آج کا انسان مادی ترقی کے عروج پر ہے لیکن روحانی طور پر سکون اور اطمینان سے کوسوں دور ہے۔ دولت، شہرت، اور مادی آسائشیں حاصل کرنے کے باوجود انسان کے دل کا خلا پر نہیں ہو رہا ہے۔ اس بے سکونی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان نے اپنے خالق، اللہ تعالیٰ، سے اپنا تعلق کمزور یا ختم کر لیا ہے
حقیقی سکون صرف اللہ کے ساتھ تعلق میں ہے۔ تصویر: آئی این این
آج کا انسان مادی ترقی کے عروج پر ہے لیکن روحانی طور پر سکون اور اطمینان سے کوسوں دور ہے۔ دولت، شہرت، اور مادی آسائشیں حاصل کرنے کے باوجود انسان کے دل کا خلا پر نہیں ہو رہا ہے۔ اس بے سکونی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان نے اپنے خالق، اللہ تعالیٰ، سے اپنا تعلق کمزور یا ختم کر لیا ہے۔ ایسے حالات میں خدائے واحد کا تعارف اور اس کی معرفت کی تعلیم وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، کیونکہ حقیقی سکون صرف اللہ کے ساتھ تعلق میں ہے۔
ہر انسان کی فطرت میں یہ موجود ہے کہ وہ کسی اعلیٰ طاقت کی تلاش کرے جو اس کی زندگی کے ہر پہلو کو سنوار سکے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جب انسان مادیت میں کھو جاتا ہے تو اپنی فطری پکار کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا تعارف اس لئے بھی ضروری ہے کہ انسان کو اس کی فطری منزل سے روشناس کرایا جا سکے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج دنیا میں لوگ کہیں قولاً اور کہیں عملاً اور کہیں دونوں اعتبار سے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر مختلف چیزوں کو اپنا معبود بنا چکے ہیں۔ کوئی مختلف شکلوں اور مجسموں کو مسجود بنارہا ہے تو کوئی مال و دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے، کوئی شہرت و اقتدار کا دیوانہ ہے تواور کوئی اپنے نفس کی خواہشات کو معبود بنا بیٹھا ہے۔ اس گمراہی کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان خسارہ کے دلدل میں دھنس رہا ہے، اپنے دنیوی نقصان کے ساتھ آخرت کو بھی تباہ کررہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: وقت اور ضرورت کے مطابق اسمارٹ ورک اپنائیے
اسی بے راہ روی کی جانب قرآن مجید میں اِ رشاد باری تعالیٰ ہے:’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے؟ (سورۃ الجاثیہ: ۲۳)حالانکہ اللہ تعالیٰ کا وجود ایک ایسی حقیقت ہے جو انسانی عقل، فطرت اور وحی کے ذریعے خوب واضح ہوجاتی ہے۔ اس لئےعقل و نقل اور فطرت کی روشنی میں دنیا کو یہ بات بار باربتانے کی ضرورت ہے کہ دنیا کی تخلیق ایک حکمت والے خالق کی مرہونِ منت ہے۔ عقلی طور پر یہ دنیا اور اس کا منصوبہ بند نظام کسی حکمت والے خالق کی موجودگی کی دلیل ہے۔ کیونکہ زمین و آسمان، سورج، چاند، اور ستاروں کا مسلسل گردش کرنا کسی اندھی طاقت کا نتیجہ نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کسی عمارت کو دیکھتے ہیں تو یہ تصور ممکن نہیں کہ وہ بغیر کسی معمار کے وجود میں آئی ہو۔ اسی طرح اتنی بڑی دنیا کو دیکھ کر کیسے کوئی یہ تصور کر سکتا ہے کہ بغیر کسی خالق کے وجود میں آگئی۔
علت اور معلول کا اصول بھی یہی ہے کہ ہرچیز کسی نہ کسی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔ دنیا کی ہر چیز، چاہے وہ جاندار ہو یا بےجان، کسی علت کی محتاج ہے۔ یہ سلسلہ ایک ایسی ذات پر جا کر ختم ہوتا ہے جو خود کسی علت کی محتاج نہ ہو، اور وہ ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اسی طرح انسانی دل فطرتاً کسی اعلیٰ ہستی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب بھی انسان مصیبت یا مشکل میں ہوتا ہے تو وہ کسی ایسی قوت کو پکارتا ہے جو اس کی مدد کر سکے۔ یہ خود انسان کے اندر اللہ کے وجود کا ایک ثبوت ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کے وجود اور وحدانیت پر بے شمار دلائل موجود ہیں۔ ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کیا وہ کسی شے کے بغیر ہی پیدا کر دیئے گئے ہیں یا وہ خود ہی خالق ہیں ؟‘‘(سورۃ الطور:۳۵) یہ آیت انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہے کہ اس کائنات کے وجود کا کوئی نہ کوئی خالق ضرور ہے۔ تمام انبیائے کرام نے اللہ کی وحدانیت اور اس کے وجود کی طرف دعوت دی ہےاور ان کی تعلیمات اللہ کی معرفت اور عبادت کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ انبیاء کے ذریعے ظاہر ہونے والے معجزات بھی اللہ کے وجود کی دلیل ہیں۔ یہ معجزات انسانی طاقت سے باہر تھے اور صرف اللہ کے حکم سے ممکن ہوئے۔ ہندوستان جیسے ملک میں سکھ مت اور ہندو مت میں بھی
یہ بھی پڑھئے: شریعت نے حالات کو پاؤں کی زنجیر بنانے سے روکا ہے!
وحدانیت کی تعلیم کچھ مخصوص شکلوں میں موجود ہے، لیکن دونوں مذاہب کا تصورِ وحدانیت اسلامی تصور سے مختلف ہے۔ اسلامی اعتبار سے وحدانیت کا معقول تصور سورۃ الاخلاص پیش کرتی ہے، جو ہر قسم کی گمراہی، شرک اور باطل نظریات کو رد کرتی ہے۔ یہ سورہ انسان کو اللہ کی خالص عبادت اور اس کی صفات پر ایمان لانے کی تعلیم دیتی ہے، جو حقیقی توحید کی بنیاد ہے۔ اس سورہ کی پہلی آیت میں یہ اعلان ہےکہ اللہ ایک ہے، اس کی ذات میں کسی قسم کی شراکت یا تقسیم ممکن نہیں۔ وہ اکیلا اور منفرد ہے، اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ دوسری آیت میں ہے کہ اللہ بے نیاز ہے اور ہر مخلوق اس کی محتاج ہے۔ وہ ہر ضرورت کو پورا کرنے والا ہے اور اس کی ذات میں کسی بھی قسم کی کمی یا کمزوری کا امکان نہیں۔ تیسری آیت میں یہ اعلان ہے کہ اللہ نہ کسی کا باپ ہے، نہ کسی کا بیٹا۔ وہ ازلی اور ابدی ہے۔ یہ تصور تمام باطل عقائد، جیسے اللہ کی اولاد یا جسمانی تعلقات، کی مکمل نفی کرتا ہے۔ آخری آیت میں یہ اعلان ہے کہ اللہ کا کوئی ہمسر، مثل یا برابر نہیں۔ وہ تمام مخلوقات سے بلند و برتر ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ انسان سکونِ قلب، مقصدِ حیات، اور دنیا و آخرت میں کامیابی کے لئےصرف اللہ کی عبادت کرے، اسی پر بھروسہ کرے، اور اسی سے مدد مانگے، کیونکہ وہی حقیقی خالق، رازق، اور معبود ہے، وہی رب العالمین ہے ۔ جب یہ یقین کامل ہوجائے گاتو یہ بات بھی خود بخود سمجھ میں آجائے گی کہ حقیقی نجات رب العالمین کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے ہی میں ہے۔