• Tue, 07 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘ توکس بات کے مالک ہیں آپ؟

Updated: November 29, 2024, 4:18 PM IST | Hazrat Maulana Ubaidullah Khalid | Mumbai

یہاں جو بڑی عمروں کے لوگ ہیں، ان سے آپ پوچھیں کہ کتنوں کو انہوں نے اپنے کندھوں پہ اٹھایا، قبرستان لے گئے، قبر کے گڑھے میں اتارا اور پھر واپس آگئے۔ کتنوں کی ہم نے نماز جنازہ ادا کی، بالکل ایسا ہی ہم سب کے ساتھ بھی ہوگا اور ہر انسان کے ساتھ ہو گا، کسی کو مفر نہیں، کوئی اس سے بچ نہیں سکتا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

 الله جل جلالہٗ کا ارشاد ہے:’’پس جو کوئی دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ واقعتاً کامیاب ہو گیا، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ‘‘ (آل عمران:۱۸۵)
یہ دنیا ہے اور دنیا کا سامان ہے، جوآدمی کو دھوکے میں ڈالتا ہے اور وہ یہ خیال کرتا او رسمجھتا ہے کہ اسے یہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ ایسا ہر گز نہیں۔ یہ حقیقت اتنی بڑی حقیقت ہے، اتنی سچی حقیقت ہے کہ ہر آدمی، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، کسی بھی مذہب اور دین سے اس کا تعلق ہو یا لا دین ہو، مگر موت سب کو آنی ہے، اس سے کسی کو بھی چارہ کار نہیں، کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکتا۔ یہاں جو بڑی عمروں کے لوگ ہیں، ان سے آپ پوچھیں کہ کتنوں کو انہوں نے اپنے کندھوں پہ اٹھایا، قبرستان لے گئے، قبر کے گڑھے میں اتارا اور پھر واپس آگئے۔ کتنوں کی ہم نے نماز جنازہ ادا کی، بالکل ایسا ہی ہم سب کے ساتھ بھی ہو گا اور ہر انسان کے ساتھ ہو گا، کسی کو مفر نہیں، کوئی اس سے بچ نہیں سکتا، چاہے وہ بڑے بڑے محلات میں رہتا ہو، چاہے وہ بڑے بڑے حفاظتی نظام میں رہتا ہو، چاہے وہ بڑے بڑے معالج، ڈاکٹر اور اطباء اپنے ارد گرد رکھتا ہو، موت سے کوئی نہیں بچ سکتا، موت بہرحال آئے گی۔ 
چنانچہ سمجھ دار آدمی وہ ہے جو موت سے پہلے موت کی تیاری کر لے، اسی کو الله تعالیٰ فرمار ہے ہیں کہ جو آدمی آگ سے بچالیا گیا وہ کامیاب ہوگیا۔ 
ہر وقت موت کو یاد کریں، موت کا خیال کریں اور اس کے لئے جو طریقہ ہے، میں کہتا کہ ایک گھنٹہ نہیں، آدھا گھنٹہ بھی نہیں، پانچ منٹ بھی نہیں، بلکہ ایک سے دو منٹ، گردن نیچی کریں اور موت کا مراقبہ کریں کہ میں مر گیا ہوں، اب مجھے غسل دیا جارہے، اب کفن دیا جارہا ہے، اب جنازے کی چارپائی پر رکھا جارہا ہے، اب چار پائی کو جنازہ گاہ کی طرف لے جایا جارہا ہے، اب آپ کی نماز جنازہ ادا کی جارہی ہے او رپھر آپ کو اٹھا کر قبرستان لے جایا جارہا ہے اور قبرستان میں قبر کے پاس چارپائی رکھ دی گئی ہے اوراب لوگ آپ کو چار پائی سے اُ ٹھا کر قبر میں اتار رہے ہیں اور قبر میں اتارنے کے بعد اب قبر کو اوپر سے بند کیا جارہا ہے، اب اس پر مٹی ڈالی جارہی ہے اور جو آپ کو قبر تک پہنچانے آئے تھے وہ سب چلے گئے، بیٹا بھی چلا گیا، شوہر بھی چلا گیا، بھائی بھی چلا گیا۔ 

یہ بھی پڑھئے:مذاہب کو سمجھنا عہد حاضر کی ناگزیر ضرورت

آپ تجربہ کر لیں کہ اس میں ایک ڈیڑھ منٹ سے زیادہ نہیں لگے گا، روزانہ چاہے آپ گھر پر ہوں، چاہے دفتر میں ہوں، چاہے مسجد میں ہوں، آپ روزانہ موت کا مراقبہ کریں۔ 
الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:”موت کو، جو لذتوں کو توڑنے والی ہے، خوب کثرت سے یاد کیا کرو۔ ‘‘(المستدرک علی الصحیحین، )
دنیا کے تعلق سے اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہاں کی زندگی دھوکے کا سامان ہے۔ دھوکہ کسے کہتے ہیں ؟ دھوکہ کہتے ہیں مثلاً ایک آدمی کہے کہ کل میرے پاس آنا، میں آپ کو ایک لاکھ روپے دوں گا، آپ گئے، لیکن آپ کو پیسے نہیں ملے، تو آپ کیا کہتے ہیں کہ اس آدمی نے مجھے دھوکہ دیا، بالکل یہی صورت حال ہے، آپ کے پاس گھر ہے، آپ کے پاس جائیدادیں ہیں، آپ کے پاس دنیا کا سامان ہے، نقدی ہے، بینک بیلنس ہے، لیکن ذرا ساغور کریں کہ کیا وہ آپ کا ہے؟ موت اگر آگئی تو کیا یہ ساری چیزیں آپ کی ہیں ؟ کس بات کے مالک ہیں آپ؟! اسی کا نام دھوکہ ہے:اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں۔ لیکن موت اتنی کڑوی حقیقت ہے کہ جب اس کی ضرب لگتی ہے تو سب ختم، نہ بیوی پاس ہے، نہ بچے پاس ہیں، نہ عزیز واقارب پاس ہیں، نہ دنیا کا سازوسامان پاس ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:اسلام نے حصولِ رزق کی جدو جہد کو حلال و حرام کا پابند کیا ہے

دنیا کی زندگی جو دھوکہ ہے، اس سے نکلیں کیسے؟ وہ یہ ہے کہ موت جو ایک اٹل حقیقت ہے اور جوہر ایک کو آنی ہے، جس میں بچے، جوان، بوڑھے کی شرط اور قید نہیں، کوئی یہ کہے کہ میں تو ابھی بارہ سال کا ہوں، میں تو ابھی سترہ، بیس سال کا ہوں، مجھے موت نہیں آئے گی، موت تو بوڑھوں کو آتی ہے، ایسا نہیں ہے۔ صبح و شام کے واقعات ہیں، ہر آدمی اپنے اپنے دائرے کے اندر غور کرے، کیا اس کے خاندان میں بچے نہیں فوت نہیں ہوئے؟! نوجوانوں کو موت نہیں آئی؟! جوان رخصت نہیں ہوئے؟! سب کو موت آنی ہے جو کسی بھی وقت آسکتی ہے۔ اس کا وقت الله تعالیٰ نے ظاہر نہیں فرمایا اور یہ بھی الله تعالیٰ کا اپنے بندوں پر بہت بڑا انعام ہے کہ الله تعالیٰ نے موت کا وقت ظاہر نہیں کیا۔ 
سمجھ داری کا تقاضا ہے کہ وہ جو متاع الغرور ہے، جو دھوکے کا سامان ہے، اس میں اپنے آپ کو نہ اُلجھائے، ضرورت کے بقدر دنیا کا استعمال بالکل جائز ہے، آپ کے پاس لباس ہے، آپ کی ضرورت ہے، آپ پہنیں، لیکن اگر آپ کا کام تین تا پانچ جوڑوں سے چل سکتا ہے تو بھائی! بیس جوڑوں کی کیا ضرورت ہے؟! آخر آپ کا کام ایک گھر سے ہو سکتا ہے تو پھر چار، پانچ، چھ گھروں کی کیا ضرورت؟! جتنا متاع الغرور بڑھے گا اتنی آپ کی توجہ اور انہماک دنیا میں بڑھے گا او رجتنا آپ کا معاملہ ہلکا پھلکا رہے گا اتنا آسان ہو گا، بہت سے لوگ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ موت سامنے کھڑی ہے، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ہلکا او راپنے آپ کو کم وزن کریں، ورنہ یہ دنیا اور یہ ساری چیزیں، آپ تو اس دنیا سے چلے جائینگے، آپ کی ملکیت تو ایک لمحے میں ختم ہو جائے گی، لیکن آپ کی یہ ساری چیزیں اگر آپ نے اپنی زندگی میں اس کا بندوبست اورانتظام نہیں کیا تو یہ بہت بڑے فساد کا سبب بنے گا۔ اولاد میں فساد، بیوی بچوں میں فساد، بھائی بھائی میں فساد، لڑائیاں، جھگڑے، خدانخواستہ پھر جانی دشمنیاں، قتل۔ زن، زر، زمین ان چیزوں میں لڑائی، دشمنیاں ہوتی ہیں ، اس کا حل کیا ہے؟ حل یہ ہے کہ سب سے پہلے آدمی اپنے لئے سوچے کہ اپنا ذخیرہ آخرت میں جمع کرے، جو مرتے وقت اس کے کام آئے، آپ نے کہیں مسجد بنادی، کہیں کنواں کھدوا دیا، کہیں کوئی اور رفاہی کام کروا دیا، کسی دینی مدرسے کے اندر تعاون کر دیا، کسی بیمار کیلئے ڈاکٹر کی فیس ادا کردی تو یہ اب آپ کا ایک اثاثہ ہے، جو آپ کے کام آئے گا۔ 
 سمجھ داری کا تقاضا یہ ہے کہ انفاق فی سبیل الله کرے، یہ جو متاع الغرور ہے، یہ جو دھوکے کا سامان ہے، اسے الله کے لئے الله کی راہ میں خرچ کرے، خوب خرچ کرے اور اس کے بعد بھی جو بچے وہ اپنی زندگی کے اندر اپنے بچوں کو انصاف کے ساتھ تقسیم کر دے۔ اس حوالے سے ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ والد اگر اپنی حیات میں اپنی اولاد میں جائیداد تقسیم کرنا چاہتا ہے تو وہ ہبہ ہو گا، میراث نہیں ، بعض جاہل لوگ والد کی حیات میں والد کے مال، جائیداد میں اپنا حصہ ضروری سمجھتے ہیں، بلکہ بعض دفعہ تواپنے والد سے اس کا مطالبہ بھی کرتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے، والد کی حیات میں وہ سارا مال، جائیداد والد کی ہے، اس میں کسی کا کوئی حصہ اور تصرف کا اختیار نہیں، والد جیسے چاہے اپنی زندگی میں اس میں تصرف کرسکتا ہے۔ 
البتہ اگر والد اپنی حیات میں، اپنی جائیداد، اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے تو وہ والد کی طرف سے اولاد کو ہبہ ہو گا اور ایسی صورت میں والد کے لیے بہتر یہ ہے کہ اپنی سب اولاد میں برابر تقسیم کرے، سب کو برابر برابر مال دے، اس طرح اگر بیٹیاں ہیں تو ان کو بھی شرع کے مطابق حصہ دے۔ 
بغیر کسی وجہ کے بعض اولا دکو کم اور بعض کو زیادہ دینا بہتر نہیں۔ ایک صحابی نعمان بن بشیر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے ایک غلام دیا، اس پر میری والدہ نے کہا کہ میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک آپ رسولؐ الله کو اس ہبہ کا گواہ نہ بنا دیں۔ یہ سن کر میرے والد رسولؐ الله کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے بیٹے کو (غلام) دیا ہے، اس (بیوی) نے مجھے کہا ہے کہ میں آپ کو گواہ بناؤں۔ آپ ؐ نے دریافت فرمایا کیا بقیہ اولاد کو بھی اس کے برابر دیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں تو آپ ؐ نے فرمایا: الله سے ڈرو اوراپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔ چنانچہ میرے والد واپس لوٹے اور وہ عطیہ واپس لے لیا۔ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الھبة)
اس طرح آپ کا بوجھ کم ہو جائے گا، ایک تو سب سے پہلے انفاق فی سبیل الله، الله کے راستے میں خرچ کرناہے چنانچہ یتیموں پر خرچ کریں، بیواؤں پر خرچ کریں، ضرورتمندوں پر خرچ کریں، الله کی راہ میں جتنے مواقع ہیں ان کے اوپر خرچ کریں اور یاد رکھیں، تجربہ کر لیں، آپ سو روپے خرچ کریں، آپ کے دل کو تسلی ہوگی، آپ کو راحت ملے گی اور آپ جمع کریں، خرچ نہ کریں، آپ کی پریشانی بڑھے گی، آپ کی فکر بڑھے گی، تشویش بڑھے گی۔ جب ہم خرچ کرنے کی بات کرتے ہیں تو عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو مال داروں کا کام ہے، نہیں، نہیں ہر آدمی خرچ کر سکتا ہے، آپ ایک روپیہ خرچ کرسکتے ہوں تو اتنا ہی سہی مگر کریں، آپ پانچ روپے خرچ کرسکتے ہیں، کریں۔ قرآن و حدیث میں انفاق کی تاکید آئی ہے۔ خرچ کرو، الله کے رسول فرما رہے ہیں، چنانچہ جب خرچ کرنے کی جگہ خرچ کیا تویہ اسراف نہیں، ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ یتیموں کو نہیں دیں گے، بیواؤں کو نہیں دیں گے، مسکینوں کو نہیں دیں گے، ضرورتمندوں کو نہیں دیں گے، دینی مدارس اور مساجد کو نہیں دیں گے۔ یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔ 
ہم کیا کرتے ہیں ؟ ہم بیٹا اور بیٹی کی شادی پر پچاس پچاس لاکھ خرچ کردیتے ہیں، جبکہ حاصل اس سے کچھ بھی نہیں، اس لئے کہ اسلام سادگی سے شادی کی تعلیم دیتا ہے۔ امام الانبیاء سید الرسل ؐ کا ارشاد ہے: سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جو مشقت کے اعتبار سے سب سے کم مشقت والا ہو، وہ سب سے زیادہ بابرکت ہے اور اس کا الٹ کیا ہے؟ سب سے زیادہ بے برکت نکاح وہ ہے جس میں مشقت زیادہ ہو، بھاگ رہے ہیں، دوڑ رہے ہیں، کارڈ چھپ رہے ہیں، یہ ہو رہا ہے وہ ہو رہا ہے۔ 
 میرے دوستو! آج ہر آدمی دنیا کی دوڑ میں لگا ہوا ہے، میں نے عرض کیا کہ بقدر ضرورت دنیا کا حاصل کرنا ضروری ہے، آپ کے پاس ایسا گھر ہو، جس میں آپ گرمی سردی اور بارش سے بچ سکیں، جس میں آپ بیوی بچوں کے ساتھ راحت اور سکون کے ساتھ رہ سکیں، شریعت منع نہیں کرتی، اسلام منع نہیں کرتا، آپ کے پاس اتنا مال ہو جو آپ کی ضرورتوں میں کام آسکے، یہ منع نہیں ہے لیکن کہ وہ مال جو آپ کے لیے فتنہ بنے، وہ دنیا جو آدمی کے لیے فتنہ بنے، اس سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ 
 الله تعالیٰ ہم سب کو آخرت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے اور یہ متاع الغرور یعنی دھوکے کا سامان ہے، اس سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK