• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ضمنی انتخابات میں ’انڈیا‘ اتحاد کی کامیابی نے بی جے پی کوبوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا ہے

Updated: July 21, 2024, 4:20 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

گزشتہ دنوں ۷؍ ریاستوں کی ۱۳؍ اسمبلی سیٹوں پر ضمنی الیکشن ہوئے تھے جن میں سے ۱۰؍ سیٹوں پر ’انڈیا‘ اتحاد نے کامیابی کا پرچم لہرایا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ غیر اُردواخبارات نے اس پر کیا کچھ لکھا ہے؟

Uttarakhand is ruled by the BJP, yet both the seats were won by the Congress. Photo: INN
اتراکھنڈ میں بی جے پی کی حکومت ہے،اس کے باوجود وہاں کی دونوں سیٹیں کانگریس نے جیت لیں۔ تصویر : آئی این این

عوام مرکزی حکومت کے کاموں سے خوش نہیں 
 مراٹھی روز نامہ پربھات نے اپنے ۱۶؍ جولائی کے اداریے میں لکھا ہے کہ ’’حال ہی ملک کی ۷؍ ریاستوں کی ۱۳؍ اسمبلی سیٹوں کے نتائج کا اعلان کیا گیا جن میں سے ۱۰؍ سیٹیں انڈیا اتحاد نے جیت کر بی جے پی کو کراری شکست دی ہے۔یہ نتیجہ بڑی حد تک یک طرفہ ہے۔بی جے پی امیدواروں کو بیشتر جگہوں پر ذلت آمیز شکست تسلیم کرنی پڑی ہے۔ملک کا مزاج یہ ہے کہ لوگ مرکزی حکومت کے کاموں سے خوش نہیں ہیں۔ حزب اختلاف نے ثابت کردیا ہے کہ حکومت انہیں دبانے کی پوری کوشش کررہی ہے مگر عوام ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کو زبردست جھٹکا لگا ہے۔بھلے ہی بی جے پی نے اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرلی ہےلیکن حقیقت یہ ہے کہ عوامی رائے ان کے ساتھ نہیں ہے۔ ۱۳؍ اسمبلی سیٹوں کے نتائج سے یہی ثابت ہوا ہے۔ان میں ۴؍ سیٹیں مغربی بنگال کی بھی شامل ہیں جن پر ترنمول کانگریس نے قبضہ جما لیا ہے۔ان میں سے تین سیٹیں بی جے پی کے پاس تھیں۔ لوک سبھا الیکشن دوران ممتا بنرجی کے خلاف بی جے پی نے مضبوط محاذ کھولا تھا مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔دوسری طرف کانگریس پارٹی بھی اپنی پوزیشن مضبوط کررہی ہے۔اتراکھنڈ جو بی جے پی کا گڑھ تسلیم کیا جاتا ہے ،وہاں کانگریس نے ضمنی انتخابات کی دونوں سیٹیں جیت لی ہیں۔ان میں بدری ناتھ بھی شامل ہے۔بدری ناتھ ہندوؤں کیلئے ایک مقدس مقام ہے یہاں کانگریس کی جیت کے کئی طرح کے معنی نکالے جارہے ہیں۔ اس سے قبل لوک سبھا انتخابات میں ایودھیا جسے رام کی نگری کہا جاتا ہے، یہاں بھی بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عوام اب بی جے پی کی مذہبی سیاست سے اوب چکے ہیں۔ہماچل پردیش میں کانگریس نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ وہی نمبر وَن ہے۔ہمیرپور میں کانگریس امیدوار کو محض ۱۵۰۰ ووٹوں سے شکست ہوئی ہے ورنہ تینوں سیٹوں پر اس کا قبضہ ہوتا۔

یہ بھی پڑھئے: نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرنے کی مستی کہاں سے آتی ہے؟

ضمنی انتخابات میں بھی بی جے پی مخالف لہرنظر آیا
 مراٹھی اخبار روز نامہ لوک ستہ اپنے۱۵؍ جولائی کے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’لوک سبھا میں بی جے پی کی طاقت کو ۲۴۰؍ پر روک دینے والے انتخابات کےمحض ڈیڑھ ماہ بعد سات ریاستوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی بی جے پی مخالف لہر قائم ہے۔ انڈیا اتحاد نے۱۳؍ سیٹوں میں سے ۱۰؍ پر فتح حاصل کی ہے۔ بی جے پی کے حصے میں ۲؍ اور ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوا ہے۔ کانگریس نے بی جے پی کے زیر اقتدار اتراکھنڈ میں ۲؍ سیٹیں جیت لی ہے۔ہماچل پردیش میں تین میں سے۲؍ سیٹیں جیتنے سے کانگریس کی حکومت کو لاحق خطرہ ٹل گیا ہے۔مغربی بنگال میں تمام ۴؍ سیٹیں جیت کر ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس نے بی جے پی سے۳؍ سیٹیں چھین لی ہے۔ اس ضمنی انتخابات میں شکست کے دوران بی جے پی کیلئے تسلی بخش بات یہ رہی کہ مہاراشٹر میں مہا یوتی نے ودھان پریشد کی ۱۱؍ میں سے ۹؍ سیٹیں جیت کر حزب اختلاف کو بڑا جھٹکا دیا ہے۔ شمالی ہند کی ریاستوں میں بی جے پی کی ہار کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے سارے حساب کتاب غلط ثابت ہوئے۔ اسے اتر پردیش کی ۸۰؍ میں سے صرف ۳۳؍ سیٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ اتراکھنڈ کےمنگلور اور بدری ناتھ میں مسلم اور دلت کمیونٹی کے ووٹوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ ہماچل پردیش میں کانگریس کی حکومت گرانے کیلئے بی جے پی نے۶؍ اراکین اسمبلی کو اپنے پالے میں کرلیا تھا مگر ان تمام ایم ایل ایز کو انحراف قانون کے تحت نا اہل قرار دیا گیا تھا۔بعدازاں تین آزاد اراکین اسمبلی مستعفی ہوکر بی جے پی میں شامل ہوگئے تھے۔ان تینوں نے ضمنی انتخابات لڑا جن میں سے دو کو شکست ہوئی۔کانگریس پارٹی کو تقسیم کرنے اور حکومت گرانے اور پھر خود اقتدار پر قبضہ کرنے کا بی جے پی کا ’آپریشن لوٹس‘ ہماچل پردیش میں کامیاب نہیں ہوسکا۔اب یہاں کانگریس کے اراکین اسمبلی کی تعداد۴۰؍ ہوگئی ہے اسلئے خطرہ ٹل گیا ہے۔ان نتائج نے انڈیا اتحاد میں خوشی اور جوش پیدا کردیا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: بھوشی ڈیم سانحہ: موت کو دعوت دینے والی تفریح، جان لیواثابت ہوئی

ضمنی انتخابات میں بی جے پی چاروں شانے چت
 ہندی روز نامہ’ نو بھارت‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’بی جے پی کیلئے یہ تشویش اور مایوسی کی بات ہے کہ حزب اختلاف کے جس ’انڈیا‘ اتحاد کو وہ گھمنڈی قرار دے کر نیچا دکھانے کی کوشش کرتی ہے ،اس نے ۷؍ ریاستوں کی ۱۳؍ اسمبلی سیٹوں کے ضمنی الیکشن نے بی جے پی کو چاروں شانے چت کردیا۔حزب اختلاف میں شامل پارٹیاں اپنے اثر و رسوخ والی ریاستوں میں اپنے بل بوتے پر لڑیں اور این ڈی اے کی دال گلنے نہیں دی۔۱۳؍ میں سے ۱۰؍ سیٹوں پر انڈیا اتحاد نے جیت حاصل کی جبکہ بی جے پی کو صرف۲؍ اور ایک سیٹ آزاد امیدوار نے جیتی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن کا چیلنج اب بھی برقرار ہے اور اس سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بھی برقرار رہے گا۔اس ضمنی انتخابات کی خاص بات یہ تھی کہ لوک سبھا انتخابات کے بعد بھی ریاستوں کے رائے دہندگان کی ذہنیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔بنگال کی چاروں سیٹیں جیت کر ٹی ایم سی سربراہ ممتا بنرجی نے اپنا قلعہ نا قابل تسخیر رکھا ہے۔ہماچل میں کانگریس نے دو سیٹیں جیت کر اپنی تعداد ۴۰؍ کرلی ہے۔فروری میں راجیہ سبھا الیکشن کے دوران ایم ایل ایز کی بغاوت کی وجہ سے بحران میں گھری کانگریس حکومت کیلئے خطرہ ٹل گیا ہے۔لوک سبھا انتخابات میں دہلی میں ایک بھی سیٹ نہیں جیت پانے سے’آپ‘ میں مایوسی تھی لیکن جالندھر ویسٹ اسمبلی سیٹ میں ’آپ‘ کے مہندر بھگت نے بی جے پی کے شیتل انگرول کو بڑے فرق سے شکست دی۔ہندوتوا کا نعرہ بلند کرنے والی بی جے پی ایودھیا میں لوک سبھا الیکشن ہارنے کے بعد اب بدری ناتھ میں بھی اسمبلی ضمنی انتخاب ہار گئی ہے۔
ہماچل میں کانگریس کیلئے خطرہ ٹل گیا
 انگریزی اخبار’دی ہندو‘ نے لکھا ہے کہ’’۱۰؍ جولائی کو ہوئے ضمنی انتخابات کی ۱۳؍ نشستوں میں سے انڈیا اتحاد نے ۱۰؍ پر کامیابی حاصل کی ہے۔ضمنی انتخابات کے نتائج نے ظاہر کیا ہے کہ بی جے پی زمینی سطح پر انتشارکا شکار ہے۔خاص طور پر ہماچل پردیش، جہاں کانگریس نے اسمبلی کی تین سیٹوں میں سے ۲؍ پر کامیابی حاصل کی ہے جو آزاد اراکین اسمبلی کے اپنی نشستوں کے استعفیٰ دینے کے بعد خالی ہوئی تھیں۔ فروری میں وزیر اعلیٰ سکھویندر سنگھ سکھو کی حکومت اس وقت خطرے میں پڑ گئی تھی جب کانگریس کے ۶؍ اراکین اسمبلی نے ۳؍ آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر راجیہ سبھا الیکشن میں بی جے پی امیدوار کے حق میں ووٹ دیا تھا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK