• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

یہ کتنی بڑی خوشخبری ہے کہ ہمارے گھر والے بھی جنت میں اکٹھے ہوں گے!

Updated: August 16, 2024, 3:27 PM IST | Izhar Ahmed | Mumbai

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بشارت دی ہے کہ اہلِ خاندان کا جنت میں ساتھ ناممکن نہیں تو پھر کیوں نہ ہم کوشش کریں کہ اکٹھے جنت جائیں۔ لیکن اس کیلئے اس راستے کی فکر کرنی ہے جو پورے خاندان کو اکٹھے جنت کی طرف لے جاسکتا ہے۔

If parents do the duty of training their children from the beginning, they get success for sure. Photo: INN
والدین شروع سے بچوں کی تربیت کا فریضہ ادا کریں تو اُنہیں کامیابی یقینی طور پر ملتی ہے۔ تصویر : آئی این این

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں ایک خاندان کا حصہ بنایا ۔ ایک وقت آتا ہے جب بزرگ ساتھی دنیا سے چلے جاتے ہیں اور کچھ ننھے ننھے بچے اسی خاندان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ زندگی اسی طرح رواں دواں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ انعام مانگے بغیر ہی عنایت کردیا کہ خاندان کے افراد میں آپس میں محبت پیدا کردی۔ ماں باپ کی محبت، بیوی کی محبت، خاوند کی محبت، بچوں کی محبت اور پھر اگلی پود، یعنی بچوں کے بچوں سے محبت۔ یہ محبت نہ صرف بڑوں کو بچوں سے ہوتی ہے بلکہ بچے بھی اپنے سے بڑوں کی محبت کا معصومانہ انداز میں اظہار کرتے ہیں ۔ محبت کا یہی باہمی جذبہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کی بہتری کے لئے کوشش اور مدد کرنے پر اُبھارتا ہے۔ کوئی عزیز تکلیف میں ہو تو آنکھیں پُرنم ہوجاتی ہیں۔ کسی کو خوشی ملتی ہے تو خوشیاں بانٹنے کو دل چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا کا ہتھیار دیا ہے۔ ہم ہروقت دعائوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خوشی، عافیت اور سلامتی کیلئے دعائیں مانگتے ہیں، ایک دوسرے کی بہتری چاہتے ہیں، اور اپنی تمنائیں اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھتے ہیں۔ 
بات محبت کے جذبے کی ہو رہی ہے۔ جب کوئی اپنا اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو قدرتی طور پر دل بے تاب ہوجاتا ہے۔ پھر دعا کا سہارا لیا جاتا ہے’’ اے اللہ! اسے جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما، اس کے مراحل آسان کردے، اس کے درجات بلند فرما دے۔ ‘‘ کون چاہتا ہے کہ اس کا عزیز، والدین، بچے، بیوی، خاوند اور دیگر عزیز و اقارب جنت میں نہ جائیں۔ 
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بشارت دی ہے کہ اہلِ خاندان کا جنت میں ساتھ ناممکن نہیں تو پھر کیوں نہ ہم کوشش کریں کہ اکٹھے جنت چلیں۔  محبت کے جذبے کا سرچشمہ اللہ کی ذات پاک ہے مگر اس محبت کا حصول مشروط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ اُن سے کہو کہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت قبول کرو۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں، تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔ ‘‘ (آل عمران:۳۱-۳۲)

یہ بھی پڑھئے:ماحول غیرمعمولی طور پر اثرانداز ہوتا ہے

یہ آفاقی اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بتا دیا ہے اور زندگی کا اصول بھی یہی ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں ۔ یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہے کہ اگر ہم اللہ سے محبت کریں گے، تو وہ ہم سے محبت کرے گا… کوئی خاندان، کوئی رشتے داری، کوئی حسب و نسب ہمیں اللہ کی محبت کا دعوے دار نہیں بناسکتا۔ یہ محبت کیا ہے؟ اور پھر اللہ سے محبت! اللہ سے محبت یہی ہے کہ ہماری مرضی اور پسند، اللہ اور اس کے رسولؐ کی پسند کے تابع ہوجائے۔ اس کا کہا مانا جائے، اس پر عمل کیا جائے اور اس کا حکم بلاچوں و چرا بجا لایاجائے۔ یہ نہیں کہ حی علی الصلوٰۃ، حی علی الفلاح کی صدا بلند ہو اور ہم ٹس سے مس نہ ہوں۔ 
دنیا میں ہمارے ساتھی… والدین، زوجین، یعنی خاوند اور بیوی اور پھر اولاد… یہی لوگ مل کر عموماً خاندان بناتے ہیں، اور اکٹھے ماہ و سال بسر کرتے ہیں ۔ مغرب کے خاندان کا تصور ہمارے پیشِ نظر نہیں جہاں والدین کو خاندان سے باہر بلکہ بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تو ہمارے خاندان کا حصہ ہیں، آپس میں محبت کی لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہیں جن کی ہمیں فکر رہتی ہے، ان کی بہتری کی خواہش بھی رہتی ہے، اور اگر انہیں تکلیف پہنچے تو طبیعت غمگین ہوجاتی ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بشارت دی ہے کہ یہی والدین، زوج اور اولاد جنت میں بھی ساتھی بن سکتے ہیں ۔ یہ کیوں کر ممکن ہے اور اس کے لئے نسخۂ کیمیا کیا ہے؟ فرمایا:’’اے ہمارے رب، اور داخل کر اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ ہی پہنچا دے)، تو بلاشبہ قادرِ مطلق اور حکیم ہے۔ ‘‘ (المومن: ۸)

یہ بھی پڑھئے:ماہِ صفر اور خودساختہ مفروضات

قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر بیویوں اور اولاد کے لئے جنت کا وعدہ ہے مگر یہ وعدہ دوشرائط کے ساتھ ہے: (۱) صالح ہونا اور (۲) صابر ہونا۔ سورئہ رعد میں اہلِ ایمان کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:
’’(آخرت کے گھر) ان میں وہ لوگ داخل ہوں گے اور ان کے آباء و اجداد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو بھی نیکوکار ہوگا اور فرشتے ان کے پاس (جنت کے) ہر دروازے سے آئیں گے، (انہیں خوش آمدید کہتے اور مبارک باد دیتے ہوئے کہیں گے:) تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کرنے کے صلہ میں، پس (اب دیکھو) آخرت کا گھر کیا خوب ہے۔ ‘‘ (الرعد:۲۳-۲۴)
یہ کتنی بڑی خبر اور کیسی خوش خبری ہے کہ ہمارے گھر والے بھی جنت میں اکٹھے ہوں گے! اللہ تعالیٰ ہمیں اور اہلِ خاندان کو اس مرتبے کے قابل بنادے، آمین!
کام کا آغاز کیسے ہو؟ کیا محنت کرنی ہے، اور کون سا راستہ ہے جو پورے خاندان کو اکٹھے جنت کی طرف لے جاسکتا ہے؟
آغاز، شریکِ حیات کے انتخاب سے: بات وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے خاندان کی بنیاد رکھی جاتی ہے، یعنی جب شریکِ زندگی کی تلاش کی جاتی ہے۔ سفر کا آغاز نیک اور صالح ہم سفر کی تلاش اور انتخاب سے کیا جائے۔ حدیث میں تعلیم دی گئی ہے کہ اس انتخاب کا فیصلہ دین اور اخلاق کی بنیاد پر کریں ورنہ خاندان میں بگاڑ پیدا ہوگا اور دنیا میں فساد پھیل جائے گا۔ 
شادی کے بعد اولاد کی فکر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر مکمل قدرت رکھتے ہیں کہ وہ جسے چاہیں اولاد عنایت فرما دیں : ’’اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملاجلا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہرچیز پر قادر ہے۔ ‘‘ (الشوریٰ:۴۹)
 اُس کی جناب سے عنایت ہوگئی تو شکر ادا کریں، نہیں تو صبر اور پھر صبر کا اجر بھی بہت ہے۔ ہاں، دعا کا ہتھیار تو ہمارے پاس ہے ہی۔ ہم تو بہت کمزور لوگ ہیں ۔ نبیوں نے بھی یہ دعائیں مانگی ہیں ۔ دیکھئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا: ’’اے پروردگار! ایک بیٹا عطا کر جو صالحین میں سے ہو۔ ‘‘ مشروط دعا… بیٹا ہو تو صالح ہو۔ اور پھر حضرت زکریاؑ کی دعا بھی، نیک اولاد کی درخواست کی جارہی ہے۔ دعا کرنا نہ بھولیں ۔ دعا مانگنا، ہمارا حق ہے اور بار بار دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ 
 صالح اولاد بڑی نعمت ہے اور جیساکہ ہم نے پہلے دیکھا، صالح ہونا ایسی شرط ہے جس کے پورا کرنے پر براہِ راست جنت کی بشارت ہے۔ 
 دعا اور عمل ساتھ ساتھ: جب بھی کوئی بڑا منصوبہ یا پروجیکٹ شروع ہوتا ہے تو ایک عزم ہوتا ہے کہ یہ کام کرنا ہے۔ مگر اس کے ساتھ دعا بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عزم میں برکت عطا فرمائیں اور تکمیل آسانی سے ہو۔ دعا اور عزم دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ عزم کے بغیر دعا مناسب نہیں اور دعا کے بغیر عزم بے برکت رہ جاتا ہے: یوں دعا کیجیے: ’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔ ‘‘ (الفرقان:۷۴)
اس خوب صورت دعا میں ایسے ہی خاندان کی محبت جھلک رہی ہے… بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کو ٹھنڈک ملے، اور دیکھیں اللہ تعالیٰ ہمیں کون سا درجہ دینا چاہتے ہیں … پرہیزگاروں کا امام۔ یہ دعا محض کسی مقرر کی لفاظی نہیں، اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ ہیں …ان کا پورا ہونا بالکل ممکن ہے۔ ہم اپنی کمزوریوں پر توجہ دیں تو سب کچھ ممکن ہے۔ ذرا مومن بن کر دیکھیں اور دکھائیں تو سہی۔ یہاں پھر دعا اور پھر عمل کا معاملہ آگیا۔ سوچیں آپ کا بیٹا آپ سے دعا کے لئے کہے کہ دعا کریں، امتحان میں کامیابی ہو، مگروہ خود کھیل میں مصروف رہے تو یقینا آپ کہیں گے کہ بیٹا تم خود تو امتحان کی تیاری نہیں کر رہے، مجھے دعا کے لئے کہہ رہے ہو۔ گویا عمل کی بڑی اہمیت ہے۔ 
والدین کی ذمہ داری: ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ ‘‘(التحریم:۶)
گویا عمل کے لئے والدین کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ یہاں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور اہلِ ایمان کو اجتماعی طور پر حکم دیا جا رہا ہے: اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچائو۔ اس طرح سے والدین پر یہ ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ اب نہ کوئی بہانہ ہے، نہ فرار کا موقع۔ لازماً اسے کرنا ہی ہوگا۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر اہل و عیال خدانخواستہ آگ سے نہ بچ سکے، توہم خود ذمہ دار ہوں گے۔ ذرا سوچئے، اہل و عیال کو آگ سے بچانے کے لئے نیک زوج کی کتنی اہمیت ہے، جو خود اس بات کی ضمانت ہو کہ بچوں کی تعلیم و تربیت صحیح طریقے پر ہوگی۔ 
فرمایا جا رہا ہے:’’اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم فرمائیں اور اس پر ثابت قدم رہیں ۔ ‘‘ (طٰہٰ : ۱۳۲) یہاں محنت کرنے کو کہا گیا ہے کہ بار بار کہو کہ نماز پڑھو اور پھر خود بھی پابند رہنے کا حکم ہے۔ ایک مشہور حدیث میں حضوؐر ایک بچے کو سمجھاتے ہیں : اے بیٹے! بسم اللہ پڑھ کر، یعنی اللہ کے نام سے، دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھانا کھائو۔ ایک ہی حدیث میں یہ تین تعلیمات ہیں۔ بڑی بدقسمتی کی بات ہے جب والدین فرار چاہتے ہیں اور اپنی ذمہ داری نبھانا چھوڑ دیتے ہیں کہ بچے کو ٹوکنا نہیں، اس سے وہ نفسیاتی مریض بن جائے گا۔ یہ اہلِ مغرب کی سوچ ہے جو خود نفسیاتی مریض بن گئے ہیں، وہ اپنے بچوں کو بھلا کیا سکھائیں گے۔ ہم امربالمعروف اور نہی عن المنکر والے لوگ ہیں، نہ خود برائی کریں گے نہ کرنے دیں گے۔ 
 یقیناً عمل کے ساتھ ٹھوس منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ عمربھر کا منصوبہ جو مل گیا ہے۔ حکم آگیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اہل و عیال کو آگ سے بچائو!

یہ بھی پڑھئے: ماحول غیرمعمولی طور پر اثرانداز ہوتا ہے

بچے کی تربیت کے مختلف مراحل: مسلمان کی زندگی ہر طرف سے اللہ کے احکامات میں گھری ہوئی ہے۔ جب کہہ دیا: ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً (البقرہ :۲۰۸)، تو اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوگئے۔ زندگی کے ہرمرحلے پر جواب دہی بھی ہے۔ اولاد کی پیدائش سے تربیت کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ہم نے اس ضمن میں دعائیں بھی پڑھیں، اسی پیدائش کے لئے نیک زوج کی تلاش اور انتخاب کا مرحلہ بھی گزارا۔ پھر رضاعت، یعنی بچے کو دودھ پلانے کا دور بھی گزارا، یہ بچے کا حق ہے۔ بچے کی شخصیت ماں کی گود سے ہی بننے لگتی ہے۔ یہی آغوش بچے کی پہلی درس گاہ بھی ہے۔ اس کے بعد، سنِ تمیز ہے، یعنی وہ دور جب بچہ ہوش سنبھالتا ہے اور تین ساڑھے تین سال کی عمر سے پتھر اور کھجور میں تمیز کرنے لگتا ہے۔ پھر بلوغت آتی ہے۔ ہر موقع پر والدین کی جوابدہی ہے۔ خاندان میں بڑا ہونے کی وجہ سے یہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ دیکھیں کہ ہرمرحلے پر ہم بچے کو کیا تعلیم دے رہے ہیں ؟ کیا بچے کو سنِ بلوغت کیلئے تیار کیا ہے؟ کیا والدین اور بچے میں اتنی باہمی افہام و تفہیم (understanding) ہے کہ والدین بچے کو تمام احکام خود بتا سکیں اور کسی خلجان میں پڑے بغیر وہ تمام امور سمجھ سکے۔ 
تربیت ِاولاد سے متعلق لٹریچر میں ہم پڑھتے ہیں کہ بچوں کو ۷؍ برس کی عمر میں نماز کا حکم دو۔ ۱۰؍برس کی عمر میں سزا دینے کی بات کی گئی ہے اور بستر علاحدہ کرنے کا کہا گیا ہے، یعنی جنسی تعلیم شروع ہوگئی۔ عموماً ۱۰ ؍برس میں سزا دینے کی بات ہوتی ہے۔ جان لیجئے کہ والدین پر فرض ہے کہ وہ سنِ تمیز، یعنی ساڑھے تین سال سے بچے کو نماز میں ساتھ رکھیں۔ والدہ اسے تیار کرے۔ والد صاحب چھ ساڑھے چھ برس تک لگاتار محنت کریں، خود بھی مسجد جائیں، بچے کو بھی لے کر جائیں۔ والدہ بہانہ نہ بنائے کہ ابھی تو تھکا ہوا ہے، ابھی کھانا کھا رہا ہے۔ والدین کی سالہا سال کی لگاتار محنت کے بعد سزا دینے کی بات ہورہی ہے، یعنی والدین سزا دینے سے قبل اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بارے میں خوب غور کرلیں۔ 
 بچے کی شخصیت کی تعمیر: اسلام کا جامع فہم، ایمان اور یقین کی کیفیت، قول و فعل میں یگانگت، فیصلوں میں دین بطور بنیاد، یہ وہ صفات ہیں جو والدین کو چاہئے کہ بچوں میں پیدا کریں۔ جائزہ لیجئے کہ آیا اُسے اسلام کا جامع فہم حاصل ہوا یا نہیں۔ اللہ کے بارے میں ایمان اور یقین کی کیفیت کیسی ہے۔ نماز اللہ کے لئے پڑھتا ہے یا اس وجہ سے کہ آج والد صاحب غصے میں ہیں، کہیں جھوٹ اور دھوکے بازی تو نہیں کرتا، فیصلے دین کی بنیاد پر کر رہا ہے یا سماجی دبائو میں اور اس کا دل ان باتوں سے مطمئن ہے یا نہیں؟
 والدین کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ بچوں میں بھی یہ صفات پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ سے تعلق کیسا ہے؟ فرائض کی حد تک یا سنت اور نوافل کی حد تک۔ کاموں میں خلوص کتنا ہے اور دکھاوا کتنا۔ کڑوی بات سن کر صبر کرتے ہیں یا بھڑک کر اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔ حکمت عملی میں استقامت کس حد تک ہے۔ وقتی فیصلے ہو رہے ہیں یا مستقل مزاجی ہے۔ بات کھٹاک سے منہ پر دے مارتے ہیں یا حکمت سے کام لیتے ہیں۔ فیصلہ کرنے میں آخرت اثرانداز ہوتی ہے یا دنیاداری کے معاملات۔ کیا لین دین میں دھوکا دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ قرآن کے درس بھی چل رہے ہیں … سیرت و کردار کے یہ سب پہلو دراصل ہماری شخصیت کے ساتھ ساتھ نیت کی بھی غمازی کرتے ہیں۔ اِنہی سے سیرت نکھر کر سامنے آتی ہے۔ 
مشاورت، اخوت و محبت، احتساب، نظم و ضبط، اقامت دین یہ اجتماعی صفات، صالح معاشرے کی ضرورت ہیں اور ایسے معاشرے کی تشکیل صالح افراد ہی کرتے ہیں۔ ایسا معاشرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا جہاں فیصلے مشاورت سے ہوتے تھے، اخوت و محبت کی قدر تھی، اور یہ سب کچھ آج بھی ممکن ہے اگر ہمارا قبلہ درست ہوجائے۔ بھائی چارے سے کام ہورہا ہو تو تھکاوٹ نہیں ہوتی۔ جنگ ِ خندق کے دوران اگر صحابہ کرامؓ نے پیٹ پر پتھر باندھے تو پتا چلا کہ حضوؐر نے دوپتھر باندھے ہوئے تھے۔ غلطی کون نہیں کرتا۔ جنگ اُحد کی مثال ہے۔ صحابہ کرامؓ جیسی جماعت کے بعض افراد سے کمزوری ظاہر ہوئی، مگر احتساب اور نظم و ضبط سے شکست فتح میں تبدیل ہوگئی۔ نظم وضبط ان تمام خوبیوں کا نتیجہ ہے۔ ان تمام باتوں سے اقامت ِ دین کو تقویت ملتی ہے۔ ہرمسجد میں پانچ مرتبہ جماعت کے ذریعے نظم و ضبط کا درس ملتا ہے تو پھر مسلمان معاشرے میں بدنظمی کی کوئی وجہ نہیں، جب کہ یہ تربیت سالہا سال سے صبح و شام جاری ہے۔ ہمیں اس کی طرف من حیث القوم توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 
 معاشرتی زندگی کے تقاضے: اس کے بعد اجتماعی زندگی کا مرحلہ آتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ ‘‘ (آل عمران: ۱۰۳) یہاں اجتماعیت کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور مسلمان کی زندگی تو ہے ہی اجتماعیت۔ گھر میں گھر والوں کے ساتھ، باہر محلے داروں اور دفتر والوں کے ساتھ۔ اسلام اجتماعیت کا نقیب اور اس کا سچا ماننے والا اجتماعیت کا علمبردار۔ 
ہماری معاشرتی کمزوریوں میں کبر، نفسانیت، بے اعتدالی اور ضعف ِ ارادہ کے علاوہ بھی کئی پہلو ہیں۔ یہ مقام ہے اپنا محاسبہ کرنے کا، اپنا دل ٹٹولنے کا۔ ہمارے دائیں بائیں کئی داعی حضرات ہیں جن کا بڑا قد ہے، جن کی تحریر و تقریر ہیرے موتی جیسی ہے مگر ان کی اپنی اولاد نے ان کے مشن کو آگے نہیں بڑھایا۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ 
 کبر کو لیجئے۔ کئی بزرگ محبت کرنے کے باوجود… میری بات مانو، کوئی دوسرا راستہ نہیں … _ کے مصداق سخت مزاج واقع ہوتے ہیں۔ وہ مذہبی شخصیت تو ہوتے ہیں، دینی نہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے کبر کی وجہ سے بچے سہمے رہتے ہیں، بیوی دبکی رہتی ہے، نہ مشورہ دیا جاتا ہے نہ لیا جاتا ہے، نہ مشاورت کو اہمیت دی جاتی ہے نہ تربیت کو۔ اندازہ کیجئے گھر پر نفسانیت کا دور دورہ تو نہیں۔ کیا گھر کی اکائی قائم ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ گھر کے افراد کئی ٹکڑیوں میں بٹ گئے ہوں جن کے علاحدہ علاحدہ اہداف اور مقاصد ہوں۔ 
 اسراف و تبذیر کی صورت حال بھی بڑی عجیب ہوتی ہے۔ اسے وقت کی ضرورت بناکر قبول کیا جاتا ہے۔ گھر والوں کو معاشی ذمہ داری بھی دے دی جاتی ہے۔ آخر بچوں کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے کہ انہیں آیا اور ڈے کیئر سنٹر میں پرورش کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مقصد گھر کی اکائی کی حفاظت ہے اور اس کا رخ لازماً اللہ کے حکم اور حضوؐر کی سنت کی سمت ہونا لازمی ہے۔ جبھی تو گھر والے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون بن سکیں گے اور پھر آخرت میں صدقۂ جاریہ بھی۔ 
خرابی کے داخلی و خارجی اسباب: خرابی کے داخلی اسباب میں انتخابِ زوج، دہرے معیار، نامناسب تقسیم کار، بچوں کو کھلی چھوٹ، دین کی ترجیح نہ ہونا، کم علمی جیسے کئی پہلو ہیں۔ یہ داخلی اسباب سب گھر والوں کی انفرادی توجہ چاہتے ہیں، اور ہم خود اس کے لئے سب سے زیادہ مسئول ہیں۔ مثلاً انتخاب زوج غلط یا نامناسب ہوا یا یہ کہہ لیں کہ پتا ہی نہ تھا۔ ہمارے اپنے معیار، موم کی ناک کی طرح ہوتے ہیں۔ کہیں قول ہے فعل نہیں، اور کہیں فعل ہے تو قول نہیں۔ گھر کی ذمہ داریاں ٹھیک طرح سے تقسیم نہیں ہوئیں۔ خاوند صرف معاشی ذمہ داری ہی نبھا رہا ہے۔ وہ اس میں ہی مطمئن ہے کہ وقت پر گھر کا خرچ بیوی کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ مزاج کا سخت ہے۔ اسے کون سمجھائے کہ یہ بچے تمہارے اپنے ہیں … تمہارا اپنا صدقۂ جاریہ۔ 
 اصل کامیابی: کوشش یہی ہونی چاہئے کہ یہ بچے بڑے ہوکر صالح مسلمان مرد/ عورت بن سکیں۔ کل انہی بچوں کو والدین کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ ہم مسلسل دعا کرتے رہیں اور بہترین کوشش بھی…  _ یہ بچوں کا حق ہے۔ مضبوط ارادہ، مسلسل دعا، عملِ پیہم، بہترین منصوبہ بندی کے بعد ہی ہم کامیابی کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔ اگر ارادہ، عمل اور منصوبہ بندی میں بگاڑ ہوگا تو پھر بگاڑ والے نتائج ہی سامنے آئیں گے۔ اور پھر: ’’کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔ رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب ہے۔ ‘‘ (آل عمران:۱۸۵)
کامیابی… اصل کامیابی تو جنت کا حصول ہے کہ ہم آتشِ دوزخ سے بچ جائیں۔ یہ خوش خبری ملاحظہ ہو جو خود رب العالمین نے ہمیں دی ہے کہ: ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اُن کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں ان کے نقشِ قدم پر چلی ہے ان کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں ) اُن کے ساتھ ملا دیں گے اور اُن کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دینگے۔ ہرشخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے۔ ‘‘ (الطور:۲۱)
 یہ خوش خبری ایک چھوٹ، ایک آسانی کی خبرہے، ایک رعایت (Concession) ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اولاد کسی بھی درجہ ایمان پر ہو تو جنت میں ملا دی جائے گی۔ مگر ہمیں خوب سے خوب تر کی تلاش رہنی چاہئے۔ اسی طرح بچوں کی تربیت کے لئے بھی بلندمعیار پیشِ نظر رہنا چاہئے۔ درجۂ احسان ہمارا مطمح نظر ہونا چاہئے اور حقیقی کامیابی یہ ہے کہ جنت میں ہمارا اور گھروالوں کا ساتھ ہوجو بڑی خوش بختی ہوگی!
  آیئے! اس دعا کے ساتھ اختتام کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ عزم بھی کرتے ہیں کہ ہمیں اہلِ خانہ کے لئے اور اپنے لئے کوشش کرنی ہے۔ اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔ آمین!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK