Inquilab Logo Happiest Places to Work

قرآن سے غفلت کے سبب کہیں ایسا نہ ہو کہ...

Updated: April 03, 2025, 11:05 PM IST | Prof Doctor Najeeb ul Haq | Mumbai

ہم اندھے اٹھائے جائیں ؟ اور اللہ کو ہماری کوئی پروا نہ ہو؟ رسول اللہ ﷺہمارے خلاف اللہ کے دربار میں گواہی دیں ؟ یا قرآن کو نظر انداز کرنے کی پاداش میں اللہ ہم سے انتقام لے؟

Learning the basic commands of the Quran for living is one of the duties. Photo: INN
زندگی گزارنے کے لئے قرآن کے بنیادی احکامات کو سیکھنا فرائض میں سے ہے۔ تصویر: آئی این این

دنیا میں ہر چیز کا مقصد اور اس کے استعمال کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ جب ہمیں کسی مشین کے بارے میں معلومات نہ ہوں تو کسی جاننے والے سے اس کا مقصد اور طریقۂ استعمال معلوم کرلیتے ہیں یا اس کی ’عملی ہدایات‘ (Operation Manual) سے اسے سمجھ لیتے ہیں، جواس کے بنانے والے نے اس میں بیان کیا ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے جسم کےہر عضو مثلاً ہاتھ پاؤں، آنکھ اور زبان وغیرہ کا مقصد اور استعمال معلوم ہے، لیکن جب ہم سے یہ سوال کیا جائے کہ بحیثیت انسان ہماری زندگی کا مقصد اورطریقہ کیا ہے؟ تو ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ اس سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب جاننے کے لئے ہمیں اپنےبنانے والے (خالق) کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہماری تخلیق کا مقصد اورزندگی گزارنے کے طریقے کے لئے ’عملی ہدایت‘ (Operation Manual) قرآن کی صورت میں عطا کی ہے اوراس کا پورا عملی نقشہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ انسانوں کی ضرورت بھی ہے اور اللہ کا بہت بڑا کرم بھی کہ مقصدِ حیات اور طریقۂ زندگی معلوم کرنے کے لئے انھیں بے یارو مددگار نہیں چھوڑا گیا۔
ڈاکٹر بننے کے لئے ہر شخص کو چند مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ اسکول اور کالج میں تقریباً سوکتابیں پڑھتا ہے اور اچھے نمبر لے کر میڈکل کالج میں داخل ہوتا ہے،جہاں وہ مختلف مضامین کی کم ازکم مزیدبیس کتابیں پڑھتا ہے، ان کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے تاکہ امتحان میں صحیح جوابات دے کر پاس ہو سکے۔اگر وہ کسی کتاب کے بارے میں ممتحن کو یہ کہہ دے کہ میں نے پڑھی ہے بلکہ مجھے ساری کتاب زبانی یاد ہے (یعنی اسےحفظ کیاہے) لیکن مجھے اس کی سمجھ نہیں ہے،تو کیا ممتحن اسے پاس کرے گا؟ وہ یقیناً فیل ہوگا اور وہ ڈاکٹر بننے کا حق دار نہیں ہوگا۔
 اگر اس طالب علم کی طرح اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن ہم سے یہ پوچھ لیا کہ ’’جوکتاب میں نے تمہارے لئے بھیجی تھی کیاتم نے پڑھی ہے؟‘‘ اوراس وقت ہمارا جواب یہ ہو کہ ’’پڑھی ہے،بلکہ حفظ بھی کیاہے لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں کہ اس میں کیا لکھا تھا‘‘، تو کیا اس جواب کے ذریعے ہم آخرت کے امتحان میں پاس ہونے کے حق دار ہوسکتے ہیں ؟ اللہ ہمیں اس حالت سے محفوظ رکھے اور قرآن کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے کیوں کہ آخرت میں تو سپلیمنٹری امتحان بھی نہیں ہوگا! قرآن ہماری کتابِ زندگی ہے، یہی ہماری رہنما ہے،اس کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہوگا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’میرے پاس جبریلؑ آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد ؐ! آپؐ کی امت آپؐ کے بعد اختلافات میں پڑجائے گی۔ میں نے پوچھا کہ جبریلؑ! اس سے بچاؤ کا راستہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ’قرآن کریم۔ اسی کے ذریعے اللہ ہر ظالم کو تہس نہس کرے گا، جو اس سے مضبوطی کے ساتھ چمٹ جائے گا وہ نجات پا جائے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ ہلاک ہوجائے گا یہ بات انہوں نے دو مرتبہ کہی۔‘‘ (متفق علیہ) 
بدقسمتی سے آج عملی زندگی میں قرآن ہمارا راہ نما نہیں۔نتیجتاًمسلمان مذہبی فرقہ واریت اور تعصب میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ نظامِ زندگی کے لئے قرآن کے بجائے عملاً دوسروں کو رہنمابنا لیا ہے۔ ہمیں قرآن کی اہمیت اور افادیت کا صحیح ادراک ہی نہیں ہے، اس لئےاوروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: دینی تعلیم کے فروغ کیلئے زکوٰۃ کا استعمال: منظراور پس منظر سمجھنا ضروری ہے

قرآن کا مقصد
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا مقصد خود ہی بیان فرما دیا ہے: ’’اور یہ (قرآن) برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے سو (اب) تم اس کی پیروی کیا کرو اور (اﷲ سے) ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ (الانعام:۱۵۵) 
 اور سورۂ صٓ، آیت نمبر ۲۹؍ میں فرمایا:
’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمدؐ!) ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔‘‘
یعنی قرآن برکت والی ایسی کتاب ہے جس کا مقصد اس کی پیروی کرنا ہے اور یہ سمجھ اور غورو فکرکے بغیر نہیں ہوسکتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد بھی قرآن کی تعلیم دینا اوراس کے ذریعے لوگوں کا تزکیہ کرناہے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے:
’’اے ہمارے پروردگار ان میں ایک پیغمبر انہی میں سے بھیج، (جو) انہیں تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب (الٰہی) اور دانائی کی تعلیم دے اور انہیں پاک (وصاف) کرے، یقیناً تو بڑا زبردست،بڑا حکمت والا ہے۔‘‘(البقرہ : ۱۲۹) 
سورۃ الرحمٰن سے اس کتاب کی عظمت کا اندازہ لگائیں، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’وہ رحمٰن ہے،اس نےقرآن کی تعلیم دی، انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔‘‘(الرحمٰن :۱-۴) ذرا تصور کریں کہ یہ کتا ب براہِ راست ربّ العالمین کی طرف سے ہے، اللہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معلّم ہے اور نبی کریم ﷺہمارے معلّم ہیں ، تو کیااس کتاب کے علاوہ کوئی دوسری کتاب ہماری اولین ترجیح کی مستحق ہو سکتی ہے؟
ہماری موجودہ حالت
 آج اُمت کا عمومی رویہ معاذاللہ ایسا لگتا ہے، جیسے یہودیوں کا تورات کے بارے میں تھا۔ سورۂ جمعہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اُٹھایا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ بُری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے، ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔‘‘(الجمعہ :۵) 
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد میری امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے، وہ ان کے گلوں سے آگے نہیں بڑھے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ بننے والے جانور میں سے گزر جاتا ہے، پھر وہ (دین میں ) واپس نہیں آئیں گے۔ وہ تمام مخلوقات میں سے بدترین افراد ہوں گے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)… قرآن حلق (گلے) سے آگے نہ گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں پر قرآن کا اثر نہیں ہو گا یا ان کے دل قرآن مجید کو سمجھنے سے عاری ہوں گے۔ہمیں انتہائی سنجیدگی سےسوچنا ہوگا کہ آج ہماری حالت رسولؐ اللہ کی اس حدیث کے مصداق تو نہیں ہے؟
کیا قرآن سیکھنا فرض ہـے؟
قرآن سیکھنے سے کوئی مسلمان انکارنہیں کرتا، لیکن وہ اسے بس ثواب کا کام سمجھتا ہے۔ عام طور پر یہ فہم و احساس کم ہی ہے کہ قرآن سیکھنا کتنا اہم فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے نبیؐ!، بے شک جس نے یہ قرآن آپ پر فرض کیا ہے وہ آپ کو ایک بہترین انجام کو پہنچانے والا ہے۔‘‘ (القصص :۸۵) یعنی اس قرآن کو خلقِ خدا تک پہنچانے اور اس کی تعلیم دینے اور اس کی ہدایت کے مطابق دنیا کی اصلاح کرنے کی ذمہ داری تم پر ڈالی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورئہ زخرف آیت نمبر ۴۳۔۴۴؍ میں ارشادفرمایا: ’’پس آپ اس (قرآن) کو مضبوطی سے تھامے رکھیئے جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے، بیشک آپ سیدھی راہ پر (قائم) ہیں، اور یقیناً یہ (قرآن) آپ کے لئے اور آپ کی امت کے لئے عظیم شرف ہے، اور (لوگو!) عنقریب تم سے پوچھا جائے گا (کہ تم نے قرآن کے ساتھ کتنا تعلق استوار کیا)۔‘‘
 یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کرنے کے بعد مسلمانوں کو اس کی جوابدہی کا مسؤل بنایا۔ انسان کسی کتاب کے بارے میں تب ہی مسؤل ہو سکتا ہے، جب اسے معلوم ہو کہ اس کتاب میں میرے لئے کیا احکام ہیں جن کا میں نے حساب دیناہے۔پس، جس طرح اللہ نے مسلمانوں کے لئے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ فرض کئے ہیں، جن کی ادائیگی اس وقت تک صحیح طور پر نہیں ہو سکتی جب تک ان کے بارے میں احکام کی بنیادی تفصیلات معلوم نہ ہوں۔اسی طرح زندگی گزارنے کے لئے قرآن کے بنیادی احکامات کو سیکھنا، ماننا اور اس پر عمل کرنا بھی فرائض میں سے ہے اور یہی قرآن کی فرضیت ہے، لیکن یہ احساس کم ہی ہے کہ قر آن سیکھنا اور اس پر عمل کرنا ویسے ہی فرض ہے جیسے نماز اور روزہ فرض ہے۔
قرآن نہ سمجھنے/چھوڑنے والوں کا انجام!
روز محشر اندھا اُٹھایا جانا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور جو میرے ’ذکر ‘ (قرآن) سے منہ موڑے گا اُس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا ’’ پروردگار، دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا ‘‘ ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’ ہاں، اسی طرح تو ہماری آیات کو،جب کہ وہ تیرےپاس آئی تھیں، تُو نے بھلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تُو بھلایا جارہا ہے۔‘‘ (طٰہٰ:۱۲۴- ۱۲۶) 
قرآن چھوڑ نے والوں کے خلاف رسولؐ اللہ کی گواہی : اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے: ’’اور رسولِ (اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض کریں گے: اے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا۔‘‘ (فرقان:۳۰)
اللہ کا انتقام:اللہ تبارک وتعالیٰ نے کسی گناہ کے ارتکاب کے بارے میں خود انتقام لینے کا ذکر کم ہی کیا ہے، لیکن قرآن کو پسِ پشت ڈالنے پر فرمایا: ’’اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جسے اس کے رب کی آیتوں کے ذریعے نصیحت کی جائے پھر وہ اُن سے منہ پھیر لے، بیشک ہم مُجرموں سے بدلہ لینے والے ہیں۔‘‘(السجدہ: ۲۲) 
ان آیات کے علاوہ بھی قرآن حکیم سے اعراض پر قرآن و حدیث میں سخت وعید ہے۔ ان آیات کے بارے میں ہم پوری سنجیدگی سے سوچیں کہ کیا ہم اس کے لئے تیار ہیں کہ قیامت کے دن:
ہم اندھے اٹھائے جائیں ؟ اور اللہ کو ہماری کوئی پروا نہ ہو؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے خلاف اللہ کے دربار میں گواہی دیں؟

یہ بھی پڑھئے: زکوٰۃ دیجئے،نہ دینے والوں کیخلاف بڑی سخت وعید ہے!

قرآن کو نظر انداز کرنے کی پاداش میں اللہ ہم سے انتقام لے؟
یقیناً ہر مسلمان اس کا جواب نفی ہی میں دے گا۔ پس ہمیں سنجیدگی سے قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کرنا ہوگا کیوں کہ خود رب العالمین ہم سے کہہ رہا ہے کہ یہ نہیں کرو گے تو پھر بیان کردہ انجام کے لئے تیار رہو۔ ہم میں سے ہر ایک کو انفرادی اور اجتماعی طور پر موجودہ صورتِ حال سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ قرآن کو پڑھنا، سمجھنا،اس پرانفرادی اور اجتماعی زندگی میں عمل کی کوشش کرنا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ یہی ہماری دنیوی اور اُخروی کامیابی کی شاہ کلید ہے :
گر تو می خواہی مسلماں زیستن 
نیست ممکن جز بقرآن زیستن
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK