• Wed, 08 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

دہلی فساد: ۴؍سال بعد مقدمہ سے تو بری ہوگئے مگرخاندان تباہ ہوگئے

Updated: January 06, 2025, 5:13 PM IST | Adnan Aqeel / Aqib Nazir / Huda Ayesha | New Delhi

ذیلی عدالتیں  اب تک ۱۸۰؍ افراد کو مقدموں سے بری اور ۷۵؍ کو ڈسچارج کرچکی ہیں مگر مقدمہ میں ماخوذ کئے جانے کی وجہ سے جو نقصان پہنچنا تھا وہ پہنچ چکا اوراس کا مداوا ممکن نہیں

Abubakar, 28, with his father. Now he wants to get a passport and go abroad for work. Photo: INN
۲۸؍ سالہ ابوبکراپنے والد کے ساتھ ۔اب وہ پاسپورٹ بنا کربیرون ملک روزگار کیلئے جانا چاہتے ہیں۔ تصویر: آئی این این

دہلی فساد کے ایک  مقدمہ میں ماخوذ کئے کئے گئے ۴؍ افراد کو  ۴؍ سال اور ۵؍ مہینے بعد ۲؍ اگست ۲۰۲۴ء کو تمام الزامات سےبری کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہاگیا کہ ’’ملزمین کو اس واردات کا مجرم اور فسادی ہجوم کا حصہ ثابت کرنے کیلئے (پولیس کے ذریعہ)  پیش کئے گئے  ریکارڈ میں ان کے خلاف  ثبوت کا شائبہ تک نہیں ہے۔‘‘ اِس  نمائندہ نے ان چاروں ہاشم علی (۵۸؍ سال)، ابو بکر (۲۸؍ سال)، محمد عزیز (۲۸؍ سال) اور نجم الدین (۲۸؍ سال)  سے گفتگو کی۔ یہ لوگ شمال مشرقی دہلی کی شیو وِہار کالونی میں رہتے ہیں۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں ۲۴؍  اور ۲۵؍ فروری کو ہونےوالے فساد میں ۵۳؍ افراد  ہلاک ہوئے تھےجن میں سے  تین چوتھائی  مسلمان تھے۔

ہاشم علی، ابو بکر، محمد عزیز اور نجم الدین ان ۱۸۰؍ افراد میں شامل ہیں جو گزشتہ ۴؍ برسوں میں  دہلی فساد کے مقدموں سے باعزت بری  ہوچکے ہیں۔ یاد رہے کہ مقدموں کی سماعت شروع ہونے کے  بعد  ۲۰۲۱ء میں ہی دہلی کی ذیلی عدالتوں کے جج اقلیتوں کے خلاف بنائے گئے ان مقد موں کو  ’’بالکل مضحکہ خیز، بے بنیاد، بے وقوفی پر مبنی، مضحکہ خیز، لاپروائی کا نتیجہ اور عدالتی نظام کا غلط استعمال‘‘  قرار دے چکے ہیں۔  ایک دوسرے مقدمے میں  دہلی فساد، مجرمانہ سازش اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات سے ۱۱؍ مسلمانوں کو مئی ۲۰۲۴ء میں بری کرتے ہوئے  جج نے مقدمہ کوفرضی گواہوں اور مسخ شدہ بیانات کے ذریعہ تیار کیاگیا ’’من گھڑت‘‘  مقدمہ قرار دیاتھا۔

یہ بھی پڑھئے: نااُمیدی کے بیچ چند عدالتی فیصلوں نے اُمید جگائی

ایک اور کیس میں سماعت کے دوران کورٹ نے کہاتھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مقدمہ جعلی شواہد کی بنیاد پر تیار کیاگیاہے۔اس معاملے میں پولیس کے ایک خفیہ مخبر نے ۱۳؍ خواتین کی شناخت کرتے ہوئے بتایاتھا کہ فروری  ۲۰۲۰ء میں  انہوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرہ میں حصہ لیاتھا۔ دہلی فساد کے کئی ماہ بعد اس نے اسی طرح کا بیان گلفشاں فاطمہ،  دیوانگنا کلیتا اور نتاشا ناروال کے بارے میں بھی دیاتھا۔ دہلی کی ان تینوں طالبات پرپولیس نے فساد کی منصوبہ بندی کا الزام عائدکیا ہے۔

ہاشم علی،ابو بکر، محمد عزیز اور نجم الدین کے خلاف مقدمہ ان کے پڑوسی نریش  چند کے بیان پر مبنی ہے۔اس کا دعویٰ ہے کہ بھیڑ جس میں  یہ تمام شامل تھے، نے اس کی املاک میں توڑ پھوڑ کی اور انہیں نذر آتش کردیا۔  بعد میں کرکرڈوما کورٹ میں  انکشاف ہوا کہ ان دعوؤں کی تائید کیلئے ایک بھی ثبوت موجود نہیں ہے۔ جج نے کہا کہ ’’میں اس رائے کا حامل ہوں کہ ملزمین کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔‘‘ ان لوگوں پر ۱۴۹(غیر قانونی بھیڑ)، ۱۴۸ (مہلک ہتھیاروں کے ساتھ فساد برپا کرنا)،۳۸۰(لوگوں کے گھروں میں گھس کر چوری کرنا)،  ۴۲۷(دھوکہ دھڑی جس میں ۵۰؍ روپے یا اس سے زائد کا نقصان ہوا ہو) ۴۳۵ ؍ اور ۴۳۶؍(نقصان پہنچانے کیلئے آتشیں مادہ کا استعمال) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ا لزامات ثابت ہو نے پر انہیں ۲؍ سال سے ۱۰؍ سال تک کی قید ہوسکتی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: نفرت کو ہوا دینے والی کمار وِشواس کی بیہودہ بیان بازی

بے قصور ثابت ہونےوالے ۵۸؍ سالہ ہاشم علی نےپولیس کےذریعہ ماخوذ کئے جانے کے بعد ۷۵؍ دن پہلے تہاڑ جیل میں پھرمنڈولی جیل میں  گزارے۔ ابوبکر نے ۱۵؍ دن تہاڑ میں گزارے پھر انہیں منڈولی جیل منتقل کردیاگیا۔ مقدمہ کی شنوائی کے دوران گواہ جن میں خود مدعی نریش چند شامل ہے، اپنے بیان پر قائم نہیں رہ سکے۔  بطور ثبوت جو سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کیاگیا، اس سے ملزمین کی شناخت نہیں ہوئی۔  ۲۸؍ سالہ ابو بکر مقدمہ سے بری ہوگئے ہیں مگر ملک کے حالات سے خوفزدہ  ہیں اور پاسپورٹ بنا کر بیرون ملک روزگار حاصل کرنے کے متمنی  ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ اس کیس نے ان کے خاندان کی مالی حالت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ دہلی فساد کے متاثرین  میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، ۱۴؍ مساجد کو نقصان پہنچایاگیا مگر ملزمین کی فہرست میں بھی مسلمان ہی زیادہ ہیں۔ابوبکر نےبتایا کہ نریش چند کا گھر مدینہ مسجد سے متصل ہے۔ جب شرپسندوں نے مسجد میں آگ لگائی تواس کا گھر بھی زد میں آگیا۔ ابوبکر حیران ہیں کہ ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ نریش نے کس مجبوری میں  میرے خلاف مقدمہ درج کیا۔‘‘ پولیس نے دہلی فساد کے دوران فساد کے ۷۵۰؍  مقدمات درج کئے۔ دی پرنٹ نے پولیس کے اعداد و شمار کے  حوالے سے بتایا کہ ۲؍ ہزار ۶۱۹؍ افراد گرفتار کئے گئے جن میں سےفروری ۲۰۲۴ء تک ۲؍ ہزار ۹۴؍ ضمانت پر رہا ہوئے۔ کورٹ اب تک ۱۸۳؍ کو بر ی اور ۷۵؍ کو ڈسچارج کرچکاہے جبکہ ۴۷؍ افراد کو سزا ہوئی ہے۔ سب سے پہلے  جو ایک ہزار ۷۵۳؍ افراد گرفتار کئے گئے ان میں ۸۲۰؍ ہندو اور۹۳۳؍ مسلمان تھے۔ دوسری طرف خود پولیس کے حلف نامہ کے مطابق فساد میں ہندوؤں کے ۱۴؍ اور مسلمانوں کے ۵۰؍ گھر نذرآتش کئے گئے۔ اسی طرح ہندوؤں کی ۴۲؍ اور مسلمانوں کی ۱۷۳؍ دکانوں کو نقصان پہنچایاگیا۔

ابوبکر کی بہن گلفشاں اپنے بھائی کے بری ہونے سے خوش ہیں مگر ان کا درد ان کے اس بیان سے افشا ہے کہ ’’سب کچھ نارمل ہوگیاہے مگراب بھی اہم دنوں اور تہواروں کے موقع پر ماضی کی تلخ یادیں ہمیں خوف میں مبتلا کردیتی ہیں۔ چاہے وہ دیوالی ہو یا پھر یوم جمہوریہ۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK