• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

برسات کی یادیں : جوش ملیح آبادی

Updated: July 21, 2024, 2:30 PM IST | Josh Malihabadi | Mumbai

برسات کا میں بچپن سے عاشق ہوں، لیکن ہائے اُس دور کی برساتیں اب کہاں، جھومتی، امنڈتی، شور کرتی گھٹائیں کچھ ایسی کڑک، چمک اور کچھ اس قدر گونج گرج کے ساتھ اٹھتی تھیں کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گر پڑے گا اور زمین پاش پاش ہوکر گزوں دھنس جائے گی۔ 

Photo: INN
تصویر : آئی این این

برسات کا میں بچپن سے عاشق ہوں، لیکن ہائے اُس دور کی برساتیں اب کہاں، جھومتی، امنڈتی، شور کرتی گھٹائیں کچھ ایسی کڑک، چمک اور کچھ اس قدر گونج گرج کے ساتھ اٹھتی تھیں کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گر پڑے گا اور زمین پاش پاش ہوکر گزوں دھنس جائے گی۔ 
  پانی برسنے پر آتا تھا تو تھمنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ پندرہ پندرہ دن کی جھڑی لگ جایا کرتی اور گلیوں سے آوازیں آیا کرتی تھیں ’’برسو رام دھڑاکے سے، بڑھیا مر گئی فاقے سے‘‘ اور ’’کوڑی گئی ریت میں، پانی گیا کھیت میں۔ ‘‘ ہمارے آم کے باغ، کوئلوں ، پپیہوں اور موروں کی آوازوں سے گونجنے لگتے تھے۔ اُونچے اونچے درختوں میں جھولے پڑتے تھے۔ تالاب میں آم تیرتے تھے، تالاب کے کنارے کے بنگلے میں گانا بجانا ہوتا تھا۔ ’’اندرسے‘‘ کی گولیاں بازار سے آتی تھیں۔ ایک طرف چھپڑ میں پوریاں تلی اور برھیاں پکائی اور ایک طرف دیگیں چڑھائی جاتی تھیں۔ تالاب میں تیر تیر کر آم کھائے جاتے تھے۔ آپس میں گٹھلیاں چلتی تھیں اور تمام دن دھومیں مچائی جاتی تھیں۔ ہم تینوں بھائی اپنے باپ اور ان کے احباب کی ان رنگ رلیوں کو دیکھتے ضرور تھے لیکن شریک نہیں کئے جاتے تھے۔ خیال یہ تھا کہ اگر ہم پانی میں اتریں گے تو ڈوب جائیں گے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اَدب اجتماعی شعور کی انفرادی دریافت اور تخلیقی اظہار کا نام ہے

میرا جی چاہتا تھا کہ میں بھی تالاب میں کود پڑوں، لوگوں کو گٹھلیاں ماروں، ڈوبوں اور اچھلوں اور شور کروں، لیکن باپ کا حکم نہیں تھا۔ جب تھوڑی دیر کے بعد ہمیں باغ سے گھر بھیج دیا جاتا تھا تو ہم سب اپنی تمنا کو یوں نکالتے تھے کہ ہماری انگنائی کے گوشے میں جو ایک بہت بڑا ہرا بھرا نیم کا درخت تھا اُس میں جھولا کرتے تھے۔ ہماری دادی جان جھولا جھلانے والیوں کو یہ تاکید فرما دیتی تھیں کہ بچوں کو آہستہ آہستہ جھلایا جائے۔ مگر میں یہ چاہتا تھا کہ میرا ہر پینگ آسمان کو چھولے۔ اس لئےچیخا کرتا تھا کہ ارے زور سے جھلاؤ، زور سے اور کھلانے والیاں ادھر اُدھر دیکھ کر میری پینگ تیز کردیا کرتی تھیں۔ 
 درخت کے سامنے ایک سہ دری تھی جس میں ہماری پھوپھی نواب بیگم کے گھر جانے کی ایک کھڑکی تھی۔ اس سہ دری سے برساتی پکوانوں کی خوشبو جب ناک میں آتی تھی، چولہے کا ہلکا پھلکا دھواں جب گھٹاؤں سے لدی ہوئی رنگین فضا پر ایک پیچ و خم کے ساتھ تیرتا تھا اور جھولتے ہوئے جب نیم کے گرد حلقہ باندھ کر لونڈیوں باندیوں کے گیت کانوں سے مس ہوتے تھے اور شاخوں سے بوندوں کی ٹپ ٹپ اور بھیگی ہوئی نیم کی صحت افزا خوشبو میرے خون میں گنگناتی اور سرسراتی تو مجھے اپنے تن بدن کا بھی ہوش نہیں رہتا تھا، اور میں کیا ہوں، میں کہاں ہوں اس بات کا کچھ پتہ ہی نہیں چلتا تھا:
خلوت خاص عشق رابنگر=کہ بروں کردہ اندنیزمرا

یہ بھی پڑھئے: عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۲)

وہ گھڑی اب تک مجھے یاد ہے کہ حسب معمول ایک روز اودی اودی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں اور ہم سب گیتوں کی پھوار میں کھول رہے تھے کہ ایک رقت آمیز تھرتھراتی آواز نے یہ سارا خوشی کا طلسم ایک آن میں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ آواز میری کھلائی ’’بڑی بی‘‘ کی تھی جنہوں نے حضرت ’’جان عالم‘‘ واجد علی شاہ کی یاد میں، جن کے بغیر تمام اودھ ایک ماتم کدہ بنا ہوا تھا، یہ درد بھرا گیت اپنی نوے برس کی کانپتی آواز میں گانا شروع کردیا تھا کہ ’’ارے تم بن برکھا نا سہائے، مورے کلکتے کے جویا، اللہ تمہیں لائے (ہائے تمہارے بغیر مجھے برسات اچھی نہیں معلوم ہورہی ہے، اے میرے کلکتے جانے والے اللہ تمہیں واپس لائے)۔ 
 نیز غمگین و تلخ لمحہ بھی میرے حافظے میں اب تک جاگ رہا ہے جب ’’بڑی بی‘‘ کو روتا دیکھ کر میں جھولے سے کود پڑا اور ان سے چمٹ چمٹ کر رونے لگاتھا۔ اس وقت میری پھوپھی نواب بیگم جنہیں ’’نبن بی بی‘‘ کہا جاتا تھا، اتفاقاً ادھر آنکلی تھیں اور مجھے روتا دیکھ کر انہوں نے میری ’’بڑی بی‘‘ کو جھڑک کر یہ کہاتھا کہ ’’آگ لگے تمہارے گانے کو، بھاڑ میں جائے تمہارا گانا، بچہ چہکوں پہکوں رو رہا ہے۔ ‘‘ پھوپھی کی جھڑکی سن کر ’’بڑی بی‘‘ تلملا اٹھی تھیں اور اپنی روتی ہوئی آنکھیں ان کی آنکھوں میں ڈال کر اب انہوں نے اپنا اکے دکے بال والا سفید سر پیٹ پیٹ کر یہ کہا تھا کہ ’’بنن بی بی۔ چھاتی پر ہاتھ دھر کر خدا لگتی کہو کہ جس نصیبوں جلی کا ساون مٹیابرج میں بند کردیا گیا ہے وہ نگوڑی کیوں نہیں روئے گی، ہائے کیونکر نہیں روئے گی ‘‘ تو آ س پاس کی تمام عورتوں کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں اور خود میری بدمزاج پھوپھی بھی آنکھوں پر پلو رکھ کر رونے لگی تھیں اور یہ رونا جنگل کی آگ کی طرح پھیل کر تمام گھر پر چھا گیا تھا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا گویا اودھ کی تہذیب کا جنازہ اٹھایا جارہا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK