’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: July 21, 2024, 4:21 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
مسلمانوں کو اپنے لئے الگ سے ریزرویشن کا مطالبہ کرنا چاہئے؟
ملک کا آئین ریزرویشن کی فراہمی کو مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ سماجی اور اقتصادی پسماندگی کی بنیاد پر کرتا ہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ ملک میں مسلمان مجموعی طور پر پسماندہ ہیں ۔ مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی ضرورت اور اس کے حق میں دلائل مندرجہ ذیل ہیں۔
تعلیمی پسماندگی: مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تعلیمی لحاظ سے پیچھے ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، مسلمانوں کی تعلیمی شرح دیگر برادریوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ریزرویشن سے تعلیمی مواقع میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
معاشی پسماندگی: مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ریزرویشن ان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
سرکاری ملازمتیں : مسلمانوں کی نمائندگی سرکاری ملازمتوں میں بہت کم ہے۔ ریزرویشن سے ان کی شرکت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
بے روزگاری: مسلمانوں میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔ ریزرویشن سے انہیں روزگار کے مواقع فراہم ہو سکتے ہیں۔
سماجی تفریق: مسلمانوں کو مختلف سماجی شعبوں میں تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریزرویشن سے انہیں مساوی مواقع مل سکتے ہیں۔
سیاسی مواقع: ریزرویشن سے مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو اُن کے مسائل کو بہتر طریقے سے حکومت کے سامنے لا سکتے ہیں۔
اعلیٰ تعلیم: اس سے مسلم طلبہ کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ پانے میں مدد مل سکتی ہے، جس سے ان کی تعلیمی شرح بہتر ہو سکتی ہے۔
خیال رہے کہ دیگر ممالک میں بھی اقلیتوں کو مخصوص ریزرویشن فراہم کیا گیا ہے تاکہ ان کی معاشرتی اور اقتصادی حالت بہتر ہو سکے۔ اسلئے ہندوستان میں بھی مسلمانوں کیلئے ریزرویشن دیا جا سکتا ہے۔ ریزرویشن کا مقصد معاشرتی انصاف، مساوی مواقع اور پسماندہ طبقات کی حالت بہتر بنانا ہے۔ مسلمانوں کو ریزرویشن دینے سے نہ صرف ان کی معاشرتی اور اقتصادی حالت میں بہتری آسکتی ہے بلکہ یہ ملک کی مجموعی ترقی میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے، اسلئے مسلمانوں کوریزرویشن کا مطالبہ کرنا چاہئے۔
یوسف خان، گرافک ڈیزائنر، مالیگاؤں
آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کو الگ سے ریزرویشن ملنا ہی چاہئے
جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں قائم ہونے والی سچرکمیٹی نے ۲۰۰۶ء میں ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی صورتحال پر حکومت کو ایک رپورٹ سونپی تھی۔ اس میں کمیٹی نے اعدادو شمار کے حوالے سے باور کرایا تھا کہ مسلمان اس ملک میں پچھڑوں سے بھی زیادہ پچھڑا ہوا ہے۔ اسلئے اسے تعلیم اور روزگار میں ریزرویشن دے کرمین اسٹریم میں لانا ضروری ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ریلوے میں مسلمان۴ء۵؍ ہیں ۔ بینک میں ۲ء۲؍، سیکوریٹیز ایجنسیز میں ۳ء۲؍، پوسٹ کے محکمے میں ۵؍، یونیورسٹیز میں ۴ء۷؍، آئی اے ایس اور آئی پی ایس میں ۳؍ اور محکمہ صحت میں ۴ء۴؍ فیصد ہی مسلمان ہیں۔ عدلیہ میں اور براحال ہے۔ سیشن کورٹس اور ہائی کورٹس میں بمشکل۲؍ فیصد جبکہ سپریم کورٹ کے۳۶؍ ججوں میں صرف ایک مسلم ہے۔ حالانکہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی لگ بھگ۱۸؍ اورمہاراشٹر میں ۱۵؍ فیصد ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں جب مسلمانوں کی یہ حالت ہے پھر وہ ریزرویشن کیوں نہ مانگیں ؟ کیا یہی ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ ہے ؟ ماضی میں بھی محض تسلی کیلئے کمیٹی پر کمیٹی اور کمیشن پر کمیشن بنائے گئے۔ مہاراشٹر میں محفوظ الرحمان کمیٹی نے مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس سے قبل امیتابھ کنڈو کمیٹی نے بھی مسلمانوں کی ابتری کی تصویر پیش کی تھی۔ صورتحال یہ ہے کہ ملک کی ۲۸ ریاستوں میں ایک بھی چیف سیکریٹری اور ڈی آئی جی نہیں ہے۔ ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں بھی ہماری حصہ داری ہمارا منہ چڑاتی ہے۔ مہاراشٹر ہائی کورٹ نے تعلیم میں مسلمانوں کو ریز رویشن دینے کی بات کہی ہے، اس کے باوجود حکومت مذہب کی آڑ میں مکر و فریب کر رہی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ مسلمانوں کوان کی آبادی کے تناسب سے ریزرویشن دیا جائے تاکہ مسلمان بھی ملک کے مین اسٹریم میں آسکیں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
عبد الحميد افضل، ڈائریکٹر جے ایم سی ٹی سول سروسیز اکیڈمی ( ناسک )
حقوق کی ادائیگی کو مانگنا نہیں کہتے
کچھ عرصے سے ریزرویشن کے موضوع پر قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ ریزرویشن دراصل سب کا حق ہے اور اس کو ہر ایک طبقے تک میسر کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ ہر طبقے کے لوگ مین اسٹریم میں آسکیں ۔ جس طرح ابھی حال ہی میں کرناٹک کی حکومت نے مسلمانوں کو۴؍ فیصد ریزرویشن دیاہے، اسی طرح کیرلا، آندھرا پردیش، تمل ناڈو اور دیگر ریاستوں نے بھی مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کا اشارہ دیا ہے۔ ابھی جو ریزرویشن پر بات چل رہی ہے وہ اس بنا پر ہے کہ جس طرح باقی سماج کو ریزرویشن دیا جا رہا ہے، اسی طرح مسلم سماج کو بھی دیا جانا چاہئے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کہتے ہیں کہ جب تک میں زندہ ہوں تب تک مسلم سماج کو ریزرویشن نہیں دیا جاسکے گا صرف اور صرف دلت اور نچلی ذات کو ریزرویشن ملے گا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر دلت اورنچلی ذاتوں کو جن بنیادوں پر ریزرویشن دیا جارہا ہے، وہی صورتحال تو مسلمانوں کی بھی ہے، پھرمسلمانوں کو ریزرویشن کیوں نہیں ؟ مہاراشٹر میں مراٹھوں کو ریزرویشن دیا جاسکتا ہے تو مسلمانوں کو کیوں نہیں ؟ ایسے میں ضروری ہے کہ مسلمان بھی اپنے لئے الگ سے ریزرویشن کا مطالبہ کریں۔
یہ بھی پڑھئے: سنڈے اسپیشل : پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے کردار سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟
رمضان خان ہدوی، لیکچرار، کاشی پٹنہ، کرناٹک
مذہب کی بنیاد پرمسلمانوں کوریزرویشن ملنا بہت مشکل ہے
گاہے گاہے اس طرح کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں کہ مسلمانوں کو نوکری اور تعلیم میں ریزرویشن دیا جائے۔ مسلم لیڈران بھی وقفے وقفے سے اس کیلئے آوز بلند کرتے رہتے ہیں لیکن اب تک اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے حالانکہ وہ بخوبی واقف ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا، نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کی بات کرنے کے موڈ میں ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کا مطالبہ فرقہ پرست طاقتوں کو تقویت پہنچانے والا ہوگا۔ اس کی وجہ سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان خلیج اور گہری ہوتی جائے گی، اسلئے مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ آئین میں دیئے گئے حقوق اور پیشے کی بنیاد پر حاصل ریزرویشن کی مراعات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ بلا شبہ اسلام میں ذات پات کی تفریق نہیں ہے لیکن پیشوں کی بنیاد پر اُنہیں مراعات حاصل ہیں۔ اس سے جس قدر ممکن ہو، اس کا فائدہ اٹھانا چاہئے۔
ملک مومن، بھیونڈی
مسلمانوں کو الگ سے ریزرویشن کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے
مسلمانوں میں کچھ ذاتیں پچھڑی ذاتوں کی فہرست میں آتی ہیں، ان کے پاس کاسٹ سرٹیفکیٹ بھی ہے تو وہ اس کا فائدہ حاصل کر رہی ہیں۔ جن کے پاس نہیں ہیں، انھیں چاہئے کہ وہ (ای ڈبلیو ایس)سرٹیفکیٹ حاصل کرلیں اور اس کے تحت ریزرویشن کا فائدہ اٹھائیں۔ سرکار اگر مستقبل میں مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کا اعلان کر بھی دیتی ہے تو اس کا فائدہ تمام مسلمانوں کو نہیں ملنے والا ہے۔ اس کیلئےمعاشی طور پر کمزور ہونے کی شرط یقیناً رہے گی۔ ایک اور بات۔ اگر مسلمانوں کو مجموعی طور پر ریزرویشن دیا بھی گیا تو وہ دو سے تین فیصد ہوگا، اس سے زیادہ نہیں مل سکے گا۔ دوسری طرف انھیں ’ای ڈبلیو ایس‘ سے باہر کردیا جائے گا جبکہ آج کی تاریخ میں ای ڈبلیو ایس سرٹیفکیٹ رکھنے والوں کو۱۰؍ فیصد کا ریزرویشن حاصل ہے۔ ایسے میں دو یا تین فیصد ریزرویشن حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ مسلمان دس فیصد ریزرویشن کا فائدہ اٹھائیں اور اپنے لئے الگ سے ریزرویشن کا مطالبہ نہ کریں۔
مبین اظہر، مولانا آزاد روڈ، ممبئی
ریزرویشن نہیں، برابری کا حق ملنا چاہئے
ہمارے خیال سے نہیں۔ ہم کوئی پسماندہ قوم نہیں ہیں ہمیں تو برابری کا حق ملنا چاہئے۔ اسی لئے تو ہمارے آبا و اجداد انگریزوں سے لڑے تھے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہم اپنے حق کا مطالبہ کریں۔ جب ہمارے آئین نے ہر کسی کو اپنی مرضی سے جینے، رہنے، کھانے اور اپنے اپنے مذہب کو اپنانے کی آزادی دی ہے توایسے میں تعلیم اور ملازمتوں میں برابری کا حق ملنا چاہئے کیونکہ ہمیں برسوں سے دبایا اور کچلا جارہا ہے۔ اگر ہمیں برابری کے حقوق میسرہوجائیں جہاں کسی قسم کی کوئی تفریق نہ ہو، وہاں ہمیں ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا، اسلئے ہمیں مساوی حقو ق کیلئے جہدوجہد کرنی چاہئے۔ وہ مل جانے کی صورت میں ہمیں ریزرویشن کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
یہ بھی پڑھئے: ضمنی انتخابات میں ’انڈیا‘ اتحاد کی کامیابی نے بی جے پی کوبوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا ہے
مرتضیٰ خان، نیا نگر، میرا روڈ، تھانہ
ریزرویشن مسلمانوں کا حق ہے، اسلئے مطالبہ کرنا چاہئے
مسلمان اس ملک کے حصے دارہیں، کرائے دار نہیں۔ ملک کی آزادی کیلئے اور ملک کی ترقی کیلئے مسلمانوں نے بیش بہا قربانیاں پیش کی ہیں۔ افسوس کہ آج ملک کا مسلمان انتہائی پسماندگی کی زندگی گزار رہا ہے۔ سچر کمیٹی رپورٹ، رنگ ناتھ مشرا کمیشن رپورٹ اور ڈاکٹر محمود الرحمان رپورٹ، ان تمام نے یہ واضح کردیا کہ مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو ان کے اس بنیادی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو اپنے بنیادی حقوق کیلئے لڑنا چا ہئے۔
مفتی عبدالرزاق ملّی، ناظم مدرسہ عربیہ معزالعلوم پیٹھن، اورنگ آباد، مہاراشٹر
ہمیں لینے والا نہیں، ملک کو کچھ دینے والا بننا چاہئے
ہمیں ریزرویشن کے مطالبے کے بجائے زندگی کا ایک ایسا نظامِ تیار کرنا چاہئے جو ہمیں مسلک، جماعت اور گروہ بندی سے اوپر اُٹھ کر زندگی گزارنے کے قابل بنائے۔ جس میں ہم ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کر سکیں۔ صاحبِ ثروت افراد ضرورت مندوں تک خود پہنچ کر اُن کی مدد کر یں، معاملات مقامی ہوں یا قومی، ہمارے کردار سے ملک کا ہر فرد سکون محسوس کرے۔ یہ نظام زندگی کچھ ایسا ہو کہ ہم ریزرویشن لینے والے نہیں بلکہ دوسروں تک امداد پہنچانے والے بن جائیں۔ ایسا کرکے ہی ہم اپنے وجود کو بچا سکیں گے، بصورت دیگر سیاسی ماحول مسلمانوں کے پاؤں تلے سے زمین کھینچنے کی تیاری کرچکا ہے۔
محمد سلمان شیخ، تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی
مسلمانوں کو الگ سے ریزرویشن کا مطالبہ کرنا چاہئے
مسلمانوں کی پسماندگی کے مطابق ریزرویشن ان کا آئینی اور جمہوری حق ہےکیونکہ آئین کے ذریعے اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ جو طبقہ تعلیمی، سماجی اور اقتصادی سطح پر پسماندہ ہو، اسے دوسرے طبقات اور فرقوں کے ساتھ مساوات کی زندگی بسر کرنے کیلئے ریزرویشن کی سہولت فراہم کی جائے، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہورہا ہے۔ الیکشن سے قبل جن لیڈروں نے ملازمتوں میں مسلمانوں کو ریزرویشن، بجٹ میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے فنڈیا کالج یونیورسٹی جیسے مسائل کو اٹھایا تھا، انہیں یاد دلانا چاہئے کہ وہ صورتحال بھی تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ بہرحال مسلمانوں کو ریزرویشن کا مطالبہ کرنا چاہئے۔
حافظ افتخاراحمدقادری، کریم گنج، پورن پور، اترپردیش
قومی دھارے میں شمولیت کیلئے ریزرویشن ضروری ہے
سچر کمیٹی نے مسلمانوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کے علاوہ مالیاتی فنڈ کے قیام کی سفارشات پیش کی تھی مگر ا ن سفارشات کے نفاذ کے بجائے مذہب کے نام پر تنازعات پیدا کرنے کی مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مسلمانوں کی کئی ذاتیں او بی سی کے تحت آتی ہیں، کچھ طبقے ’ای ڈبلیو ایس‘ کے تحت فائدہ حاصل کر سکتے ہیں، لیکن اس سے پورا مسلم سماج استفادہ نہیں کر سکتا حالانکہ پورا مسلم سماج پسماندگی کی زندگی گزار رہا ہے۔ چنانچہ ایک مضبوط اپوزیشن کی موجودگی میں مسلمانوں کو اپنے لئے الگ سے ریزرویشن کا مطالبہ کرنا چاہئے۔
افتخار احمد اعظمی، سابق مدیر` ضیاء، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
اپنی صلاحیتوں اور مہارتوں کی طرف توجہ دیں
مسلمانوں کو مذہب سے قطع نظر سماجی و معاشی بنیاد پر ریزرویشن مل بھی جائےتواس کا فیصد اتنا کم ہوگا کہ اس سے کسی تبدیلی کی گنجائش کم ہے۔ اسلئے موجودہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ وقت کی ضیاع کے بغیر آئینی سطح پر حاصل حقوق کیلئے جدو جہد کریں۔ اسی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں اور مہارتوں کی طرف بھی توجہ دیں تاکہ ریزرویشن کے بغیر بھی زمانے سے آنکھ ملا کر بات کرسکیں۔
سعید الرحمان محمد رفیق، گرین پارک شیل ممبرا
ہمیں خود کو ریزرویشن کے دائرےمیں محدود نہیں کرنا چاہئے
مولانا وحیدالدین خاں کے ’الرسالہ ‘ میں ایک مضمون نظروں سے گزرا تھا جس کامفہوم تھا کہ ہر انسان کو اپنی صلاحیتوں کو اتنا سنوارنا اور نکھارنا چاہئے کہ اس کی صلاحیتوں کو ساری دنیا تسلیم کرے۔ جیسے بل گیٹس اور مارک زکربرگ وغیرہ۔ اسی طرح میرا اپنا خیال ہے کہ ہم خود کو ریزرویشن کے دائروں میں محدود نہ کرتے ہوئے قدرت کے عطا کئے ہوئے لامحدود صلاحیتوں کے خزانے یعنی دماغ کو پوری طرح سے استعمال کریں۔ یہی آج کےمسابقتی دور کے زمانے میں جینے اور جیتنے کے تقاضے اورکامیابی کی ضمانت ہیں۔ ریزرویشن کے دائرے میں اپنے آپ کو محدودکردینے سے اپنی زندگی کو کامیاب نہیں بناسکتے۔
ہاشمی ابوالاعلیٰ، نیا پورہ، مالیگاؤں