• Sun, 06 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ایمان بِاللہ اور تقویٰ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دو جہاں کی برکتیں نازل فرماتے ہیں

Updated: October 04, 2024, 4:52 PM IST | Sayyid Qutb | Mumbai

اللہ پر پختہ ایمان انسان کو اپنی خواہشات کی غلامی اور دیگر انسانوں کی غلامی سے نجات دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دوسری تمام غلامیوں سے آزاد صرف اللہ کا غلام انسان ہی اس کرئہ ارض پر مثبت تبدیلیوں کا شاندار نظام قائم کرسکتا ہے۔ ایسا شخص ان لوگوں سے قوی تر ہوگا، جو ایک دوسرے کے غلام ہیں یا اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

 ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر انہوں نے تو جھٹلایا، لہٰذا ہم نے اس بُری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔‘‘ (سورہ اعراف:۹۶) 
یہ اللہ کی سنت ِجاریہ کا ایک دوسرا پہلو ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ جھٹلانے کے بجائے مان لیتے، اور بدکرداری کے بجائے تقویٰ کی راہ اختیار کرتے، تو اللہ ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا اور بلاحساب ان کو دیتا رہتا۔ آسمانوں سے اور زمین سے ان پر برکات کی بارش ہوتی۔ قرآن کریم نے جو اندازِ تعبیر اختیار کیا ہے، اس کے پیش نظر ہم اسے ہرطرح کی فراوانی سے تعبیر کرسکتے ہیں، جو کسی ایک جنسِ ضرورت کے ساتھ خاص نہیں ہے، یعنی ہرقسم اور ہر نوع اور ہر چیز کی فراوانی جو انسانی استعمال کی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: موت کے بعد کی تیاری: خطباتِ نبویؐ سے ایک انتخاب

اس آیت میں ہم پر ایک عظیم حقیقت واضح ہوتی ہے۔ اس حقیقت کا تعلق بہ یک وقت انسانی نظریات اور انسانی زندگی کے حقائق سے بھی ہے اور اس پوری کائنات کے حقائق سے بھی۔ اس کے اندر انسانی تاریخ کا ایک اہم عنصر اور عامل بھی بیان کیا گیا ہے۔ دُنیا کے انسانوں کے وضع کردہ نظام ہائے زندگی نے اس اہم عنصر کو مکمل طور پر نظرانداز کیا ہے بلکہ اس کا انکار کیا ہے۔ وہ عنصر ہے اللہ پر ایمان اور اس سے تقویٰ۔ یہ عنصر انسانی زندگی کے حقائق سے جدا چیز نہیں ہے اور نہ انسانی تاریخ سے بلکہ ایمان باللہ اور تقویٰ وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی برکتیں نازل فرماتے ہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے، اور اللہ سے زیادہ ایفائے عہد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

یہ بی پڑھئے: فتاوے: اولاد کی موجودگی میں بھائی بہن اور پوتے پوتیاں شرعاًوارث نہیں ہوتے

ہم لوگ جو اللہ پر ایمان لانے والے ہیں، ہمارا شیوہ تو یہ ہے کہ اللہ کے اس عہد کو تسلیم کرتے ہیں، اس کی تصدیق کرتے ہیں اور اس آیت کے مفہوم و مُدعا کی تصدیق میں لمحہ بھر تردّد بھی نہیں کرتے۔ اس لئے کہ ہمارا ایمان تو ہے ہی ایمان بالغیب۔ اس ایمان کے تقاضے کے طور پر ہم اللہ کے اس عہد کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس کے بعد، ہم اللہ تعالیٰ کے اس عہد پر غوروفکر کرتے ہیں، کیونکہ اللہ نے خود حکم دیا ہے کہ تم قرآن میں غوروفکر کرو، اور غوروفکر کے بعد ہمیں اس بات کی ماہیت اور حقیقت کا علم بھی ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی فطرت زندہ ہے اور فطری حقائق کے ادراک اور قبول کرنے کی اہلیت اس میں موجودہے۔ ایسے شخص کا ادراک سچا ہے اور اس کی انسانی بنیاد صحیح و سالم ہے۔ اس شخص کے ذہن میں اس قدر وسعت ہے کہ وہ اس کائنات کے حقائق کا ادراک کرسکے۔ یہ تمام اُمور عملی زندگی میں انسان کی کامیابی کے ضامن ہیں۔
اللہ پر ایمان ایک ایسی قوت ہے، جو انسان کے جوہرِانسانیت کو آگے بڑھاتی ہے۔  یہ انسانی شخصیت کی منتشر قوتوں کو جمع کرکے انہیں ایک جہت اور رُخ پر ڈال دیتی ہے۔ انسانی شخصیت، اللہ کی قوت کی مدد سے اس جہت میں آگے بڑھتی ہے۔ اس زمین پر اللہ کے اقتدار اعلیٰ کے قیام کیلئے جدوجہد کرتی ہے اور اس کرئہ ارض کی تعمیر میں لگ جاتی ہے۔ نتیجتاًاس کرئہ ارض سے فتنہ و فساد کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے اور انسان زمین کی تعمیر و ترقی میں لگ جاتا ہے۔ اس طرح کا انسان آخرت کے ساتھ ساتھ، خود اس دُنیا کی عملی زندگی میں بھی کامیاب رہتا ہے۔
اللہ پر پختہ ایمان انسان کو اپنی خواہشات کی غلامی اور دوسرے انسانوں کی غلامی سے نجات دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دوسری تمام غلامیوں سے آزاد صرف اللہ کا غلام بننے والا ہی اس کرئہ ارض پر خلافت راشدہ کا صحیح نظام قائم کرسکتا ہے۔ ایسا شخص ان لوگوں سے قوی تر ہوگا، جو ایک دوسرے کے غلام ہیں یا اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: حادثےکی صورت میں ملنے والی رقم کو فقہاء نےحکومتی تعاون قرار دیتے ہوئے اس کے لینےکو جائز قرار دیا ہے

 خدا کا خوف ایک دانشمندانہ بیداری ہے۔ اس سے انسان سرکشی، غرور اور  بےراہ روی جیسے اخلاقی عیبوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کی سرگرمیاں اعتدال اختیارکرلیتی ہیں اور اس کی زندگی کااسلوب سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ انسان کی پوری جدوجہد محتاط ہوجاتی ہے۔ وہ سرکشی کا ارتکاب کرکے اپنی حدود سے آگے نہیں بڑھتا اور اپنی زندگی کو صالحانہ حدود میں رکھتا ہے۔ ایک صالح انسان کی زندگی توازن اور اعتدال پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ قدم آگے بڑھانے اور پیش آنے والی رکاوٹوں کے درمیان توازن پیدا کرلیتا ہے۔ وہ زمین پرمحنت کرتا ہے اور آسمانوں کی طرف نظریں اُٹھائے ہوئے ہوتا ہے۔ وہ ہوائے نفس،  سرکشی اور حق تلفی سے پاک ہوتا ہے اور اس کے دل میں ہروقت خوفِ خدا ہوتا ہے اور آخرت میں جوابدہی کا احساس غالب ہوتا ہے۔ ایسا شخص ایک صالح، نتیجہ خیز اور مفید کردار کا مالک ہوتا ہے، اور ایسا ہی شخص اللہ کی امداد کا مستحق ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے اُوپر برکاتِ الٰہی کے سائے نزول کرتے ہیں۔ اس کے کام میں خیروبرکت ہوتی ہے اور اس کی زندگی پر فلاح کا سایہ ہوتا ہے۔ اس کی زندگی بظاہر اسباب کے مطابق چل رہی ہوتی ہے، لیکن درحقیقت ایک غیبی قوت اس کی مددگار ہوتی ہے۔ 
وہ برکات جو مومنین اور اہلِ تقویٰ پر سایہ فگن ہوتی ہیں، اس آیت میں ان کی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں، لیکن وہ برکات یقیناً موجود ہوتی ہیں۔ اس آیت میں جو اشارات ہیں، ان سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان پر ہرجانب سے برکات کا نزول ہورہا ہوتا ہے ۔ اس سے مراد ہرقسم و نوع کی برکات ہیں۔ بعض برکات ایسی ہیں، جو لوگوں کے وہم و خیال میں بھی نہیں ہوتیں اور بعض ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو وہ سمجھتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ پر ایمان لانا اور اللہ سے تقویٰ کرنا، محض نجی مسئلہ ہے، اور اس کا انسان کی عملی اور اجتماعی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، ایسے لوگوں نے دراصل ایمان کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں ہے۔
 بعض لوگ کہتے ہیں: ’’ہم مسلمان ہیں اور ہمارے اُوپر رزق کے دروازے بند ہیں اور ہمارے حصے میں خشک سالی اور تباہی کے سواکچھ نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ اقوام ایسی ہیں جو نہ مومن باللہ ہیں اور نہ اہلِ تقویٰ میں سے ہیں، لیکن ان پر ہرطرف سے رزق کی بارش ہورہی ہے۔ ان کے پاس بے پناہ قوت ہے اور وہ دُنیا میں بااثر ہیں۔ لہٰذا آیت میں جس سنت الٰہیہ کا ذکر ہوا ہے، وہ ہم پر صادق کیوں نہیں آتی؟‘‘
 دراصل ایسے لوگوں نے صرف ظاہری اور سطحی پہلو کو لیا ہے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، وہ مومن اور متقی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے، نہ ان لوگوں نے خالصتاً اللہ کی بندگی اور غلامی کا رویہ اپنایا ہے۔ ان کی عملی زندگی میں کلمہ ٔطیبہ کی شہادت موجود نہیں ہے بلکہ یہ لوگ اپنے میں سے بعض غلاموں کی غلامی کر رہے ہیں۔
 میں کہتا ہوں کہ ایسے لوگ کہاں مومن ہیں؟  مومن کا تو پہلا عمل یہ ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی کو بھی الٰہ و ربّ نہ بنائے۔ مومن کا عمل یہ ہے کہ بھلائی کی دعوت دے ا ور بُرائی سے روکے تاکہ لوگ خود محسوس کریں کہ اُن کی زندگی میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔ جب ایسے مدعیان کے اسلاف حقیقی مومن اور مسلم تھے تو ان کے سامنے پوری دنیا سرنگوں تھی، ان پرآسمان و زمین کی برکات کی بارش ہوتی تھی ،اور ان کے ساتھ ان کے ربّ کا وعدہ سچا تھا، کیونکہ وہ خودسچے تھے۔ رہے وہ لوگ جن پر رزق کے دروازے کھول دیے گئے ہیں، تو یہ بھی سنت الٰہیہ کا ایک حصہ ہے: 
 ’’پھر ہم نے (ان کی) بدحالی ، خوش حالی سے بدل دی، یہاں تک کہ وہ (ہر لحاظ سے) بہت بڑھ گئے۔ اور (نا شکری سے) کہنے لگے کہ ہمارے باپ دادا کو بھی (اسی طرح) رنج اور راحت پہنچتی رہی ہے سو ہم نے انہیں اس کفرانِ نعمت پر اچانک پکڑ لیا اور انہیں (اس کی) خبر بھی نہ تھی۔‘‘(اعراف :۹۵)

یہ بھی پڑھئے: فتاوے: سود کے پیسے اور تاوان، طلاق کا مسئلہ، قصداً ترک جمعہ

  کفّار پر جو انعامات ہوتے ہیں اور اہلِ ایمان پر جو انعامات ہوتے ہیں، ان کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ برکت ِ الٰہی بعض اوقات ایک قلیل چیز میں بھی اپنے رنگ دکھاتی ہے  جب انسان ایک تھوڑی چیز سے اچھی طرح فائدہ اُٹھاتا ہے اور امن و سکون کے ساتھ خوشی اور اطمینان محسوس کرتا ہے۔دوسری جانب بڑی بڑی ترقی یافتہ اور مال دار اقوام ایسی ہیں، جو پریشانی اور  عدم اطمینان کی زندگی بسر کرتی ہیں۔ بظاہر وہ نہایت ہی امن و امان سے زندگی بسرکرتی ہیں، مگر  ان کے افراد کے درمیان کوئی تعلق باقی نہیں ہے۔ افرادِ معاشرہ کےدرمیان بے چینی کا دوردورہ ہے، اور قریب ہے کہ یہ اقوام مکمل طور پر تباہ ہوجائیں۔ سازوسامان کی کثرت ہے مگر اطمینان مفقود ہے۔ ہرچیز کی فراوانی ہے، لیکن لوگ بدکردار ہیں۔ ان کی خوش حالی ہی ان کے بُرے مستقبل کا پتا دے رہی ہے۔ یہ خوش حالی ان کے لئے انتقامِ الٰہی کا سبب ہے۔اہلِ ایمان کو جو برکات ملتی ہیں،ان کے کئی رنگ ہیں۔ ان کی ضروریات کی چیزوں میں برکت ہوتی ہے۔ انسانی ذات میں برکت ہوتی ہے، انسانی شعور میں برکت ہوتی ہے، پاکیزہ زندگیوں میں برکت ہوتی ہے، اور اس کے اندر سکون واطمینان پیدا ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ ہرطرف سہولیات تو وافر ہوں اور انسان جسمانی اور نفسیاتی پریشانیوں میں مبتلا ہو۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK