• Wed, 08 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

موہن بھاگوت کو خود اُن کے لوگ سننے کو تیار نہیں

Updated: January 06, 2025, 6:25 PM IST | Mubasshir Akbar | New Delhi

بعد از خرابی ٔ بسیار ملک بھر میں مساجدکے نیچے مندر ڈھونڈنے کی کوششوں کے خلاف موہن بھاگوت کے بیان کا خیر مقدم کیا جاسکتاہے مگر بھگوا خیمہ نے جس طرح آر ایس ایس سربراہ کو ہی ٹرول کرنا شروع کردیا ہے اس سے ظاہرہے کہ سنگھ پریوار نے جو عفریت پیدا کیا ہے وہ اب اس کے قابو سے بھی باہر ہوچکا ہے

Mohan Bhagwat`s statement was not supported by the magazine Organizer, which is considered to be the mouthpiece of the RSS. Photo: INN
موہن بھاگوت کی بات کی تائید خود آر ایس ایس کا ترجمان سمجھے جانےوالےرسالے آرگنائزر نےبھی نہیں کی۔ تصویر: آئی این این

بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت میں اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ وزیراعظم یا کسی سینئر مرکزی وزیر کی جانب سے جب جب اقلیتوں یا مسلمانوں کا نام لے کر ہم آہنگی اور بھائی چارے کی دُہائی دی گئی ہے، تب تب ملک میں نفرت انگیزی کا خوفناک طوفان اُٹھا ہے اور اس کا شکار مسلمان ہی ہوئے ہیں۔ کبھی مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیاکبھی مذہب پر حملہ کیا گیا، کبھی بین مذاہب شادیوں کو لَو جہاد کا نام دے کر ہندوستان کی ثقافت کو پامال کیا گیا اور اب تو مساجد کی بنیاد میں مندر تلاش کئے جانے کی مہم چلا کر بھگوا بریگیڈ کی جانب سے مسلمانوں کو اُکسانے کی سازش شروع کر دی گئی ہے۔ اس کے باوجود ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مسلمانوں نے صبراور امن کا دامن نہیں چھوڑا۔ ان حالات پر ملک میں جو ردعمل سامنے آرہا ہے وہ تو ہے ہی بین الاقوامی سطح پر بھی شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اسی وجہ سے گزشتہ دنوں بی جے پی کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کو پونے میں ایک پروگرام کے دوران اپنے خطاب میں  یہ کہنا پڑا کہ’’ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ اس طرح کے مسائل کو اٹھا کر راتوں رات’ہندوؤں کے لیڈر‘ بن سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ لوگ سماج کی ہم آہنگی کو بے پناہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘‘ ان کے منہ سے یہ بیان بہت عجیب لگ رہا تھا کیوں کہ خود ان کی تنظیم کے زیر تحت آنے والی دیگر تنظیمیں برسوں سے مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے کی کوشش کرتی آئی ہیں۔ بھاگوت کا کہنا تھا کہ’’ ہندوستان ہمیشہ سے ایک تکثیری معاشرہ رہا ہے اور اب بھی ہے، ہمیں دنیا کو یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ملک ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہا تھا اور آگے بھی بغیر کسی پریشانی کے رہ سکتا ہے۔‘‘ موہن بھاگوت جو اس سے قبل بھی اس طرح کے بیانات دے چکے ہیں لیکن ان کے قول و فعل میں تضاد فوراً سامنے آ جاتا ہے۔بھاگوت یہیں نہیں رُکے، انہوں نے آگے کہا کہ’’ رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ نئی جگہوں پر اسی طرح کے مسائل اٹھا کر ہندوؤں کے لیڈر بن سکتے ہیں، یہ قابل قبول نہیں ہے۔ رام مندر کی تعمیر اس لئے کی گئی تھی کہ یہ تمام ہندوؤں کے عقیدہ کا معاملہ تھا لیکن اب ہر روز ایک نیا معاملہ سامنے لایا جا رہا ہے جو سماج کے لئے اور اس کی ہم آہنگی کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ اس سے سماج میں انتشار پیدا ہو گا ۔‘‘ ملک میں جاری فرقہ وارانہ سیاست اور مندر مسجد تنازعات کے دوران آر ایس ایس سربراہ نے تشویش کا اظہار کر کے سبھی کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ آر ایس ایس کی ایماء پر اٹھائے جانے والے تنازعات پر بھاگوت کی ہی تشویش ہر کوئی ہضم نہیں کر پا رہا ہے۔ یاد رہے کہ تقریباً دو سال قبل بھی موہن بھاگوت ناگپور میں اسی طرح کا بیان دے چکے ہیں جس میں انہوں نے سنگھ کی طرف سے مندروں کے حوالہ سے کوئی نئی تحریک چلانے سے توبہ کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات سے انکار نہیں ہے کہ آر ایس ایس نے رام مندر تحریک میں حصہ لیا تھا لیکن اس تحریک میں شامل ہونا تنظیم کی بنیادی فطرت کے خلاف تھا۔ اب آر ایس ایس مستقبل میں کسی مندر تحریک میں شامل نہیں ہوگی لیکن  اسی دوران  انہوں نے وارانسی کی گیان واپی مسجد کا شوشہ چھوڑ دیا تھا۔ حالانکہ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ اب ملک کے فرقوں کے درمیان لڑائی نہیں ہونی چاہئے۔ 

