• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ادیب پیدا ہوتا ہے، بنایا نہیں جاتا

Updated: September 01, 2024, 1:03 PM IST | Munshi Premchand | Mumbai

ہمیں اکثر یہ شکایت ہوتی ہے کہ ادیبوں کے لئے سوسائٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے، یعنی ہندوستان کے ادیبوں کو۔ مہذب ملکوں میں تو ادیب سوسائٹی کا معزز رکن ہے اور وزراء اور امراء اس سے ملنا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں مگر ہندوستان تو ابھی تک قرون وسطیٰ کی حالت میں پڑا ہوا ہے۔

We should choose the subject according to our taste and aptitude and acquire scholarly mastery over it. Photo: INN
ہمیں اپنے مذاق اور طبعی میلان کے مطابق موضوع کا انتخاب کر کے اس پر عالمانہ عبور حاصل کرنا چاہئے۔ تصویر : آئی این این

ہمیں اکثر یہ شکایت ہوتی ہے کہ ادیبوں کے لئے سوسائٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے، یعنی ہندوستان کے ادیبوں کو۔ مہذب ملکوں میں تو ادیب سوسائٹی کا معزز رکن ہے اور وزراء اور امراء اس سے ملنا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں مگر ہندوستان تو ابھی تک قرون وسطیٰ کی حالت میں پڑا ہوا ہے۔ مگر ادب نے جب امراء کی دریوزہ گری کو ذریعہ ٔحیات بنا لیا ہو اور ان تحریکوں اور ہلچلوں اور انقلابوں سے بے خبر ہو جو سوسائٹی میں ہورہے ہیں، اپنی ہی دنیا بنا کر اس میں روتا ہنستا ہو تو اس دنیا میں اس کے لئے جگہ نہ ہونا انصاف سے بعید نہیں ہے۔ جب ادیب کیلئے موزوں طبیعت کے سوا کوئی قید نہیں رہی یا اسی طرح جیسے مہاتما پن کے لئے کسی قسم کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے، ان کی روحانی بلندی ہی کافی ہے تو جیسے مہاتما لوگ در در پھرنے لگے، اسی طرح ادیب بھی لاکھوں کی تعداد میں نکل آئے۔ 
اس میں شک نہیں کہ ادیب پیدا ہوتا ہے، بنایا نہیں جاتا لیکن اگر ہم تعلیم اور طلب سے اس فطری عطیے میں اضافہ اور وسعت پیدا کر سکیں تو یقیناً ہم ادب کی بنیادی خدمت کرسکیں گے۔ ارسطو نے بھی اور دوسرے حکماء نے بھی ادیبوں کے لئے سخت شرطیں عائد کی ہیں اور ان کی ذہنی، اخلاقی، روحانی جذباتی تہذیب اور ترتیب کے لئے اصول اور طریقے مقرر کر دیئے ہیں۔ مگر آج تو ادیب کیلئے ضرورت نہیں۔ وہ سیاسیات، نفسیات اور معاشیات وغیرہ علوم سے بالکل بے گا نہ ہو، پھر بھی وہ ادیب ہے۔ حالانکہ ادب کے سامنے آج کل جو آئیڈیل رکھا گیا ہے اس کے مطابق یہ سبھی علوم اس کے جزو خاص بن گئے ہیں اور اس کا رجحان داخلیت یا انفرادیت تک محدود نہیں رہا۔

یہ بھی پڑھئے:عصمت بابا

وہ نفسیاتی و معاشی ہوتا جاتا ہے۔ وہ اب فرد کو جماعت سے الگ نہیں دیکھتا بلکہ فرد کو جماعت کے ایک حصہ کی شکل میں دیکھتا ہے، اسلئے نہیں کہ وہ جماعت پر حکومت کرے، اسے اپنی غرض کا آلہ بنائے گویا جماعت میں اوراس میں ازلی دشمنی ہے بلکہ اس لئے کہ جماعت کی ہستی کے ساتھ اس کی ہستی بھی قائم ہے اور جماعت سے الگ وہ صفر کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
ہم میں جنہیں بہترین تعلیم اور بہترین ذہنی قویٰ ملے ہیں، ان کے اوپر سماج کی اتنی ہی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ جس طرح سرمایہ دار کو ہم غاصب اور جابر کہتے ہیں کیونکہ وہ عوام کی محنت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے، اسی طرح ہم اس ذہنی سرمایہ دار کو بھی پرستش کے قابل نہ کہیں گے جو سماج کے پیسہ سے اور اونچی سے اونچی تعلیم پا کر اسے اپنی ذاتی مفاد کیلئے استعمال کرتا ہے۔ سماج سے ذاتی نفع حاصل کرنا ایسا فعل ہے جسے کوئی ادیب کبھی پسند نہیں کریگا۔ اس سرمایہ دار کا فرض ہے کہ وہ جماعت کے فائدہ کو اپنی ذات سے زیادہ توجہ کے لائق سمجھے۔

یہ بھی پڑھئے:شاعری اور ادب کیلئے یہ ضروری نہیں کہ وہ وقتی سیاست کے اشاروں پر چلے

اپنے علم و کمال سے جماعت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے۔ وہ ادب کی کسی صنف میں بھی قدم کیوں نہ رکھے، اسے اس صنف پر خصوصاً اور عام حالات سے عموماً واقف ہو نا چاہئے۔ اگر ہم بین الاقوامی ادیبوں کی کانفرنسوں کی رپورٹیں پڑھیں تو ہم دیکھیں گے ایسا کوئی علمی، معاشی، تاریخی اور نفسیاتی مسئلہ نہیں ہے جس پر ان میں تبادلۂ خیالات نہ ہوتا ہو۔ اس کے برعکس ہم اپنے مبلغ علم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی بے علمی پر شرم آتی ہے۔ ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ حاضر طبیعت اور رواں قلم ہی ادب کیلئے کافی ہے۔ ہماری ادبی پستی کا باعث یہی خیال ہے۔ ہمیں اپنے ادیب کا علمی معیار اونچا کرنا پڑے گا تاکہ وہ جماعت کی زیادہ قابل قدر خدمت کر سکے، تاکہ جماعت میں اسے وہ درجہ ملے جو اس کا حق ہے، تاکہ وہ زندگی کے ہر شعبہ سے بحث کرسکے اور ہم دوسری زبانوں کے ادیبوں کے دسترخوان کے جھوٹے نوالے ہی کھانے پر قناعت نہ کریں بلکہ اس میں خود بھی اضافہ کریں۔ 
ہمیں اپنے مذاق اور طبعی میلان کے مطابق موضوع کا انتخاب کر لینا چاہئے اور اس موضوع پر عالمانہ عبور حاصل کرنا چاہئے۔ ہم جس اقتصادی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں، اس میں یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ہمارا معیار اونچا رہنا چاہئے۔ اگر ہم پہاڑ کی چوٹی تک نہ پہنچ سکے تو کمر تک تو پہنچ ہی جائینگے، جو سطح زمین پر پڑے رہنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ اگر ہمارا باطن محبت سے منور ہو اور خدمت کا معیار ہمارے پیش نظر ہو، جو اسی محنت کی ظاہری صورت ہے تو ایسی کوئی مشکل نہیں جس پر ہم فتح نہ پا سکیں۔ جنہیں دولت و ثروت پیاری ہے ان کیلئے ادب کے مندر میں جگہ نہیں ہے۔ یہاں توان اُپا سکوں کی ضرورت ہے جنہوں نے خدمت کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھ لیا ہے۔ جن کے دل میں تڑپ ہو اور محبت کا جوش ہو۔ 
(’مضامین پریم چند‘ سے ایک اقتباس)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK