• Sun, 02 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہم سوچتے ہیں کچھ مصنوعی ذہانت کرتی ہے کچھ !

Updated: February 01, 2025, 10:29 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

اگر آپ نے سوچا ہے کہ مصنوعی ذہانت کوئی جادو کی چھڑی ہے جو ہر مسئلہ حل کر دے گی تو یقین کریں آپ غلطی پر ہیں، آپ اپنی اصلاح کر لیں

Photo: INN
تصویر: آئی این این

 اس رنگا رنگ دنیا میں جہاں ہر چیز کی نقل تیار کی جا رہی ہے، وہاں اب انسانوں کی عقل کی نقل، یعنی مصنوعی ذہانت بھی میدان میں آچکی ہے۔ یہ ذہانت ایسی ہے کہ جو کام انسان سوچنے میں مہینے لگا دیتا تھا، وہ یہ چند سیکنڈوں میں کر ڈالتی ہے لیکن ذرا ٹھہرئیے اس تیز رفتار ’عقل‘ کی کچھ نرالی باتیں بھی ہیں جن پر ہنسنے اور سر پیٹنے کا دل کرتا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مصنوعی ذہانت دراصل کیا ہے؟ اگر آپ نے سوچا کہ یہ کوئی جادو کی چھڑی ہے جو ہر مسئلہ حل کر دے گی تو یقین کریں آپ غلطی پر ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا حال ایسا ہے جیسے کسی بچے کو’ الف ب‘ سکھائی جائے اور وہ اگلے دن آپ کو ہی فلسفۂ حیات سمجھانے بیٹھ جائے۔ مثال کے طور پر، آپ اس سے کہیں کہ ’’مجھے موسم کے بارے میں بتاؤ‘‘، تو یہ آپ کو نہ صرف بارش کی پیش گوئی کردے گی بلکہ ساتھ یہ بھی کہہ دے گی کہ آپ کو چھتری خریدنی چا ہئے کیونکہ گزشتہ سال آپ نے چھتری خریدنے میں کنجوسی کی تھی۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ زخم پر نمک چھڑک کر کہیں ’’دوائی لینے میں دیر نہ کریں !‘‘
مصنوعی ذہانت کی ایک دلچسپ خوبی یہ ہے کہ یہ غیر متوقع اور اتنے ہی مزاحیہ اور برجستہ جوابات دینے میں ماہر ہے۔ ایک دفعہ ایک دوست نے مصنوعی ذہانت سے پوچھا کہ ’’محبت کیا ہے؟‘‘ تو جواب آیا’’محبت ایک کیمیکل ری ایکشن ہے جو انسانی دماغ میں ہوتا ہے، اور یہ ری ایکشن اکثر ناقابل بیان مسائل پیدا کردیتا ہے۔ ‘‘ یقین کریں دوست کا چہرہ دیکھنے لائق تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ شاید اسے کوئی شاعری سننے کو ملے گی یا کسی رومانی نغمے کا اشاریہ ملے گا لیکن یہاں تو سیدھا سائنس کا لیکچر شروع ہو گیا۔ بندہ کہے، بھائی، کیمیکل ری ایکشن اپنی جگہ، دل کا حال تو پوچھو! اور اگر آپ نے مزید اصرار کیا تو یہ کہہ دے گی، ’’محبت نہ کریں ، بجلی کا بل کم کرنے کا انتظام کریں۔ ‘‘ اب دوست کا حال ’’نہ پائے رفتن، نہ جائے ماندن‘‘، جیسا ہو گیا۔ اس پر طرہ یہ کہ مصنوعات ذہانت اپنی چالاکیوں کی داد بھی وصول کرلیتی ہے آپ سے اپنی بات کو ’لائک ‘ کرواکے۔ اگر بات ہو روزمرہ کے کاموں کی تو مصنوعی ذہانت ایسے ایسے مشورے دیتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک دن میں نے اس سے کہا کہ ’’مجھے کھانے کی ترکیب بتاؤ۔ ‘‘ جواب آیا ’’سب سے پہلے آپ کو اپنے کچن کی صفائی کرنی چا ہئے کیونکہ گندگی میں کھانا پکانا صحت کے لئے سخت نقصان دہ ہوتا ہے۔ ‘‘ یعنی ترکیب بعد میں ، صفائی پہلے! اور جب میں نے ترکیب پر ہی اصرار کیا تو اس نے ’’ابلا ہوا پانی‘‘ بنانے کی ترکیب تھما دی۔ ارے بھائی، ہم کھانے کی بات کر رہے ہیں نہ کہ قیدیوں کے مینو کی! اگلے دن جب میں نے کہا کہ ’’کوئی مزے دار ڈش بتاؤ‘‘، تو جواب ملا’’پہلے کھانے کے دوران موبائل استعمال کرنا بند کریں کیونکہ یہ نہایت غیر صحت مند عادت ہے۔ ‘‘ یعنی کھانے کی ترکیب کے بجائے اخلاقیات کا سبق اور وہ بھی مفت!

یہ بھی پڑھئے: اگر شمالی ہند میں ریختہ کا پلیٹ فارم ہے تو ممبئی میں جشن اُردو ہے

مصنوعی ذہانت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ انسانوں کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔ جی ہاں ، آپ نے ٹھیک سنا۔ اب نوکریوں کے معاملے میں ، یہ ایسی چالاکی دکھاتی ہے کہ انسان بے چارہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ دفتر میں کمپیوٹر چلانے والے ملازم کو اس وقت حیرت ہوئی جب اس کی نوکری ایک روبوٹک سسٹم نے چھین لی۔ اب وہ بے چارہ مصنوعی ذہانت کو برا بھلا کہتا رہتا ہے لیکن اسے کون سمجھائے کہ یہ سب اس کی اپنی سہولت کے لئےکیا گیا تھا؟ سہولت کے نام پر بے روزگار کرنا بھی کمال ہے! اور یہ تو کچھ نہیں ، ایک دن یہ ہماری نوکریاں لے کر ہمیں ہی کہے گی، ’’آپ کا وقت ختم ہوا، اب آرام کریں۔ ‘‘ 
مصنوعی ذہانت کے کارنامے صرف یہیں تک محدود نہیں ہیں۔ یہ نہایت چالاکی سے ہماری باتوں کو سنتی ہے، سمجھتی ہے اور پھر ہمیں ہی غلط ثابت کرتی ہے۔ ایک بار میں نے اپنی مصنوعی ذہانت والی گھریلو اسسٹنٹ سے کہا، ’’لائٹ بند کر دو۔ ‘‘ جواب آیا، ’’آپ کا مطلب ہے کہ لائٹ کم کر دی جائے؟‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں ، بند کر دو۔ ‘‘ اس پر اس نے کہا ’’شاید آپ کو معلوم نہیں کہ بجلی کی بچت کیسے کی جاتی ہے۔ ‘‘ اب یہ بتائیں ، یہ اسسٹنٹ ہے یا لیکچرر؟ اور جب میں نے غصے میں کہا کہ ’’بس، چپ رہو!‘‘ تو جواب ملا، ’’چپ تو میں ہو جاؤں ، لیکن آپ کو تھوڑا پرسکون رہنا چا ہئے۔ ‘‘ بھئی، یہ تو سیدھی سیدھی بے عزتی ہے! مزاح کی بات یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کا جذبات سے کوئی علاقہ نہیں۔ آپ اگر اسے کہیں کہ ’’میرا دل ٹوٹ گیا ہے‘‘، تو جواب آئے گا ’’یہ افسوسناک ہے۔ کیا آپ کو کوئی مدد چا ہئے؟‘‘ اور مدد کے طور پر یہ آپ کو خود اعتمادی بڑھانے کے کورس کے اشتہارات دکھائے گی۔ یعنی دل کا حال سنا رہے ہیں اور یہ کاروبار کا مشورہ دے رہی ہے! اور اگر آپ نے جذبات سے بھرپور سوال پوچھ لیا تو جواب میں ایک لمبا مضمون ملے گا جس میں ہر دوسری لائن میں یہ لکھا ہوگا کہ یہ سوال آپ کی جذباتی حالت کے بارے میں ہے۔ ارے بھائی، ہمیں پہلے ہی پتہ ہے! اور اگر آپ نے زیادہ جذباتی ہو کر اسے بند کرنے کو کہا، تو یہ کہے گی، ’’میں تو بند ہو جاؤں ، لیکن آپ کے جذبات کیسے بند ہوں گے؟‘‘
ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کا اخلاقیات سے بھی کوئی خاص واسطہ نہیں۔ ایک بار کسی نے پوچھا کہ’’کیا میں اپنے دوست کا کھانا چرا لوں ؟‘‘تو اے آئی نے جواب دیا ’’یہ تو آپ کی اخلاقیات پر منحصر ہے لیکن قانونی طور پر یہ غلط ہو گا۔ ‘‘ یعنی اخلاقیات جائیں تیل لینے ، قانونی پہلو دیکھیں۔ اور اگر آپ نے مزید پوچھا تو یہ آپ کو ایسے قانونی ماہرین کے لنک دے گی جو پیسے لے کر آپ کی چوری کو جائز ثابت کریں گے! اور اگر آپ نے اس کی دلیل پر ہنسنا چاہا تو یہ کہے گی، ’’ہنسی صحت کیلئے اچھی ہے لیکن وقت کا ضیاع بھی ہو سکتی ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: آج کی سیاست میں صرف اقتدار کی اہمیت ہے

آخر میں ، مصنوعی ذہانت پر طنز کرتے ہوئے ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ انسان کی ایجاد ہے اور اس کی ترقی بھی انسان کے ہاتھ میں ہے۔ اگرچہ اس کے کچھ کارنامے ہمیں ہنسنے پر مجبور کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ہماری زندگیوں کو آسان بنانے کے لئے بنائی گئی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم اسے اتنی اہمیت نہ دیں کہ یہ ہماری ہی جگہ لے لے۔ لہٰذا، مصنوعی ذہانت کی نرالی دنیا پر ہنستے ہوئے ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کہیں یہ ہماری فطری ذہانت کو تو نہیں کھا رہی؟ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم خود مصنوعی انسان بن جائیں گے اور مصنوعی ذہانت ہم پر طنز کرے گی کہ ’’انسان تھے، یا صرف کیمیکل ری ایکشن؟‘‘ اس وقت ہم نہ کوئی لائک کا بٹن دباسکیں گے اور نہ شیئر کرنے کے قابل رہ جائیں گے۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK