ممبراکوسہ کے ڈائولا گائوں کے ۷۶؍ سالہ فاروق عباس رائوت ۳۵؍سال تک اپنے آبائی کام درزی کے پیشے سے وابستہ رہے ، مقامی شعراء اور ادیبوںکے ساتھ رہنے کی وجہ سےشعر وادب کاذوق اور مطالعہ کاشوق پیدا ہوا جو آج بھی برقرار ہے
EPAPER
Updated: February 07, 2025, 11:26 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
ممبراکوسہ کے ڈائولا گائوں کے ۷۶؍ سالہ فاروق عباس رائوت ۳۵؍سال تک اپنے آبائی کام درزی کے پیشے سے وابستہ رہے ، مقامی شعراء اور ادیبوںکے ساتھ رہنے کی وجہ سےشعر وادب کاذوق اور مطالعہ کاشوق پیدا ہوا جو آج بھی برقرار ہے
ممبراکوسہ کے ڈائولا گائوں (کوسہ) میں مقیم فاروق عباس رائوت کی پیدائش ۹؍جنوری ۱۹۴۸ءکوکلوا میں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم کلوا کے لوکل بورڈاُردواسکول، جو چہارم جماعت تک تھی، سے حاصل کی۔ پانچویں کی پڑھائی پنویل سے پوری کی لیکن معاشی پریشانی کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رہ سکا۔ پانچویں تک پڑھائی کرنےکےبعدوالد کے آبائی درزی کے پیشے سے وابستہ ہوئے اور تقریباً ۳۵؍سال تک اسی پیشے سے منسلک رہے۔ ۱۹۷۰ء میں ’سوپر اسٹیچ‘کےنام سےٹیلر کی اپنی دکان شروع کی جو۱۹۹۷ء تک جاری رہی۔ بعدازیں ممبراکے معروف وکیل شمیم احسن کے ساتھ بحیثیت کلرک ملازمت کی۔ ۲۰۱۲ء تک ان کےہمراہ رہے۔ اس کےبعد بچوں نے کام کرنےسےمنع کردیا۔ فی الحال سبکدوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ شعر وادب کاذوق اور مطالعہ کاشوق ہے۔ عبادت گزاری کے بعد بچنے والے اوقات میں سوشل میڈیا کے ذریعے دین کی تشہیر میں مشغول رہنا پسند ہے۔
یہ بھی پڑھئے: پائیدھونی کے۸۸؍سالہ محمد عثمان غنی کے پاس ۳؍ہزار فلمی نغموں کا خزانہ محفوظ ہے
فاروق رائوت ۷۰ء کی دہائی میں ڈائولا گائوں میں اہل خانہ کے ساتھ رہائش پزیر تھے۔ اسی سال یہاں ہندومسلم فساد ہواتھا۔ یہاں کے مسلمانوں کی املاک کو شرپسندوں نے پوری طرح تباہ وبرباد کر دیا تھا۔ مسلمانوں کے گھروں میں کافی لوٹ مار مچائی گئی تھی۔ فساد تھمنے پر مقامی مسلمانوں نےگائوں کے بیرونی حصے میں مسلمانوں کی نئی بستی آباد کرنے کے مقصد کےتئیں مشترکہ طورپر رقم جمع کرکے ایک زمین خریدی تھی۔ اس زمین پر مسلمانوں کو نئی بستی آباد کی گئی تھی۔ ۱۹۹۲ءمیں بابری مسجد کی شہادت کےبعد ملک گیر سطح پر برپا ہونےوالے فسادات میں ایک بار پھر ڈائولا گائوں کی مسلم آبادی متاثر ہوئی تھی۔ اس دورمیں ڈائولا گائوں میں مسلمانوں کی آبادی ۶۰۔ ۵۰؍افراد پر مشتمل تھی۔ فسادکےدوران ان میں سے بیشتر افرادکو محفوظ مقامات پر منتقل کردیاگیاتھا۔
فاروق رائوت کی سوپر اسٹیچ ٹیلر کی دکان ممبرااسٹیشن کےقریب واقع ممبرا مارکیٹ میں تھی۔ ۱۹۷۰ءمیں شروع ہونےوالی دکان کو۲۷؍سال بعد ۱۹۹۷ء میں اچانک میونسپل انتظامیہ نے ایک دن بلاکسی نوٹس منہدم کر دیا تھا۔ ان کے علاوہ اسی مارکیٹ کی دیگر ۸۳؍دکانوں کو منہدم کرنےکا دل دوز واقعہ یاد کرکے وہ اب بھی مغموم ہو جاتےہیں۔ ۸۴؍دکانوں کے منہدم کئے جانے سے مارکیٹ میں افراتفری مچ گئی تھی۔ دکان والوں کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ وہ کیاکریں ۔ لوگ اپنی دکانوں کے سامان کو دیوانہ وار نکالنےاور محفوظ مقامات پر منتقل کرنےمیں مصروف تھے۔ فاروق رائوت کی دکان میں ۶؍ٹیلرنگ مشینیں تھیں۔ ان مشینوں کو جس طرح سے جلد بازی میں انہوں نے نکالاتھا اور محفوظ مقامات تک پہنچایا تھا، وہ تکلیف دہ منظر آج بھی ان کی آنکھوں میں گردش کرتاہے اور جب بھی اس واقعے کی یاد آتی ہے، آنکھوں میں نمی آجاتی ہے۔ مقامی ہمسایوں نے مشینیں اپنے گھروں میں رکھنے کی سہولت فراہم کی تھی۔ اس احسان کویاد کرکے وہ اب بھی جذباتی ہوجاتےہیں۔ چونکہ مذکورہ سبھی دکانیں قانونی تھیں ، اس لئے ان دکانوں کےبدلے جگہ ملنی چاہئے تھی۔ ان میں سے اب تک صرف ۲؍ دکانداروں کو ہی دکان مل سکی ہیں جن میں سے ایک فاروق رائوت بھی ہیں۔ ۲۴؍سال کی تگ ودو اور سخت جدوجہد کےبعد انہیں جاکر ۲۰۲۱ء میں کوسہ میں دکان ملی ہے۔
۷۰ءکی دہائی میں ممبرا میں پانی اور بجلی کی فراہمی کانظم نہیں تھا۔ لوگ کنوئوں کے پانی پر گزاراکرتے تھے۔ کنوئوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے لوگ آدھی رات کو کنویں سے پانی بھرا کرتےتھے۔ اس دورمیں یہاں کی آبادی ممبرااسٹیشن کے اطراف محدود تھی۔ اسٹیشن کے قریب ایک عام کنواں تھاجس سےمقامی لوگ اپنی پانی کی ضروریات پوری کرتےتھے۔ دیگر علاقوں میں ۵۔ ۴؍ کنویں تھے۔ جن کے گھروں یا کمپائونڈمیں یہ کنویں ہوتے تھے وہ دیگر لوگوں کو پانی نہیں دیتےتھے کیونکہ انہیں اپنی ضروریات کیلئے پانی درکارتھا۔ اس لئے ان علاقوں میں رہنے والے کچھ لوگ آدھی رات کے وقت ان کنوئوں سے پانی چوری بھی کیا کرتےتھے۔ وہ لوگ پانی چوری کرنےکیلئے ایک منفرد ترکیب اپناتے تھے۔ کنویں سے پانی نکالنےکیلئے وہ لوگ موٹرگاڑیوں میں استعمال ہونےوالے ٹیوب کی ڈولچی بناتے تھے تاکہ کنویں میں ڈولچی پھینکے پر آواز نہ ہو۔ عام طور پر اُن دنوں لوہے کی ڈولچی استعمال ہوتی تھی لیکن اس کے پھینکنے سے آوازآتی تھی۔ آواز سن کر مکان مالک ہشیار ہوجاتااور وہاں موجود لوگوں کو بھگا دیتا تھا۔ ممبرااسٹیشن کے قریب ایک سلطان سیٹھ کی چال ہے۔ ان دنوں سلطان سیٹھ کا بھی ایک کنواں تھا۔ ان کے کنویں سے بھی لوگ رات میں دوڈھائی بجے پانی نکالنے جاتےتھے۔ ایک دو مرتبہ پکڑے جانے کا خدشہ ہونےپر وہ لوگ ڈولچی چھوڑکر فرارہو گئے تھے۔ وہ دور ہی ایسا تھا کہ لوگ ایک دو بالٹی میٹھے پانی کیلئے پانی چوری کرنے پر مجبورتھے۔
یہ بھی پڑھئے: اُردو اخبارات کے مشمولات اور دہائیوں پرانے قارئین کی آراء
اس دورمیں بجلی نہ ہونے سے فاروق رائوت اپنی دکان میں ہی سوتے تھےکیونکہ ایک تو لکڑی کی بنی دکان تھی دوسرے اندھیراہونے سے چوری ہونےکا بڑا خطرہ تھا۔ دکان میں پنکھے وغیرہ کی سہولت نہ ہونے سے دیر رات تک نیند نہیں آتی تھی۔ ایسےمیں وہ ممبرا ریلولے اسٹیشن کے سامنے واقع ممبرا ریسٹورنٹ میں جب تک ہوٹل کھلی رہتی وقت گزار ی کیا کرتےتھے۔ ہوٹل گیس کی روشنی میں جاری رہتی۔ اس زمانےمیں ممبرا کی آبادی محدود تھی۔ ہوٹل خالی ہوتاتھا۔ جس کی وجہ سے اس ہوٹل میں ممبرا کے مقامی شعراءکرام کی محفل بھی سجتی تھی۔ وہاں پر آوارہ سلطانپوری، جمیل مرصع پوری، فرحت دہلوی اورغافل رام پوری جیسے بڑے شعرائے کرام شام کو اکٹھا ہوتےاور دیر رات تک شعروشاعری کاماحول جاری رہتا۔ چائے کی چسکیوں کے ساتھ شعراءکرام اپنے کلام پیش کرتے۔ اسی ہوٹل میں متعدد مرتبہ فاروق رائوت کومعروف فلمی نغمہ نگار مجروح سلطانپوری کو دیکھنےاور سننے کاموقع ملا۔ وہ اس محفل میں بالخصوص آوارہ سلطانپوری سےملاقات اور صلاح مشورہ کیلئے آتے تھے۔
ممبرا مارکیٹ میں فاروق رائوت کی دکان تھی، ان کی دکان سے آگے کی طرف ممبرا ریلوے اسٹیشن سے متصل پٹری پارکر نےکےبعد شاعر آوارہ سلطانپوری کا مکان تھا۔ وہ روزانہ اس گلی سے گزرتے وقت فاروق رائوت کی دکان پر ٹھہر کر سلام دعاکر کے آگے بڑھتےتھے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا، گھر جاتے وقت کسی وجہ سے فاروق رائوت سے سلام کلام کئے بغیر آگے بڑھ جاتے لیکن پٹری پارکرنے سے قبل خیر خیریت نہ لینےکا احساس ہوتاتو دوبارہ لوٹ کر فاروق رائوت کی دکان پر آکر کہتے، ارےمیاں فاروق ہیں ؟ اگر فاروق رائوت دکان پر ہوتے تو فوراً اثبات کااظہارکرتے۔ جس پر آوارہ صاحب کہتے، دراصل بغیر سلام دعا کئے یہاں سے گزر گیا تھا، اس بات کاخیال ہونےپر لوٹ کر آیاہوں تاکہ تمہاری خیر وعافیت معلوم کرکے جائوں۔ اس دورمیں ایسے بزرگ ہواکرتے تھے، جو بچوں کو سلام کرنےکیلئےآگے بڑھنے کی صورت میں لوٹ کر آتے تھے۔ یہ اس وقت کی تہذیب تھی۔
۹۷۔ ۱۹۹۶ء کی بات ہے۔ روزنامہ انقلاب نے طہورا سوئٹس کے اشتراک سے ایک انعامی مقابلہ منعقد کیا تھا۔ مقابلے میں فاروق رائوت اور ان کےبھائی کے بچوں نے بھی ان کی رہنمائی میں حصہ لیا تھا۔ مقابلے کا پہلا انعام ان کے بھتیجے مدثر ایوب راؤت کے نام نکلا تھا جو کہ ایک ڈبل ڈور فریزر کی شکل میں تھا۔ انعام ملنے سے وہ بہت زیادہ خوش تھا۔ آج مدثر ایوب راؤت ایک کامیاب ڈاکٹر ہے اور اپنی پریکٹس کررہا ہے۔ n