یہ بھی پڑھئے: کیا عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون محفوظ رہے گا؟

  آر ایس ایس اور بی جے پی میں تو یہی ہوتا ہے کہ ’اوپر والوں‘ کی ’نصیحت‘ کو ’نیچے والوں ‘  کے لئےحکم مانا جاتا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھے لیڈران کوئی بات کہیں اور نتیجہ اس کے برعکس ہو۔ اس کی تازہ مثال اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہیں جنہوں نے آر ایس ایس سربراہ کی نصیحت کو قبول کرنے کے بجائے اس کے برخلاف اعلان کردئیے ۔ ابھی یہ چند روز پہلے کی ہی بات ہے جب آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت ایک طرف ہندوؤں کو ملک میں اتحاد اور یکجہتی کی نصیحت کر رہے تھے اور دوسری طرف اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ان کی نصیحت کو اپنے فرقہ پرستانہ بیان سے ہوا میں اڑا رہے تھے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ اس سے قبل بھی موہن بھاگوت کے بیان کو ان ہی کے ساتھی شدت پسندوں نے نظر انداز کیا ہے۔ تازہ معاملے میں ہندو سنتوں کے ادارہ ’اکھل بھارتیہ سَنت کمیٹی‘ ان کے اس بیان سے خوش نہیں نظر آئی اور اس نے بھاگوت کو ایسے معاملے ہندو سنتوں کے  لئے چھوڑ دینے کا مشورہ دے دیا۔ اتراکھنڈ میں جیوترمٹھ پیٹھ کے شنکراچاریہ سوامی اوی مکتیش ورانند سرسوتی نے تنقید کرتے ہوئے بھاگوت  پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے بس وہی کہا جو  انہیں اس وقت سیاسی طور پر سہولت آمیزمحسوس ہوا ۔ روایتی ہندوستانی نظام تعلیم کو فروغ دینے اور ہندو ثقافت و فلسفہ کی گہری سمجھ ‘ کا دعویٰ کرنے والے ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم ’جئے پور ڈائیلاگس‘ نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ ’’آر ایس ایس چیف ہندوؤں کے ترجمان نہیں ہیں اور ہم اپنی زمین کا ایک ایک انچ پھر سے حاصل کر کے رہیں گے۔‘‘ آر ایس ایس کے ہفت روزہ ترجمان رسالہ ’پنچ جنیہ‘ اور ’آرگنائزر‘ نے بھی جب بھاگوت کے تبصروں کی حمایت تو کی لیکن اس پر دبے لفظوں میں تنقید کی تو صاف ہو گیا کہ آر ایس ایس کنبہ میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ بھاگوت کا یہ بیان سامنے آتے ہی سب سے پہلے بابا رام دیو نے اس کی مخالفت شروع کردی تھی ۔ اس کے بعد چند ہی دنوں میں ہی ہندوتوا ٹرولس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر ان  پر تنقیدوں کی جھڑی لگا دی۔آسام کے وزیر اعلیٰ اور خود کو ہمیشہ ’سچ‘ کا علم بردار ماننے والے ہیمنت بسوا شرما کے ایک خود ساختہ حامی مرتیونجے کمار نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ’’میں سبھی آر ایس ایس اراکین سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ موہن بھاگوت  سے فوراً ان کے عہدہ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کریں۔ بھاگوت اب دوسرے واجپئی بن گئے ہیں، اس  لئے انہیں جلد از جلد عہدہ چھوڑنا ہوگا۔‘‘ 

یہ بھی پڑھئے: نفرت کو ہوا دینے والی کمار وِشواس کی بیہودہ بیان بازی

بھاگوت کی مخالفت میں یہ تمام بیانات یہ ظاہر کررہے ہیں کہ شدت پسندی اور نفرت کو ہوا دینا بہت آسان ہوتا ہے لیکن جب روکنے کی بات آتی ہے تو اسے روکنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔  ہمارے خیال میں بھاگوت کو اندازہ ہو گیا ہےکہ ان کی تنظیم نے بابری مسجد کی شہادت کیلئے جو سازش رچی تھی اور جو مذموم تحریک چلائی تھی اس کا پھل تو انہیں رام مندر کی تعمیر سے مل گیا لیکن اس کے بعد پورے ملک میں جس طرح کی نفرت بھر گئی  وہ خود  ان کےلئے بھی نقصاندہ ہے۔ انہیں راحت اندوری  کے اس شعر کی تفسیر بالکل واضح انداز میں سمجھ آگئی ہو گی کہ ’’لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں/یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے‘‘،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نفرت انگیزی ختم کرنے کے لئے آواز تو بلند کی ہے لیکن انہی کی لگائی گئی آگ اب اتنی زیادہ پھیل گئی ہے کہ یہ بجھائے سے نہیں بجھ رہی ہے۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK