’یوجی سی نیٹ‘ کا امتحان رد کیا گیا تھا تو خودوزیرتعلیم نے پیپر لیک کااعتراف کیا تھا، پھر پارلیمنٹ میں انہوں نے یہ کیسے کہہ دیا کہ گزشتہ ۷؍برسوں میں کوئی پیپر لیک نہیں ہوا ہے۔
EPAPER
Updated: July 28, 2024, 3:41 PM IST | Kunal Pathak | Mumbai
’یوجی سی نیٹ‘ کا امتحان رد کیا گیا تھا تو خودوزیرتعلیم نے پیپر لیک کااعتراف کیا تھا، پھر پارلیمنٹ میں انہوں نے یہ کیسے کہہ دیا کہ گزشتہ ۷؍برسوں میں کوئی پیپر لیک نہیں ہوا ہے۔
میلکم ایکس کہا کرتے تھے کہ’’تعلیم مستقبل کا پاسپورٹ ہے‘‘ لیکن مرکزی حکومت کا حالیہ بجٹ اور امتحانات کے حوالے سے مودی حکومت اور عدلیہ کے رویے سے لگ رہا ہے کہ ہندوستان میں طلبہ کے پاسپورٹ بڑی تعداد میں رد کئے جارہے ہیں۔ تعلیم اور امتحانات کے حوالے سے مرکزی حکومت کی سنجیدگی مشکوک ہے۔ مرکز میں بیٹھی مودی حکومت نے۲۵۔ ۲۰۲۴ء کے تعلیمی بجٹ میں گزشتہ سال کے مقابلے۷؍ فیصد سے زیادہ کی کٹوتی کی ہے، اس کے علاوہ اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں ۱۶؍ فیصد سے زیادہ کی کٹوتی کردی گئی ہے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے بجٹ میں ۶۰؍ فیصد سے زیادہ کی کٹوتی کی گئی ہے۔ جس ملک میں ۱۰؍ سال سے ۱۹؍ سال کی عمر کے۲۵؍ کروڑ نوجوان رہ رہے ہوں، وہاں تعلیمی بجٹ میں ایک روپیہ بھی کم نہیں کیا جانا چاہئے۔ مودی سرکار نے تعلیم کے بجٹ میں کمی نہیں کی ہے، درحقیقت اس نے’ہندوستان کے مستقبل‘ کا بجٹ کم کردیا ہے۔ تعلیم کے تئیں اس طرح کی بے حسی کو’جرم‘ کے دائرے میں آنا چاہئے۔
یہ بھی پڑھئے: بی جے پی کی اُلٹی گنتی شروع
حکومت صرف تعلیم کا بجٹ کم نہیں کر رہی ہے بلکہ تعلیم کے تمام پہلوؤں کو بھی یرغمال بناتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ان جہتوں میں سے ایک مسابقتی امتحانات کا مبہم اور امتیازی طرز عمل ہے۔ اگر ہم گزشتہ چند برسوں پر نظر ڈالیں تو کئی قومی اور ریاستی سطح کے امتحانات پیپر لیک کا شکار ہو چکے ہیں لیکن۲۲؍ جولائی کو لوک سبھا میں ایک رکن پارلیمان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے دعویٰ کیا کہ ’’میں ایوان کے سامنے پوری ذمہ داری کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ۷؍ برسوں کے دوران پیپر لیک ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ‘‘
پردھان پارلیمنٹ کے سینئر ممبر ہیں، وہ پارلیمنٹ کی کارروائی سے بخوبی واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی وزیر جھوٹ بولے تو اس کیلئے ’استحقاق کی تحریک‘ لائی جا سکتی ہے۔ اس کے خلاف اگر اعداد و شمار اور رپورٹس پر یقین کیا جائے تو وزیر کے خلاف تجویز پیش کی جانی چاہئے، اگر ہم ملک بھر کے امتحانات کی بات نہ کریں، صرف ان امتحانات ہی پر توجہ مرکوز کریں جن کااہتمام و انتظام پوری طرح سے مرکزی حکومت کرتی ہے تو منتری جی کا پہلا جھوٹ سامنے آجائے گا۔ یوجی سی نیٹ کا یہ امتحان این ٹی اے کی نگرانی میں ۱۸؍ جون کو منعقد ہوا تھا۔ فوراً ہی اس امتحان کے پیپر لیک ہونے کی بات سامنے آگئی تھی۔ اگلے ہی دن حکومت کو یہ امتحان رد کرنا پڑا۔ یوجی سی نے اعتراف کیا تھا کہ امتحان کے ساتھ ’چھیڑ چھاڑ‘ ہوئی ہے۔ ۲۰؍ جون کو وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے خود اعتراف کیا تھا کہ کچھ پرچے ’لیک‘ ہوئے ہیں ، اسلئے معاملہ جانچ کیلئے سی بی آئی کو سونپ دیا گیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ’یوجی سی نیٹ۔ ۲۰۲۴ء‘کا پیپر لیک ہونا وزیر تعلیم کی۷؍ سال کی حد میں نہیں آتا؟
یہ بھی پڑھئے: دوسری پارٹیوں کے ’سیکولر‘ لیڈر بی جے پی میں جاتے ہی فرقہ پرست کیوں ہوجاتے ہیں؟
ایک پرانا کیس’یو جی سی نیٹ۔ ۲۰۲۱ء‘ کے ہندی پیپر کا ہے۔ ۲۶؍ دسمبر۲۰۲۱ء کو ہونے والے اس امتحان کا پیپر لیک ہو گیا تھا۔ ہریانہ پولیس، انڈیا ٹوڈے اور انڈین ایکسپریس کی رپورٹس کے مطابق لیک ہونے کی وجہ سے چھاپے مارے گئے، کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا، انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں امتحان شروع ہونے سے صرف۶؍ گھنٹے قبل واٹس ایپ پر پیپر موصول ہوا تھا۔ اگر وزیر صاحب اسے’لیک‘ نہیں سمجھتے تو وہ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں اور گرفتار لوگوں کے بیانات کی وضاحت کریں۔ سرکاری افسران اور نامور اخبارات’لیک‘ ہونے کی تصدیق کر رہے ہیں اور وزیر کہہ رہے ہیں کہ۷؍ سال سے کوئی پیپر لیک نہیں ہوا۔ کیا وزیر یہ بتانا بھول گئے کہ سی بی آئی نے عدالت کو بتایا تھا کہ روسی ہیکر میخائل شارگن نےُجی مینس ۲۰۲۱ء‘ کے آن لائن سسٹم میں دھاندلی کرکے۸۲۰؍طلبہ کو دھوکہ دینے میں مدد کی تھی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جس سافٹ ویئر کے ساتھ اس نےہیک کیا تھا وہ ’ٹاٹا کنسلٹنسی سروسیز‘ یعنی ’سی سی ایس‘ نے فراہم کیا تھا۔ وزیر صاحب! کیا آپ یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ اس واقعہ کو پیپر لیک کے تحت سمجھا جائے یا نہیں ؟
ایسا ہی ایک معاملہ’نیٖٹ ۲۰۲۱ء‘ کا بھی ہے۔ ’دی نیو انڈین ایکسپریس‘ نے اس پیپر کے لیک ہونے کا پردہ فاش کیا تھا۔ جے پور پولیس نے راجستھان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے امتحانی مرکز سے ۸؍ لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لیک کا تعلق جے پور سے یوپی کے چترکوٹ تک تھا۔ جے پور (مغربی) کے ڈی سی پی کی اپنی تحقیقات میں پیپر لیک کا پتہ چلا تھا۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ وزیر موصوف کو اس بات کا کیسے یقین دلایا جائے کہ نہ صرف پیپر لیک ہوئے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ پیپر لیک ہونے کے واقعات نے ہندوستانی نظام تعلیم میں ایک’کلچر‘ کی شکل اختیار کر لی ہے۔
آنکھیں بند کر کے مسئلوں کو جھٹلانے سے حل نہیں نکالا جا سکتا۔ انتخابی شکست کے خوف سے حکومت کی ہر ناکامی کو مسترد کرنا ملک کے مستقبل کے ساتھ غداری ہے۔ پارلیمنٹ میں راہل گاندھی اور اکھلیش یادو جیسے لیڈروں نے مرکزی حکومت کی بے بسی کو واضح کردیا ہے۔
ایک طویل مضمون سے اقتباس