سردیوں کی وہ گنگنی دھوپ جب گائوں میں خواتین گھر کاکام جلدی جلدی ختم کر کے ایک جگہ جمع ہو جاتی تھیں۔ سب کے ہاتھوں میں اون اور سَلائی ہوا کرتی تھی ۔ زمین پر ایک بڑی سی چادر یا چٹائی بچھا کر سویٹر تیار کرنے میں مصروف ہو جاتی تھیں۔
EPAPER
Updated: January 21, 2025, 10:35 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
سردیوں کی وہ گنگنی دھوپ جب گائوں میں خواتین گھر کاکام جلدی جلدی ختم کر کے ایک جگہ جمع ہو جاتی تھیں۔ سب کے ہاتھوں میں اون اور سَلائی ہوا کرتی تھی ۔ زمین پر ایک بڑی سی چادر یا چٹائی بچھا کر سویٹر تیار کرنے میں مصروف ہو جاتی تھیں۔
سردیوں کی وہ گنگنی دھوپ جب گائوں میں خواتین گھر کاکام جلدی جلدی ختم کر کے ایک جگہ جمع ہو جاتی تھیں۔ سب کے ہاتھوں میں اون اور سَلائی ہوا کرتی تھی۔ زمین پر ایک بڑی سی چادر یا چٹائی بچھا کر سویٹر تیار کرنے میں مصروف ہو جاتی تھیں۔ سردیوں کے دن چھوٹے ہوتے ہیں اور گھر کا بہت سارا کام، پھر بھی خواتین وقت نکال لیا کرتی تھیں۔ کوئی گول گلے کا سویٹر تیا کرتا تو کسی کو ہاف سویٹر بُننے کی جلدی ہوتی تھی۔ اُس وقت کالر والے سویٹر کا چلن بھی خوب تھا۔ یہ سویٹر دیدہ زیب تو تھا ہی ساتھ ہی بچے زیادہ سردی لگنے پر کالر اُلٹا کرکے کان بھی ڈھک لیا کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی شادیوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے، نٹ اَب بھی مانگنے آتے ہیں
نئے ڈیزائن کا سویٹر خواتین چھپاکر بنا کرتی تھیں، وہ وقت ان کیلئے مشکل بھرا ہوتا تھا۔ گروپ کی سہیلیاں جب انہیں تلاش کرتے ہوئے اچانک ان کے گھر آ دھمکتیں تو وہ سویٹر کے پھندے کی طرح الجھ کر رہ جاتی تھیں۔ مجھے یاد آتا ہے ہمارے یہاں اُس وقت ایک عالمہ مالیگائوں سے فارغ ہو کر آئی تھیں ، انہیں خالی اوقات میں سویٹر کے ڈیزائن سیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ نانی جب دوپہر تک گھر کے کام سے فارغ ہوتیں تو وہ ان کے پا س اون اور سَلائی لے کر بیٹھ جاتیں وہ انہیں ڈیزائن سمجھاتیں ، ایک رنگ کے اون سے کس طرح کی ڈیزائن تیار ہوگی دو تین رنگوں کے اون سے پھول پتیاں کیسے بنیں گی بہت باریکی سے وہ ان کو سمجھاتی تھیں۔ نانی کو نئے نئے ڈیزائن کے سویٹر بنانے کو ایسا شوق تھا کہ اگر راستے میں کوئی اچھے ڈیزائن کا سویٹر پہنے ہوئے انہیں نظر آ گیا تو اُسے وہ روک کر دیکھتیں اور وہ ڈیزائن اپنے ذہن میں نقش کر لیتیں۔ اسی طرح گائوں میں جب کوئی مہمان نئے ڈیزائن کا سویٹر پہن کر آتا اور انہیں کسی سے پتہ چلتا کہ وہ فلاں کے یہاں ٹھہرا ہوا ہے تو وہ کسی بہانے سے وہاں پہنچ جاتیں اور وہ نئی ڈیزائن اپنی آنکھوں میں اُتار لاتیں اور گھر پہنچتے ہی اس نئے ڈیزائن کی مشق شروع ہو جاتی۔ کئی بار کی اُدھیڑ بُن کے بعد جب وہ ڈیزائن بن جاتی تو بڑے ہی فاتحانہ انداز میں گھرکے لوگوں کو دکھاتیں یہ دیکھو...بڑا مشکل تھا لیکن میں نے بنا کر ہی دم لیا۔ گھر میں اس کی تعریف ہونے کے ساتھ ایسے الفاظ بھی سننے پڑتے تھے ...’’کیا امی آپ ہر وقت جو یہ سَلائی لئے اُلجھی رہتی ہیں ، آنکھ جواب دے جائے گی تو ایک کنارے بیٹھ جائیں گی‘‘ یہ سن کر وہ مسکرا کر کہتیں، ’’اچھا ہے بُنائی کے نمونوں میں الجھی رہتی ہوں، اس کام سے غیر ضروری پریشانیوں سے توجہ ہٹی رہتی ہے، امی ہمیشہ کہتی تھیں کہ یہ ’’ایک پنتھ دو کاج ‘‘ہے۔ اول تو وقت کا اچھا استعمال ہو جاتاہے، دوم ڈیزائن پر توجہ دینے سے صبراور استقامت بڑھتی ہے اور جب تم لوگ میرے بنے ہوئے سویٹر پہن کر گھومتے ہو تو میں بہت خوش اور مطمئن ہوتی ہوں کہ تم سب میری پیار کی ڈور سے بندھے ہو، یہ پیار کی سوئیوں پر بنے ہوئے رشتے ہیں بیٹی جو زندگی میں صبر کا درس دیتے ہیں اور سویٹر کے گرم اون کی طرح ایک دوسرے کو جوڑ کر رکھتے ہیں۔ ان کے سویٹر بُننے کے طریقے میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اگر کسی سے باتیں کرتے ہوئے دو چار پھندے گِر گئے تو اُتنا سویٹر اُدھیڑ کر گِرے ہوئے پھندے کو اُٹھاکر تبھی آگے بڑھتی تھیں۔ جب ان سے کہا جاتا ’’ پھندا چھوٹ گیا تو جانے دیں، اُسے وہیں ٹانکا لگا کر سِل دیں ، اُدھیڑ کر دوبارہ بنانے کی اتنی محنت کیوں کرتی ہیں۔ یہ سُن کر وہ ہنس کر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتیں کوئی بات نہیں بیٹی، ایک بار محنت ہو گئی تو کیا ہوا، سویٹر تو ہمیشہ کیلئے مضبوط ہو جائے گا، برسہا برس چلے گا، اگر کوئی پھندا چھوٹ گیا تو ہمیشہ وہاں سے اُدھڑنے کا خطرہ برقرار رہتا ہے۔ ساتھ ہی پھندا کم ہو جانے پر ڈیزائن بھی خراب ہو جاتی ہے۔ نصیحت بھرےانداز میں کہتیں ... ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا سویٹر سالوں سال چلانا ہے تو اس کی بُنائی میں کبھی جلد بازی مت کرنا۔ کسی پھندے کو چھوٹنے مت دینا۔ چاہے محنت تھوڑی زیادہ لگے۔ ‘‘ پھندےکا مسئلہ بڑا پیچیدہ ہوتا تھا۔ سویٹر بُنتے ہوئے خواتین چارپائی پر رکھ کر دوسرے کام میں لگ جاتیں تو اکثر بچے اس کا پھندا گرا دیتے۔ اس حرکت پر ان کی کئی بار پٹائی ہو جاتی لیکن بار بار کے منع کرنے کے بعد بھی بچے اپنی حرکت سے باز نہیں آتے۔
یہ بھی پڑھئے: پرانے زمانے میں چارپائی کی محفلوں میں کسی کو سونے کا موقع نہیں ملتا تھا
اُس وقت بُنے ہوئے سویٹر کا بڑا چلن تھا۔ چھوٹےبچے ہوں یا بڑے بزرگ سب کے جسموں پر خوبصورت ڈیزائن کے سویٹر نظرآتے تھے۔ اس وقت بھی خواتین اور لڑکیوں کا معاملہ الگ تھا وہ کپڑوں کی طرح سویٹر بھی فیشن ایبل ڈھونڈتی تھیں، بھلے ہی اس کو پہننے سے سردی نہ جائے لیکن فیشن میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دیدہ زیب ملبوسات میں ان کی جان اٹکی رہتی ہے۔ ویسے بُنے ہوئے سویٹر پہننے والے سے زیادہ خوشی بُننے والے کو ہوتی ہے۔