ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال کے بعد ان کیلئے عوامی عقیدت واحترام ایک لحاظ سے حیران کن ہے۔ منموہن سنگھ نہ تو کرشماتی شخصیت تھے، نہ ہی ان کے پاس وسیع حمایت تھی اور نہ ہی وہ اپنی فصاحت و بلاغت کیلئےجانے جاتے تھے ۔ ان کا کوئی براہ راست سیاسی جانشین بھی نہیں ہے۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ؛ تصویر: آئی این این
ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال کے بعد ان کیلئے عوامی عقیدت واحترام ایک لحاظ سے حیران کن ہے ۔ منموہن سنگھ نہ تو کرشماتی شخصیت تھے، نہ ہی ان کے پاس وسیع حمایت تھی اور نہ ہی وہ اپنی فصاحت و بلاغت کیلئےجانے جاتے تھے ۔ ان کا کوئی براہ راست سیاسی جانشین بھی نہیں ہے ۔ سابق وزیر اعظم جیسے عہدہ پر فائز شخص کے انتقال پر چند عقیدت مندوں یا پارٹی کی طرف سے رسمی بیانات، خالی تعریفیں ایک عام سی بات ہے ۔ لیکن ایسی رسمی تعریف جلد ہی تلخ سچائی کے بوجھ تلے دب جاتی ہے ۔ اس بار ایسا نہیں ہوا ۔
یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ: ’’تاریخ آپ کو ایک قابل وزیر اعظم کے طور پر یاد رکھے گی‘‘
گزشتہ کچھ دنوں سے منموہن سنگھ کے تئیں جو پیار اور احترام پیدا ہوا ہے وہ کسی ایک برادری، کسی ایک پارٹی یا کسی خیال تک محدود نہیں ہے ۔ اس کے پیچھے کسی آئی ٹی سیل کی محنت نہیں ہے ۔ اس کے برعکس جب سوشل میڈیا پر ان کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلانے کی کوشش کی گئی تو وہ ناکام ہو گئی ۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے ٹرول کرنے والوں نے کانگریس پر انہیں نظر انداز کرنے کا الزام لگایا اور انہیں ان کی تعریف کرنے پر توجہ مرکوز کرنی پڑی ۔ حکومت انہیں بھارت رتن دے یا نہ دے، سردار منموہن سنگھ کی بعد از مرگ مقبولیت نے انہیں بھارت رتن کے درجہ تک پہنچا دیا ہے ۔ اس کی وجوہات تلاش کریں تو پہلا اور واضح جواب ان کی شخصیت میں نظرآتا ہے ۔ گاؤں سے آکسفورڈ-کیمبرج تک کا سفر، ایک غریب خاندان سے اقتدار کی چوٹی تک پہنچنے کی جدوجہد سب کو متاثرکرتی ہے۔ وزیر اعظم مودی کو بھی اپنے اس پہلو کو یاد کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا ۔ لیکن ہندوستانی ذہن صرف کامیابی کی پوجا نہیں کرتا ۔ ویسے بھی ان کی جدوجہد کسی سماجی یا سیاسی کارکن کی جدوجہد نہیں تھی۔
یہ بھی پڑھئے: ’’ ڈاکٹر منموہن سنگھ سیاست میں شائستگی اور دیانتداری کی سوغات لے کر آئے تھے! ‘‘
ان کی زندگی کے کامیاب سفر سے زیادہ اہم ان کی شخصیت تھی جس نے اس کامیابی میں اہم کردارادا کیا۔ ان کی نرم گفتار اور شائستہ طبیعت ان سے ملنے والوں کو ہی نظر آتی تھی ۔ ان راقم کو بھی یہ سعادت نصیب ہوئی ۔ دور سے نظر آرہا تھا کہ یہ شخص اقتدار کی چوٹی پر ہونے کے باوجود انا کا شکار نہیں تھا۔ وزیر خزانہ ہونے کے باوجود،ان کا خود سادہ ماروتی-۸۰۰؍ چلانا،اپنے خاندان میں سے کسی کو بھی اپنی طاقت کا فائدہ نہ اٹھانے دینا، نہ ہی اس کا فائدہ اٹھانا، یہ ساری کہانیاں سب کو معلوم نہیں تھیں، نہ ہی انہوں نے ان کی تشہیر کی ۔ اس کے باوجود ان کی سادگی کی تصویر عام لوگوں تک پہنچی ۔ ہندوستانی نفسیات طاقت کے کھلاڑیوں کے سو گناہ معاف کر دیتی ہے، ان کی بہت سی غلطیوں پر آنکھیں بند کر لیتی ہے، لیکن پھر بھی اس شخص کو اپنے ذہن میں ایک خاص درجہ دیتی ہے جو ان سے آگے ہے ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لال بہادر شاستری اور عبدالکلام بیٹھے ہیں ۔ مرنے کے بعد بھی منموہن سنگھ کو ہندوستانی ذہن میں برابر کا درجہ مل رہا ہے ۔