• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

برطانوی ادب سے : حُسنِ کامل

Updated: July 21, 2024, 2:44 PM IST | Romania Noor | Mumbai

ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک شخص تھا جس نے محبت کی شادی کی مگر فرصت کے اوقات میں پچھتاتا رہتا تھا۔ پیشےکے لحاظ سے کھلونا ساز تھا، اور بے عیب کام کیلئے اس کا جنون پوری دنیا میں مشہور تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک شخص تھا جس نے محبت کی شادی کی مگر فرصت کے اوقات میں پچھتاتا رہتا تھا۔ پیشےکے لحاظ سے کھلونا ساز تھا، اور بے عیب کام کیلئے اس کا جنون پوری دنیا میں مشہور تھا۔ کہا جاتا تھا کہ اس نے ایک میکانکی پرندہ بنایا تھا جو لارک کی طرح سریلا گاتا تھا۔ اس نے ایسے سپاہیوں کے دستے بنائے تھے جو ہاتھوں میں تلواریں لئے تیار کھڑے تھے۔ اس کی گڑیاں ایسی لگتیں جیسے سانسیں لے رہی ہوں۔ اس کے انجن اپنی چمنیوں سے اصلی دھواں نکالتے تھے، اور مشینی ایندھن جھونکنے والے ننھے مشینی بیلچوں کے ساتھ ان میں چھوٹے چھوٹے کوئلے جھونکتے تھے۔ اس کی گڑیا کے گھر فنِ صغیر (miniature) کا کمال نمونہ تھے۔ سونے کے کمرے کی دیواروں پر چھوٹے چھوٹے ملمع شدہ آئینے لگے تھے جن میں چھوٹے چار چوبہ پلنگ منعکس ہوتے تھے اور ننھے بچے گڑیاں کے ساتھ کھیل رہے تھے جو چاول کے دانے سے بڑی نہیں تھیں۔ کھلونا ساز کی دنیا میں چھوٹی سے چھوٹی جزئیات تک سب کچھ کامل تھا سوائے ایک چیز کے، اور وہ تھی اس کی بیوی۔ بلاشبہ ان میں کبھی محبت تھی مگر کچھ برسوں بعد کھلونا ساز کو یہ سمجھ میں آگیا تھا کہ اس کی بیوی اس کےقابل نہیں ہے۔ وہ خوبصورت نہیں تھی۔ اس کی قوت فیصلہ کمزور تھی۔ وہ بد سلیقہ تھی مگر وہ یقینی طور پر اپنے شوہر سے محبت کرتی تھی۔ وہ بھی اس سے محبت کرتا تھا – مگر اس کا انداز جدا تھا۔ لیکن کیا یہ کافی ہے؟ اس نے اپنے آپ سے سوال پوچھا۔ کیا وہ اس سے کہیں زیادہ کا مستحق نہیں تھا ؟
ایک دن کھلونا ساز نے دیکھا کہ بیوی کے بال سفید ہو رہے ہیں۔ اسے یہ سخت ناگوار گزرا۔ چنانچہ اس نے اس کیلئے بالوں کا ایک وِگ بنایا۔ چمکتی ہوئی سونے کی تاروں سے بنا یہ وِگ اس نے اپنی بیوی کی کھوپڑی پر ویسے ہی ٹانکا جیسا وہ گڑیا بناتے وقت کرتا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: برسات کی یادیں : جوش ملیح آبادی

بیوی خاموش رہی۔ مگر اس نے جب آئینے میں خود کو دیکھا، اپنے بالوں کی چمکیلی، سخت تاروں کو چھوا اور اس وقت کو یاد کیا جب وہ سوچتی تھی کہ وہ ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ کچھ عرصے کیلئے کھلونا ساز خوش ہو گیا۔ لیکن پھر اس نے محسوس کیا کہ اس کی بیوی بلاوجہ بولتی رہتی ہے۔ ایک دن جب وہ سو رہی تھی تو اس نے بیوی کی زبان کاٹ دی اور اس کی جگہ ایک مشینی زبان لگا دی، جو کسی سلور فش کی طرح چکنی اور گھڑی کی طرح رواں تھی۔ اس کے بعد کھلونا ساز کی بیوی اتنا ہی بولنے لگی جتنا وہ چاہتا تھا۔ 
کچھ سال تک سب کچھ ٹھیک رہا۔ پھر ایک دن کھلونا ساز نے دیکھا کہ اس کی بیوی اکثر اسے ملامتی نظروں سے دیکھتی ہے، اور بعض اوقات بغیر کسی وجہ کے رو پڑتی ہے۔ اس تبدیلی نے کھلونا ساز کو بے چین کردیا، اور یوں اس نے اپنی بیوی کیلئے بلوریں آنکھوں کا ایک نیا جوڑا بنا دیا، جو چمکدار اور منظور نظر تھیں اور کبھی بھی آنسو نہیں بہاتی تھیں۔ ان میں سوائے اطمینان کے اظہار کے اور کوئی تاثر نہ تھا۔ اسے اپنے ہنر پر بہت فخر تھا، سو اب کچھ عرصے کیلئے وہ مطمئن تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: عالمی ادب سے ایک کہانی ایک نظم: ایـثــار

لیکن جلد ہی وہ اپنی بیوی کے ہاتھوں کی طرف متوجہ ہوا۔ ہاتھ جو اکثر بھدے اور سست رفتار ہو جاتے تھے۔ اس نے اپنی بیوی کیلئے میکانکی ہاتھ بنائے، اور انہیں اس کے تن سے لگادیا۔ اس کی بیوی کے نئے ہاتھ دودھ کی طرح سفید اور کسی بھی خودکار مشین کی طرح پھرتیلے تھے، اور اسی طرح اس نے پاؤں کا ایک جوڑا بنایا۔ اور پھر آہستہ آہستہ، وقت گزرنے کے ساتھ، اس نے چینی مٹی اور اپنی مہارت سے اپنی بیوی کی ہر کمی اور خرابی کو بدل دیا۔ ’’آخر کار، یہ کامل ہے۔ ‘‘ اس نے اپنی خوبصورت بیوی کو دیکھتے ہوئے خود سے کہا۔ لیکن پھر بھی، کچھ کمی تھی۔ ابھی بھی وہ بالکل ویسی نہیں تھی جیسا کہ اس کو امید تھی۔ اور اس طرح کھلونا ساز نے یہ دیکھنے کیلئے اسے کھولا کہ اس کے اندرونی افعال کا کون سا حصہ اس نے درست کرنے میں نظرانداز کردیا ہے۔ اس نے سب کچھ اپنی جگہ پر پایا – سوائے ایک چیز کے جسے اس نے نظر انداز کیا تھا۔ ایک چھوٹی سی، معمولی چیز، اپنی مہارت اور کاریگری کی پیچیدگیوں میں وہ اتنی گہرائی تک مگن ہو گیا تھا کہ اُس نے اِس کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔ یہ اُس کا دل تھا – جو ٹوٹ گیا تھا۔ 
’’میں حیران ہوں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ اس نے اپنی بیوی کے ٹوٹے ہوئے دل کی جگہ نیا دل بنانے کا مکمل طور پر ارادہ کرتے ہوئے کہا۔ لیکن پھر اس نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ وہ کام کرنے کے بینچ پر ساکت، حسین اور پیلی پڑی ہوئی تھی۔ ہر طرح سے پُر سکون اور پیاری۔ اس کا ہر عضو جگمگاتا اور جھلملاتا ہوا لگ رہا تھا۔ ’’ تمہیں دل کی بالکل ضرورت نہیں ہے، کیا تمہیں ضرورت ہے، میری جان؟‘‘ وہ اس سے مخاطب ہوا۔ اور یوں اس نے ٹوٹے ہوئے دل کو اٹھا کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ پھر بیوی کی طرف پلٹا اور اس کے خوبصورت سلور فش دہن کو چوما، اس کی چمکتی ہوئی آنکھوں میں دیکھا اور کہا: ’’بالآخر! تم کامل ہو!‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK