• Sat, 26 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آپؐ کے اخلاق نے عدی کو ایسا متاثر کیا کہ وہ اسلام قبول کئے بنا رہ نہ سکے

Updated: August 02, 2024, 4:36 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سیرت نبویؐ کے نئے سلسلے میں آپؐ کے اسوۂ حسنہ کا تذکرہ جاری ہے۔ آج حاتم طائی کے بیٹے عدی کے قبول اسلام کا واقعہ پڑھئے، اس کے علاوہ آپؐ کے معمولات نیز بیماروں اور ناداروں سے شفقت کے واقعات بھی ملاحظہ کیجئے۔

In the light of His Highness, we should examine ourselves to see how compassionate or gentle we are towards others. Photo: INN
آپؐ کے اعلیٰ اخلاق کی روشنی میں ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم دوسروں کے تئیں کتنے ہمدرد یا نرم دل ہیں۔ تصویر : آئی این این

عدی بن حاتم کا قصہ
عدی بن حاتم عرب کے مشہور سخی حاتم طائی کا بیٹا تھا، اس کی بہن سفانہ قید ہوکر مدینے آئی تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوا کہ سفانہ حاتم کی بیٹی ہے آپؐ نے اس کے ساتھ حسن سلوک کیا، اسے بھی رہا کردیا اور اس کے ساتھ جو دوسرے قیدی تھے انہیں بھی رہا فرمادیا۔ سفانہ نے واپس جاکر اپنے بھائی عدی کو خوب لعنت ملامت کی اور اسے ترغیب دی کہ وہ مدینے جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے۔ بہن کی ترغیب پر عدی مدینے حاضر ہوا۔ اس وقت مکہ فتح ہوچکا تھا۔ مال غنیمت کی صورت میں مال ودولت کا دریا بہہ رہا تھا، عرب کی اکثریت اسلام کے دامن رحمت میں آچکی تھی۔ عدی مدینے پہنچے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبویؐ میں تشریف فرما تھے، کچھ دیر تو وہیں بیٹھے رہے اور بات چیت ہوتی رہی۔ کچھ دیر بعد آپؐ نے فرمایا: عدی آؤ میرے ساتھ گھر چلو، باقی باتیں وہیں بیٹھ کر ہوں گی۔ عدی ساتھ ساتھ چلے، راستے میں ایک بوڑھی عورت ملی، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا اور گفتگو کرنے لگی، آپؐ اس کی باتیں غور سے سن رہے تھے، جب تک اس نے اپنی بات پوری نہ کرلی آپؐ پوری بشاشت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ رہے۔ عدی نے یہ منظر دیکھا تو متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، اسے یقین ہوگیا کہ اتنی متواضع اور بااخلاق شخصیت کسی دنیا دار بادشاہ کی نہیں ہوسکتی بلکہ یہ اخلاق اور تواضع کسی نبی کا ہی ہوسکتا ہے۔ اس منظر نے عدی کے دل میں ایسا گھر کیا کہ وہ اسلام قبول کئے بغیر نہ رہ سکے۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام: ۴/۲۲۴)
غیر مسلموں کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ:
آپؐ کے یہ اعلیٰ اخلاق صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں تھے بلکہ آپ غیر مسلموں کے ساتھ بھی اسی طرح تواضع اور اخلاق سے پیش آیا کرتے تھے۔ حضرت انسؓ نے ایک یہودی بچے کا واقعہ بیان فرمایاہے، یہ لڑکا آپؐ کی خدمت میں رہا کرتا تھا، ایک دن خبر ملی کہ وہ یہودی بچہ بیمار ہے، آپ عیادت کے لئے اس کے گھر تشریف لے گئے اس کے سرہانے تشریف فرما ہوئے، اس کے سر پر دست شفقت رکھا اور فرمایا: اسلام لے آؤ! بچے نے باپ کی طرف دیکھا، گویا اجازت مانگ رہا ہو، باپ نے کہا: ابو القاسم کا حکم مان لو، بچّے نے اسلام قبول کرلیا، آپؐ باہر تشریف لائے اورساتھیوں سے فرمایا: اللہ کا شکر ہے اس نے بچے کو آگ سے بچا لیا۔ (صحیح البخاری: ۲/۹۴، رقم الحدیث: ۱۳۵۶) 

یہ بھی پڑھئے:انکساری و عاجزی اس قدر تھی کہ سامنے ہونے کے باوجود اجنبی آپؐ کو پہچان نہ پاتا

ایک مرتبہ آپؐ تشریف فرما تھے، اتنے میں ایک جنازہ گزرا، آپؐ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوگئے، لوگوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا، آپؐ نے فرمایا: کیا یہودی انسان نہیں ہوتے۔ (صحیح البخاری: ۲/۸۵، رقم الحدیث: ۱۳۱۲)
گھریلو کاموں میں معاونت
حضرت عائشہؓ سے کسی نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کس طرح رہا کرتے تھے، آپ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام انسانوں کی طرح ایک انسان تھے، اپنی بکریوں کا دودھ خود نکال لیا کرتے تھے، اپنا کام خود کرلیا کرتے تھے۔ (الادب المفرد ص:۱۶۵) ایک مرتبہ آپؐ ساتھیوں کے ساتھ کسی سفر میں تھے، کھانے کے لئے بکری ذبح کی گئی، تمام ساتھیوں نے کھانا پکانے کے کام تقسیم کرلئے، کسی نے کھال اتارنے کا کام اپنے ذمے لیا، کسی نے بوٹیاں بنانے کا، کسی نے پکانے کا، آپ نے فرمایا لکڑیاں اکٹھی کرکے میں لاؤں گا۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ رہنے دیں ، یہ کام بھی ہم میں سے کوئی کرلے گا، آپؐ نے فرمایا: میں جانتا ہوں تم یہ کام بھی کرلوگے مگر مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ میں لوگوں میں امتیازی حیثیت اختیار کروں ، اللہ بھی اسے پسند نہیں فرماتے۔ (سبیل الہدی :۷/۱۳)
پیدل چلنے کا معمول
حالاں کہ آپ کے پاس اونٹنی بھی تھی، خچر بھی تھا، مگر آپ دور دراز کے اسفار کے لئے ہی ان جانوروں پر سوار ہوتے، قرب وجوار میں آنے جانے کے لئے پیدل چلنے کو ترجیح دیا کرتے تھے، حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بیمار پڑا، آپؐ میری عیادت کے لیے تشریف لائے، نہ آپ خچر پر سوار تھے، نہ ترکی گھوڑے پر بلکہ پیدل چل کر تشریف لائے۔ (صحیح البخاری: ۷/۱۱۶، رقم الحدیث: ۵۶۵۱) 

یہ بھی پڑھئے:فتاوے: اسلام میں بارات، جہیز اور منگنی وغیرہ کا کوئی تصور نہیں،مشترکہ کاروبار کا ایک مسئلہ

خصائل شرح شمائل میں ہے کہ آپ امراء وسلاطین کی طرح سواری کے عادی نہ تھے بلکہ پا پیادہ کثرت سے چلتے تھے، بخاری شریف کی روایت میں اس عیادت کا قصہ ذرا مفصل ہے، وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جابرؓ بیمار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ دونوں ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، گھر پہنچ کر دیکھا کہ جابرؓ مرض کی شدت سے بے ہوش پڑے ہوئے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور اس کا بچا ہوا پانی ان کے اوپر چھڑکا، جس سے انہیں افاقہ ہوگیا، حضرت جابرؓ نے ہوش میں آکر دیکھا کہ دونوں حضرات ان کے قریب بیٹھے ہوئے ہیں۔ (خصائل نبوی ص:۲۹۴)
بیماروں اور ناداروں کے ساتھ
آپ کسی مریض سے دور ی اختیار نہیں فرماتے تھے، ایک مرتبہ آپؐ نے ایک جذامی کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرلیا، اور فرمایا: کھاؤ، بسم اللّٰہ، وثقۃً باللّٰہ، وتوکلا علیہ۔ (اللہ کے نام پر، اس پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہوئے کھاؤ) (سنن الترمذی: ۴/۲۶۶، رقم الحدیث: ۱۸۱۷)
گاؤں کا رہنے والا ایک شخص جس کا نام زاہر تھا، آپؐ سے بڑی محبت کرتا تھا، اس کا معمول ہدیہ بھیجنے کا تھا۔ آپؐ کو بھی اس سے بڑی محبت تھی، دیکھنے میں وہ بڑا معمولی سا شخص تھا، گندے سندے کپڑوں میں رہا کرتا تھا، ایک مرتبہ آپؐ بازار تشریف لے گئے، دیکھا کہ زاہر وہاں بیٹھا ہوا کچھ فروخت کررہا ہے، آپؐ چپکے سے اس کے پیچھے جاکر کھڑے ہوگئے اور اس کو دبوچ لیا، وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگا، اور جب اس نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ اس کے ساتھ ہیں تو اس نے آپ ؐ کے جسم اطہر سے خود کو اور قریب کرلیا ، اور چھڑانے کی جو کوشش وہ کررہا تھا اس نے وہ کوشش ترک کردی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم از راہ مذاق اسے دبوچے رہے اور پکار پکار کر کہنے لگے اس غلام کو کون خریدے گا، اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ تو گھاٹے کا سودا ہوگا، اس کا مطلب یہ تھا کہ میں ایک حقیر اور معمولی انسان ہوں ، بھلا مجھے کون خریدے گا، آپؐ نے فرمایا: مگر تو اللہ کے نزدیک گھاٹے کا سودا نہیں ہے، بلکہ اللہ کے نزدیک تو انتہائی بیش قیمت ہے۔ (مسند احمد بن حنبل: ۲۰/۹۱، رقم الحدیث: ۱۲۶۴۹)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK