے طویل انٹرویو کے اقتباسات نذر قارئین کئے جارہے ہیں۔

Amin Patel with Leader of Opposition Rahul Gandhi in Lok Sabha. Photo: INN
لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کے ساتھ امین پٹیل۔ تصویر : آئی این این

امین پٹیل بلاتفریق مذہب وملت سب کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور ان کے کاموں کو انجام دینےکا نظریہ رکھتے ہیں۔ وہ معاشرے کے پسماندہ طبقے کے سماجی اور اقتصادی مسائل کو اپنی قوت اور صلاحیت کے مطابق حل کرنے کی بھرپو ر کوشش کرتے ہیں۔ ٹیم ورک پر پختہ یقین اور اپنی کامیابی کو ٹیم کی کامیابی تسلیم کرتے ہیں۔ ان کی ان خوبیوں اور کام کرنے کے جنون سے انہیں متعدد سماجی تنظیموں کی جانب سے اعزاز سے نوازا گیا۔ پرجافائونڈیشن نامی معروف غیر سرکاری تنظیم نے انہیں ۵؍ مرتبہ بیسٹ کارپوریٹر اور رکن اسمبلی کے خطاب سے بھی نوازا ہے۔ ان کے سیاسی اور سماجی کاموں سے متعلق انقلاب نے ان سے تفصیلی گفتگو کی جس کے اقتباسات انٹرویو کی صورت میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ 
حالیہ پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کی نمایاں کامیابی کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں ؟ کیا مہاراشٹر کے اسمبلی الیکشن میں بھی اس کا فائدہ کانگریس کو ہو گا؟
 پارلیمانی الیکشن میں انڈیا ایلائنس یا کانگریس کی کامیابی، ایک دو دن کی محنت کا نہیں بلکہ راہل گاندھی کی انتھک جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ اس کامیابی میں راجیوگاندھی کی بھارت جوڑو اور نیائے یاترا کا بہت اہم رول ہے۔ ان دو یاتراؤں کے دوران انہوں نے پسماندہ ذات و قبائل کے علاوہ دیگر پسماندہ طبقات کے لوگوں سے ان کے گھروں پر جاکر ملاقاتیں کیں، جس سے ان لوگوں کو راہل گاندھی میں چھپی خوبیوں اور صلاحیتوں بالخصوص اُن کی انسانیت نوازی کا بخوبی اندازہ ہوا۔ اِس سے پورے ملک میں ایک نیا ماحول پیدا ہوا۔ لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئی۔ ا س کا نتیجہ تھا کہ لوک سبھا الیکشن میں انڈیا ایلائنس کو ووٹروں کی بھر پور حمایت حاصل ہوئی۔ اس سے انڈیاایلائنس کو بھی کافی فائدہ پہنچا۔ اس وجہ سے آج پارلیمنٹ میں انڈیا ایلائنس کے نمائندے بالخصوص راہل گاندھی بڑی مضبوطی سے اپنی بات رکھ پا رہے ہیں۔ اس بدلے ہوئے ماحول کافائدہ مہاراشٹرا سمبلی الیکشن میں مہاوکاس اگھاڑی کو یقیناً ملے گا۔ مہاراشٹر اسمبلی الیکشن کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے دہلی کے سینئر لیڈران کی ٹیم ملکارجن کھرگے اور راہل گاندھی کی رہنمائی میں اس پر مستعدی سے کام کر رہی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:’سماج وادی اراکین پارلیمان کی ممبئی آمد سے پارٹی کارکنان کا حوصلہ بلند ہوا ہے‘‘

آپ کے مطابق ریاستی اسمبلی الیکشن میں کانگریس کا موقف کیا ہونا چاہئے؟ مہاوکاس اگھاڑی کے ساتھ کن شرطوں اور کتنی سیٹوں پر الیکشن میں حصہ لینا درست ہوگا ؟
ہمارا نظریہ بالکل واضح ہے۔ کرناٹک اور تلنگانہ میں کانگریس نے جو وعدے کئے تھے، حکومت بنتےہی ان وعدوں کو پورا کیا گیا، اسی طرح مہاراشٹر میں بھی عوام سے جو وعدے کئے جائینگے، حکومت بنتے ہی اُن پر عمل در آمد کی کوشش کی جائیگی۔ ہمارے منشور کی تیاری جاری ہے۔ میں نے اعلیٰ کمان سے مطالبہ کیا ہے کہ ۲۰۱۴ء میں پر تھوی راج چوہان کی حکومت میں مائناریٹی کو ایجوکیشن میں جو ریزرویشن دیا گیا تھا، اسے منشور میں شامل کیا جائے۔ حالانکہ ۲۰۱۴ء میں مائناریٹی کو دیئے جانے والے ریزرویشن کو بامبے ہائی کورٹ نے بھی تسلیم کرلیا تھا، لیکن بی جے پی حکومت کے آنے کےبعد اس ریزرویشن کو منسوخ کر دیا گیا، مگر اس مرتبہ ہم جیت کر آئینگے تو مائناریٹی کو یہ ریزرویشن دیا جائیگا۔ اس کے علاوہ اقلیتوں کے مفاد کیلئے دیگر اسکیموں پر عمل کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ جہاں تک مہاوکاس اگھاڑی کے ساتھ سیٹوں کی تقسیم کا معاملہ ہے، اس کیلئے کانگریس اعلیٰ کمان نے ۱۰؍ رکٹی کمیٹی بنائی ہے، جو اس معاملہ پر اگھاڑی کے ذمہ داروں سے متواتر مذاکرات کر رہی ہے۔ مہاراشٹر سے ہمارے ۱۴؍ ایم پی چنے گئے ہیں۔ اسی بنیاد پر اسمبلی الیکشن میں ہمیں خاطرخواہ سیٹیں ملنے کی اُمید ہے۔ میں نے پارٹی کے اعلیٰ حکام سے اسمبلی الیکشن میں مسلم اُمیدواروں کو بھرپور نمائندگی دینے کی اپیل کی ہے۔ مہاوکاس اگھاڑی کی پوری کوشش ہوگی کہ سبھی سیٹیوں پر جیتنے والے اُمیدواروں کو ٹکٹ دیا جائے۔ 
لوک سبھا الیکشن میں مہاراشٹر سے کانگریس پارٹی نے ایک بھی مسلم اُمیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا تھا، اس پرآپ کی کیا رائے ہے؟ کانگریس پارٹی کو اسمبلی الیکشن میں کتنے مسلم اُمیدواروں کو ٹکٹ دینا چاہئے ؟
 ہم نے لوک سبھا الیکشن میں مہاراشٹر سے ایک مسلم اُمیدوار کو ٹکٹ دینے کی اپیل کی تھی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔ فی الحال مہاراشٹر میں کانگریس پارٹی کا مسلم ایم ایل سی بھی نہیں ہے۔ اس جانب ہم نے پارٹی کے اعلیٰ لیڈران کی متعدد مرتبہ توجہ مبـذو ل کرائی تھی جس کے پیش نظر اب ان لیڈروں نے وعدہ کیا ہے کہ اسمبلی الیکشن میں مسلم نمائندگی کا پورا خیال رکھا جائیگا۔ 
انڈیا اتحاد کا مستقبل کتنا روشن ہے ؟ کیا یہ اتحاد طویل عرصے تک برقرار رہ پائے گا ؟
پارلیمنٹ کی کارروائی اس بات کی شاہد ہے کہ انڈیا الائنس انتہائی مضبوطی اور اتحاد کے ساتھ اپنا موقف رکھ رہا ہے۔ روز بہ روز یہ اتحاد مضبوط ہو رہا ہے۔ اس نے پارلیمانی الیکشن میں جو موضوعات اُٹھائے تھے، وہ راہل گاندھی، اکھلیش یادو، شرد پورا، اُدھوٹھاکرے اور تیجسوی یادو یا اُن کے نمائندوں کے ذریعے پارلیمنٹ سیشن میں بھی اُٹھائے جارہے ہیں۔ راہل گاندھی کا، ذات پر مبنی سروے کا معاملہ اُٹھانا اور اسی سیشن میں اسے پاس کرانے پر زور دینا، یہی سمجھاتا ہے کہ مستقبل میں اَلائنس کی حکومت بنے گی۔ 
ممبادیوی سے آپ ۳؍ مرتبہ رکن اسمبلی کا انتخاب جیت چکے ہیں، اس مرتبہ بھی یہیں سے کھڑے ہونے کا ارادہ ہے یا کہیں اور سے؟ اس حلقے کے چند بڑے مسائل کیا ہیں اور انہیں حل کرنے میں آپ کتنے فیصد کامیاب ہوئے ہیں ؟ 
 جواب: میں شکریہ ادا کرتا ہوں ممبادیوی کے رائے دہندگان کا جنہوں نے ۳؍ مرتبہ اسمبلی میں جانے کا موقع فراہم کیا۔ ان شاءاللہ ایک بار پھر ممبادیوی سے چنائو لڑوں گا۔ گزشتہ ۱۵؍ سال میں ممبادیوی جیسی گنجان آبادی والے علاقے کی قدیم بلڈنگوں کی ازسرنو تعمیر (ری ڈیولپمنٹ) کیلئے مہاڈا کی سیس بلڈنگوں کے قانون میں متعدد قسم کی تبدیلیاں کرانے میں کامیابی ملی ہے۔ اِس سے یہاں کی پرانی بلڈنگوں کو ری ڈیولپ کرنے میں آسانی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے دیگر شہری مسائل کو بھی حل کیا گیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:کیا اب سول سروسیز میں تقرری کا عمل بھی تہہ و بالا کیا جائے گا؟

بھنڈی بازار کلسٹر ڈیولپمنٹ کے بعد اب کماٹی پورہ کلسٹر ڈیولپمنٹ کو حکومت نے ہری جھنڈی دکھائی ہے، ان ۲؍ اہم پروجیکٹوں سے آپ کے حلقےکا معیارِ زندگی بہتر ہونے کی اُمید ہے، آپ اسے کس کی کامیابی مانتے ہیں ؟
 یہ عوام کی کامیابی ہے۔ عوام کے تعاون کے بغیر کوئی پروجیکٹ مکمل نہیں ہوسکتا۔ بھنڈی بازار کا ایس بی یوٹی پروجیکٹ کاکام جاری ہے۔ کماٹی پورہ کلسٹر ڈیولپمنٹ کی اجازت، ۱۲؍ سال کی رات دن کی جدوجہد کے بعد ملی ہے۔ اِس کیلئے یہاں کے تیلگو، مراٹھی، گجراتی، مسلم اور عیسائی بھائی بہنوں کا بے حد مشکور ہوں۔ کماٹی پورہ کلسٹر ڈیولپمنٹ ان لوگوں کا خواب تھا جو اَب پورا ہونے جا رہا ہے۔ ہر خاندان کو ۵۰۰؍ مربع فٹ کا گھر ملے گا۔ اس علاقے کے لوگوں کی سہولت کیلئے ۲؍ عالیشان اسپتا ل، ۱۲؍ منزلہ گورا بائی میٹرنٹی اور سدھارتھ مرلی دیورا آئی ہاسپٹل کےاحاطے میں ۱۶؍ منزلہ کینسر اور ڈائیلا سس کے مریضوں کا اسپتال تعمیر کیا جا رہا ہے جن میں تمام جدید طبی سہولیات دستیاب ہوں گی۔ 
جنوبی ممبئی میں دراصل بھنڈی بازار، محمد علی روڈ اور ڈونگری نیز ان سے متصل دیگر علاقے مثلاً گرگائوں، قلابہ اور بائیکلہ وغیرہ، یہ سب ممبئی کے قدیم علاقے ہیں۔ جو پلان کے مطابق آباد نہیں ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں نئی عمارتوں کی تعمیر سے انفراسٹرکچر پر کافی بوجھ آرہا ہے۔ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کیلئے بڑی مقدار میں فنڈ لایا گیا ہے۔ اس کاپورا نچوڑ یہ ہے کہ اگر علاقہ کو بہتر اور قابل رہائش بنانا ہے تو کلسٹر ڈیولپمنٹ پر توجہ دی جائے۔ مجھے پوری اُمید ہے کہ مذکورہ سبھی علاقوں میں کلسٹر ڈیولپمنٹ ہوگا۔ 
اسمبلی کے ساتھ یا عنقریب میونسپل کارپوریشن الیکشن بھی ہوسکتا ہے۔ کارپوریشن کے کتنے وارڈوں میں کانگریس پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہے اور وہ کون سے حلقے ہیں ؟
مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اسمبلی الیکشن کے دو تین مہینوں بعد کارپوریشن الیکشن ہو گا۔ کانگریس پارٹی پہلے کے مقابلہ مضبوط ہوکر سامنے آ رہی ہے۔ آنے والے اسمبلی الیکشن میں کانگریس پارٹی کے اُمیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہونگے۔ اس کا براہ راست اثر کارپوریشن الیکشن میں دکھائی دیگا۔ بائیکلہ، ممبادیوی اور قلابہ وغیرہ میں ہماری ٖپوزیشن خاصی مضبوط ہے۔ ورلی، سیوڑی، دھاراوی، انٹاپ ہل، باندرہ اور چاندیولی میں بھی کانگریس کے اُمیدوار بڑی تعداد میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ ۲۰۰۲ء میں جب میں پہلی مرتبہ کارپوریٹر بنا تھا، اس وقت کارپویشن میں ۷۸؍ کانگریسی کارپوریٹر تھے۔ اس مرتبہ اس سے زیادہ کارپوریٹروں کے جیتنے کی اُمید ہے۔ 
آپ کے انتخابی حلقے میں غیر مسلم ووٹر بھی کافی تعداد میں ہیں۔ ان سے روابط کے بارے میں کچھ بتائیں ؟   مجھے ۲۰۰۷ء میں کماٹی پورہ سے پہلی بار کارپوریشن میں نمائندگی کا موقع ملا تھا، جو مسلم اکثریتی علاقہ نہیں ہے۔ مجھ سے پہلے یہاں ۱۰؍ سال شیوسینا کا کارپوریٹر تھا اس لئے مَیں تذبذب میں تھا لیکن کانگریس ہائی کمان کے فرمان پر الیکشن لڑا اور کامیاب ہوا۔ یہ کامیابی سیکولر امیج کی وجہ سے ملی تھی۔ میں نے اپنی آفس میں آنے والے کسی بھی شخص کا کام، اس کے نام سے نہیں بلکہ اس کی ضرورت کے پیش نظر کیا۔ عوام سے قطع نظر میں نے سیاسی پارٹیوں مثلاً شیوسینا، سماجوادی، ایم آئی ایم حتیٰ کہ بی جے پی کے لیڈران اور کارکنان کا بھی کام کیا ہے۔ میں پارٹی کیلئے نہیں عوام کیلئے کام کرتا ہوں۔ گول دیول مندر کا ٹرسٹ اس کی واضح مثال ہے جس کے ٹرسٹیوں کا کہنا ہے کہ ہم کبھی سوچ نہیں سکتے تھے کہ ایک مسلم رکن اسمبلی ہمارا کام کرے گا۔ 
پرجا فائونڈیشن سے آپ کو ۵؍ مرتبہ بہتر ین اور نمبر ون کارپوریٹر اوررکن اسمبلی ہونے کاخطاب مل چکا ہے، اس پر آپ کے تاثر ات کیا ہیں ؟ 
 پرجا فائونڈیشن نے مجھے ۵؍ مرتبہ نمبر ون کارپوریٹر اور رکن اسمبلی کا ایوارڈ دیا ہے۔ اس ایوارڈ کیلئے مجھ سے زیادہ میری پارٹی کے ورکر، میرے خیر خواہ اور حلقے کے رائے دہندگان مبارکباد کے مستحق ہیں جو میرے لئے دن رات محنت کرتےہیں۔ میں ان اعزازات کو ان سے منسوب کرتاہوں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK