• Mon, 20 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

مسلک کے بجائے اسلام کا دفاع کیجئے

Updated: January 18, 2025, 4:10 PM IST | Doctor Mufti Tanzeem Qasmi | Mumbai

دین محفوظ رہے گا تو مسلک بھی محفوظ رہے گا اور جب دین ہی خطرہ میں ہو اور شعائر اسلام پر حملے کئے جائیں تو پھر مسلک کی حفاظت بھی نہیں ہو سکے گی۔

Unity, not sect, is necessary to protect religion. Photo: INN
دین کی حفاظت کے لئے مسلک نہیں ، اتحاد ضروری ہے۔ تصویر: آئی این این

دین پر استقامت اور اس کی اشاعت کے ساتھ بحیثیت مسلمان ہم پر جو بڑی بھاری ذمہ دار ی عائد ہوتی ہے وہ دین کا دفاع ہے۔ ہمارے گھر پر کوئی حملہ کردے، مال و جان خطرے میں ہویا عزت و آبرو پر کوئی للچائی ہوئی نظر ڈالے تو اسے ہم ہرگز برداشت نہیں کرتے۔ دین و ایمان تو سب سے قیمتی متاع ہے، اسلام کا تناور درخت زندہ رہے گا تو اس کے پھل اور سائے سے استفادہ کیا جا سکے گاورنہ اسلام کا دیا ہوا وقار مجروح ہوگا اور اس کے ذریعے ملی ہوئی عزت و آبرو کافور ہو جائے گی۔ دین اسلام اور اس کے شعائر کے تحفظ کے لئے جنگ بدر کی طرح فرشتوں کی آمد نہیں ہوگی۔ حضرت عمر فاروقؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ، صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی اور دیگر انقلابی شخصیتوں نے اپنے اپنے زمانے میں از خود اسلام کا تحفظ کیا تھا، اب غیب کے پردہ سے دوبارہ یہ نکلنے والے نہیں ہیں، آج خود مسلمان یہ طے کریں گے کہ ہمیں کس طرح شعائر اسلام کو باقی رکھنا ہے، انہیں اس کے لئے خود کھڑا ہونا ہوگا اور خود اپنی جرأت و حوصلہ سے باطل سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ 

یہ بھی پڑھئے: نفسانی خواہشات کی دوڑ نے انسانی دُنیا کو جہنم بنا دیا ہے

یہ امت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اپنی سطح اور دائرۂ کار کے مطابق اسلامی سرحد کی حفاظت کرے۔ کوئی ختم نبوت پر حملہ کرے، کوئی اسلامی اصول و عقائد پر ڈاکہ ڈالے، دین کی کسی تعلیم کو عقل کے خلاف بتاکر ماحول کو فرسودہ کرنا چاہے، ایک خدا کے وجود اور اس کی عظمت پر کسی کو اعتراض ہو، ناموس رسالت جب خطرہ میں پڑجائے یا شعائر اسلام کو مٹانے کی بات کی جائے تو اس طرح کے تمام حالات میں ہماری بے چینی بڑھ جانی چاہئے اور ہم طے کر لیں کہ ہمارے وسائل کم سہی لیکن آخری سانس تک اسلامی سرحد کا تحفظ کریں گے۔ 
ایک مسلمان اپنی طاقت کے بجائے اس رب پر یقین رکھتا ہے جس نے فرعون اور قارون جیسی طاقت کو نیست و نابود کیا ہے اور جس نے قوم عاد و ثمود اور بڑی بڑی سرکش طاقتوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا کر بے نام و نشان کردیا ہے، اللہ کی رضا کے لئے جب کوئی اخلاص کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو اس کی نصرت ساتھ ہوجاتی ہے، ناقابل تصور طاقتوں کا مشاہدہ ہوتا ہے اور ایسے نتائج سامنے آتے ہیں کہ بے سروسامانی کے عالم میں ان نتائج کا تصور بھی مشکل تھا مگر زمین پر ان کا وقوع ہو جاتا ہے۔ اس مفہوم کو قرآن کریم نے بڑے بلیغ الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے: 
’’اے ایمان والو! اگر تم اﷲ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارے قدموں کو مضبوط رکھے گا۔ ‘‘ (سورہ محمد:۷)
دفاع دین اور اس کے تحفظ و اشاعت کے لئے جو بھی کوششیں کی جائیں گی ان کی برکت سے خود دین پر استقامت نصیب ہوگی، دنیوی و اخروی سرفرازی بھی حاصل ہوگی، زندگی کے مسائل خود حل ہوتے جائینگے اور اللہ اور اس کے رسول ؐ کی نظر رحمت بھی حاصل ہوگی۔ 

یہ بھی پڑھئے: مادیت پرست کلچر یا اسلامی معاشرتی طرز حیات انتخاب آپ پر منحصر ہے

دین کی سرحد کی حفاظت اور اس کے لئے دوڑ دھوپ پختہ ایمان اور مغفرت کی ضمانت ہے، اگر کسی طرح عمل میں کوئی نقص بھی رہ جائے تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اس کی برکت سے کمی دور ہو جائے گی اور جنت کی نعمتوں سے اس کا استقبال ہوگا۔ چنانچہ حضرت ابن عائذ ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اکرم ایک شخص کے جنازہ میں تشریف لے گئے، جب جنازہ لایا گیا اور آپؐ اس کے لئے آگے بڑھنے لگے تو ایک صحابی نے کہا کہ متوفی فاجر و فاسق انسان ہے۔ آپ ؐ نے لوگوں سے اس کے بارے میں پوچھا کہ کیا کسی نے دین کا کوئی کام کرتے ہوے اسے دیکھا ہے ؟ ایک شخص نے عرض کیا : جی ہاں یا رسولؐ اللہ! میں نے ایک دن اس کو اللہ کے راستہ میں پہرہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ آپؐ آگے بڑھے، جنازہ کی نماز ادا کی اور مٹی ڈالنے کے بعد آپؐ نے اس خوش نصیب شخص کو مخاطب کرتے ہوے فرمایا:
تمہارے رفقاء اور اصحاب گمان کرتے ہیں کہ تم جہنمی ہو اور میں شہادت دیتا ہوں کہ تم اہل جنت میں سے ہو۔ ( مشکوٰۃ۔ ۳۸۶۰) 
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی حفاظت و صیانت اور اس کی مدافعت اعلیٰ ترین عمل ہے، ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ جہاں اور جس حال میں بھی رہے اس کو اپنا مشن اور مقصد زندگی بنا لے، دین محفوظ رہے گا تو مسلک بھی محفوظ رہے گا اور جب دین ہی خطرہ میں ہو اور شعائر اسلام پر حملے کئے جائیں تو پھر مسلک کی حفاظت بھی نہیں ہو سکے گی۔ آج کے ناگفتہ بہ حالات میں بھی مسلمان بٹے ہوئے ہیں، مسلک اور جماعت کے نام پر لڑائیاں نئی بات نہیں، دشنام طرازی اور تکفیری ہرزہ سرائی بھی کم نہیں ہوتی، ہر جماعت اور مسلک کے پیروکار اسلام کے بجائے اپنی جماعت کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کی سرگرمیاں اپنی جماعت کے ایجنڈوں کے اطراف گردش کرتی ہیں اور اسی کو اپنی سب سے بڑی کامیابی تصور کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے تحفظ شریعت کی اصل ذمہ داری پوری نہیں ہوگی۔ اگر اہل علم کی ساری توانائی جزئیات و فروعیات کے اختلاف میں خرچ ہو اور مسلمانوں میں دہریت و اِلحاد بڑھتا چلا جائے تو اس کا حساب بہر حال روز محشر دینا ہوگا۔ مشہور مفسر قرآن مفتی محمد شفیع ؒ فرماتے ہیں کہ میرے استاذ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ زندگی کے آخری دِنوں میں انتہائی مغموم رہا کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ ؒ کو نہایت افسردہ دیکھ کر میں نے عرض کیا کہ حضرت کیا بات ہے، آج کل آپ کو موت کی یاد ستا رہی ہے، فرمایا: میاں شفیع! موت کا کیا غم وہ تو آج نہیں تو کل آنی ہی ہے، غم اس بات کا ہے کہ پوری زندگی دارالعلوم کے مسند پر بیٹھ کر اپنی تدریس میں حنفیت کو شافعیت پر ترجیح دیتا رہا اور اس کے پیچھے پوری قوت لگا دی جس کا فیصلہ قیامت کے دن بھی نہیں ہوگا جب کہ قادیانیت کا فتنہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا، اس کے نتیجے میں کتنے لوگ مرتدہو کر مررہے ہیں، اگر مجھ سے اللہ نے پوچھ لیا تو میں کیا جواب دوں گا۔ (عظیم شخصیات صفحہ ۷۲) 
یہ فکر آج ہر شخص کو بالخصوص دینی تحریکات اور جماعتوں سے وابستہ افراد کو ہونی چاہئے کہ شعائر اسلام مٹائے جا رہے ہیں، نئی نسلیں ارتداد کی راہ پر چل رہی ہیں اور ہم اپنے مسلکوں اور جماعتوں کے مفادات کے تحفظ میں لگے ہوئے ہیں ، کیا اس کا سوال ہم سے نہیں ہوگا ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK