اس واقعے نے سدھا مورتی کو اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے اسی کواپنی کتاب کا عنوان بنا دیا۔ یہ کتاب مصنفہکے اپنے تجربات ومشاہدات پر مشتمل ۱۱؍ سچی کہانیوں کا مجموعہ ہے، ایسی کہانیاں جو ہمیں سماج کے مثبت اور منفی پہلوؤں سے روشناس کراتی ہیں۔
EPAPER
Updated: July 21, 2024, 3:42 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai
اس واقعے نے سدھا مورتی کو اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے اسی کواپنی کتاب کا عنوان بنا دیا۔ یہ کتاب مصنفہکے اپنے تجربات ومشاہدات پر مشتمل ۱۱؍ سچی کہانیوں کا مجموعہ ہے، ایسی کہانیاں جو ہمیں سماج کے مثبت اور منفی پہلوؤں سے روشناس کراتی ہیں۔
تین ہزار ٹانکے: معمولی لوگ، غیر معمولی زندگیاں (تھری تھاؤزنڈ اسٹِچیس)` یہ ان کتابوں میں سے ہے جو قاری کو مجبور کرتی ہیں کہ مکمل پڑھے، جلدختم کرے اور دوبارہ پڑھے۔ اس کتاب کو لاکھوں افراد نے پڑھا اور ان میں سے کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ مجموعہ ہے، سُدھا مُورتی کے اپنے تجربات پر مشتمل ۱۱؍ سچی کہانیوں کا۔ ایسی کہانیاں جو ہمیں معاشرے کے مثبت اور منفی پہلوؤں سے روشناس کراتی ہیں اور اسے بہتر بنانے کی ترغیب دیتی ہیں۔
۷۳؍ سال کی عمر میں بھی سُدھا مُورتی ایک پُرجوش سماجی خدمت گزار ہیں۔ ان کو حکومت نے پدم بھوشن کا اعزاز دیا اور حال ہی میں صدرِجمہوریہ نے راجیہ سبھا کا رُکن نامزد کیا ہے۔ وہ ایک بسیار قلم مصنفہ ہیں۔ عمر رسیدہ، نوجوان، عورتیں اور مرد سب اُن کی تحریریں شوق سے پڑھتے ہیں۔ کہانیاں لکھتی ہیں۔ دوسو کتابوں کی خالق سُدھا، ملک کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیبوں میں شامل ہیں۔ اُن کی سبھی کتابوں کے تراجم ہندوستان کی تمام بڑی زبانوں میں شائع ہوئے البتہ اردو میں مشکل سے صرف ایک عنوان دستیاب ہے۔ مہاراشٹر کے سرحد پر واقع، کرناٹک کے ایک گاؤں میں ایک متوسط خاندان میں پرورش یافتہ سُدھا نے کنّڑ میڈیم سے اسکولی تعلیم حاصل کی ہے۔ انجینئرنگ کی تعلیم کے بعد کمپیوٹر سائنس کی پروفیسر بنیں۔ مُدرّسی کا رنگ ان کی شخصیت پھر خوب چھایا رہتا ہے۔ ان کا ایک ثانوی تعارف یہ بھی ہے کہ شعبہ آئی ٹی کی دیو قامت کمپنی اِنفوسِس کے بانی نارائن مورتی اُن کے شوہر اور برطانیہ کے سابق وزیراعظم رِشی سُونَک ان کے داماد ہیں۔
ایک باب میں سُدھا اپنے کالج کا تذکرہ کرتی ہیں کہ سن۱۹۶۸ء تھا جب ۱۷؍ سال کی عمر میں انھوں نے انجینئرنگ میں داخلے کا فیصلہ کیا تو ایک تعلیم یافتہ خاندان ہونے کے باوجود سب نے اُن کی حوصلہ شکنی کی۔ بالآخر ان کے والد نے اپنی نورِ نظر کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے اجازت د ے دی۔ ہُبلی کے انجینئرنگ کالج میں ۱۴۹؍ لڑکوں کے درمیان اُس اکیلی لڑکی کا، روزِ اول ہی بہت مذاق اُڑایا گیا۔ وہ صبح شام لڑکوں کےفقرےسنتیں اور بیہودہ حرکتوں کو برداشت کرتیں۔ تُندٔ بادِ مخالف نے سُدھا کے عزم کو بُلند پروازی کی ترغیب دی۔ انھوں نے عہد کیا کہ انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے تک ان کا لباس سفید ساڑی ہوگا۔ مٹھائی، گرم پانی سےغسل اور نرم بستر سے وہ مکمل اجتناب کریں گی۔ وہ اس عہد پر قائم رہیں۔ ہرسال کلاس میں اول آتی رہیں۔ اس صنفِ نازک نے اس طرح اپنی قوت کو منوایا۔ پھر انھوں نے انجینئرنگ میں ماسٹرس ڈگری حاصل کی۔ اس دوران ٹیلکو(موجودہ ٹاٹا موٹرس) میں نوکری کا اشتہار ان کی نظر سے گزرا جس میں خواتین کو عرضی سے منع کیا گیا تھا۔ سُدھا نے فوراً ایک پوسٹ کارڈ براہ راست، جے آر ڈی ٹاٹا کو لکھا اور خواتین کےتعلق سے کمپنی کی پالیسی میں تعصب کی نشاندہی کی۔ اُنھیں بلاوا آیا، جانچ کے بعد نوکری کی پیشکش مِلی لیکن تب تک وہ مزید تعلیم کیلئے امریکہ جانے کی ساری کاغذی کاروائی مکمل کرچکی تھیں، اسلئے انہوں نے انکار کیا۔ اس پر ان کے والد نے نصیحت کی کہ ’’تمہاری کوشش سے کمپنی پالیسی میں اصلاح کے بعد اب انکار، اخلاقی طور پرقطعاً مناسب نہیں ہوگا‘‘ لہٰذا ٹاٹا گروپ میں شمولیت اختیار کرکے وہ صنعتی میدان میں اُتر پڑیں۔
یہ بھی پڑھئے: مودی کو تیسری میعاد میں اپنی شبیہ بچانے کا چیلنج
کتاب میں ایک باب کرناٹک کی جسم فروش دیو داسیوں کے مسائل پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس طبقےکی حالتِ زار کو بہتر بنانے کیلئے سُدھا مورتی نے ذاتی طور پر انتھک محنت کی۔ وہ خود ان کے ٹھکانوں پر جاکر ان میں بیداری کی کوشش کرتی تھیں۔ شروع میں ان عورتوں نے سُدھا کو ڈانٹ ڈپٹ کر، چپلیں پھینک کر بھگایا لیکن ان کے والد نے ہمت بندھائی۔ لوگوں کی نفسیات کے مدنظر، حکمت پر مبنی طریقہ کار بیٹی کو سکھایا۔ عملی مدد بھی کی۔ مسلسل کوشش سے تین ہزار دیوداسیوں کو اس پیشے سے چھٹکارا نصیب ہوا۔ ان کیلئے ایک بینک بھی قائم کیا گیا۔ ان عورتوں نے مل کر ایک گُدڑی کی سلائی کی۔ ہر ایک نے بخیے ٹانکے لگائے اور یہ چادر بڑی محبت کے ساتھ اپنی مُحسنہ کو تحفتاً پیش کی۔ ا س طرح کتاب کو یہ عنوان ملا۔
۱۹۴۳ء میں سُدھا کے والد، سرکاری ڈاکٹر آر ایچ کلکرنی کسی دوردراز مقام پر جنگلوں کے درمیان ایک ڈسپنسری میں تعینات تھے۔ موسلا دھار برسات کی ایک رات میں کچھ دیہاتی انھیں اپنے ساتھ زبردستی اٹھا کر لے گئے۔ نامعلوم مقام پر کھیتوں کے درمیان ایک مکان میں ۱۸۔ ۱۷؍ سال کی ایک حاملہ دردِ زہ سے تڑپ رہی تھی۔ دیہاتیوں نے ڈاکٹر کو دھمکایا کہ خفیہ زچگی کا راز افشا کرنے کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ ڈاکٹر نےسب کو باہر بھیجا تو لڑکی نے روتے ہوئے گزارش کی کہ اُسے اور اُس کے بچے کو مرنے کیلئے چھوڑ دیا جائے کیونکہ بِن بیاہی ماں اور ناجائزاولاد کی زندگی کیا موت کیا !کچھ دیر بعد ایک ننھی بچی جنم لیتی ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر جو کچھ کرتا ہے وہ پڑھنے سےتعلق رکھتا ہے۔ پچیس برس بعد وہی نوزائیدہ بچی، اتفاقاً آر ایچ کلکرنی کو ایک ڈاکٹر کی شکل میں ملتی ہے جس نے اپنے نرسنگ ہوم کا نام ’آرایچ‘ ڈائگنوسٹک رکھا ہوتا ہے۔ کہانی بالکل فلمی لگتی ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئے کوئی شقی القلب ہی آنکھوں کو نم ہونے سے روک سکتا ہے۔
سُدھا مورتی نےانفوسِس فاؤنڈیشن نامی ایک بڑی غیر سرکاری تنظیم قائم کی۔ لاکھوں طلبہ اس ادارے کی امداد کے ذریعے تعلیم مکمل کر پائے، مریض صحت یاب ہوئے، بے سہاروں کو روزگار ملا۔ سیکڑوں فلاحی اِدارے فاؤنڈیشن کی فراہم کردہ گرانٹ کے ساتھ معاشرے میں تعلیم، صحت، تحّفظِ ماحولیات اورعوامی بیداری میں مصروف ہیں۔ سُدھا ایک باب میں رہنمائی کرتی ہیں کہ فلاحی اداروں کو کام کرنے کے اخلاقی اور انتظامی اصول کیا اور کیسے ہوں ؟ امداد خواہوں کی درجہ بندی کیسے کی جائے ؟ اعزازی ڈاکٹریٹ کی پیشکش کے ذریعے یا بطور مہمان خصوصی مدعو کرکے رقم کی اُمید کرنے والوں سے کیسے نمٹا جائے؟ آمد و خرچ کیلئے صرف آن لائن ذریعہ کی پابندی کن مصیبتوں سے محفوظ رکھتی ہے؟ اپنی مصروفیات کے تذکرے کی آڑ میں مصنفہ بہت کچھ کہہ گئی ہیں۔
ایک باب میں حالات کی ماری، نازنین اور گریسی کی رونگٹے کھڑے کرنے والی داستانیں درج ہیں۔ خلیجی ممالک میں کام کرنے والی اُن جیسی اَن گِنت گھریلو خادماؤں کے استحصال کا ایک باقاعدہ نظام جاری ہے۔ ایک باب، ’الکو حلِک انانی مس‘ یعنی `گمنام شرابی نامی ادارے کے متعلق ہے۔ شراب کی لت میں مبتلا افراد کو اس لعنت سے چُھڑانے کا ان کا طریقہ منفرد بھی ہے اور قابل قدر بھی۔ ہماری معلومات کے مطابق یہ عیسائی ادارہ بڑے پیمانے پر سبھی مذاہب کے بادہ کشوں کو ترکِ مئےخواری کی عملی تربیت فراہم کرتا ہے۔
برہمن خاندان کے روایتی سنسکاروں کے ساتھ پلیں بڑھیں سُدھا، دھرم کو خاص اہمیت دیتی ہیں۔ بھارتیہ کلچرپر فخر کرتی ہیں اورگُن گان کرتی ہیں لیکن نقائص اورخرابیوں کا برملا اظہار بھی کرتی ہیں۔ ایک باب میں ، بنارس اور اس کے منادر کے تقدس کا پرُ عقیدت ذکر، اپنی نانی کی زبان سے بیان کیا لیکن جب خود کاشی گئیں تو وہاں شہر اور گھاٹوں پر پھیلی گندگی کو بھی قلمبند کیا۔ بڑی مشکل سے ایک جگہ ڈُبکی لگا سکیں۔
کتاب میں ’ذہن کی غذا‘ کےعنوان سے، مختلف پھلوں اور سبزیوں کا دنیا کے ملکوں سے ہندوستان آکر ہماری غذا کا حصہ بن جانے پر ایک خوش ذائقہ مکالمہ بھی شامل ہے۔ ایک اور باب ہندوستانی فلموں اور اداکاروں کی سارے عالم میں مقبولیت پر بھی ہے۔
ایک اور دلچسپ کہانی، احساس برتری سے مغلوب دو خواتین کی ہے۔ لندن کی طیارہ گاہ پر عامیانہ سے حُلیے میں سُدھا، بزنِس کلاس کی قطار میں کھڑی تھیں۔ انھیں دیکھ کر ان فیشن زدہ عورتوں نے اپنے متکبرانہ رویے کا جو ناقابلِ دید جلوہ دکھایا وہ ہم سب اپنے اطراف اکثر دیکھتے ہیں۔ بعد میں وہی خواتین، سوشل ورکروں کے سوتی کپڑوں میں ملبوس جب سُدھا کے دفتر میں چندہ وصول کرنے پہنچیں تو جو ہوا وہ ’درجۂ مویشی جات‘ کے زیر عنوان باب میں بیان کیا گیا ہے۔
سُدھا مورتی کے سادہ رہن سہن پر، سوشل میڈیا کے لِبرل ای۔ شیر کبھی غراتے ہیں کہ دولت مندوں کی سادہ زندگی بھی تشہیری مہم کےتحت ایک دکھاوا ہوتی ہے وغیرہ۔ راقم کی رائے میں اس فارمولے کا اطلاق سب مالداروں پر نہیں ہوتا۔ ایک تو وہ پہلے سے اتنی امیر نہیں تھیں۔ دوسرے، دولت کی آمد کے بعد بھی اگر وہ سادہ زندگی اور خاندانی اقدار کی پاسداری کی کُھل کر وکالت کرتی ہوں تو ان کی دولت و ثروت، راقم کو ان کی تعریف کرنے سے نہیں روک سکتی۔
آسان سلیس زبان، سُدھا کی تحریروں کی خاصیت ہے۔ مشکل الفاظ ڈھونڈنےپربھی نہیں ملتے۔ دلچسپ مکالموں سے مزین کہانی کی شکل میں پیش کرتی ہیں واقعات۔ حیرت انگیز واقعات جو ہنساتے ہیں، ُرلاتے ہیں، علم میں اضافہ کرتے اورعمل کا حوصلہ بخشتے ہیں۔ پڑھتے ہوئے کبھی یہ محسوس ہوتا ہےکہ تلخ سچائی کے اندر کچھ مقدار میں مزیدار جھوٹ بھی ملایا گیا ہے۔ ایک تقریب میں کسی نے پوچھ لیا تو وہ بولیں کہ جو نان فکشن لکھا، حقیقتاً درست ہے۔ اِس کتاب کے مطالعے کے بعد آپ خود کو سُدھا کی دیگر تصنیفات پڑھنے سے نہیں روک پائیں گے۔